سکرپٹڈ ویڈیوز جو انڈیا میں نفرت کی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہی ہیں

بی بی سی اردو  |  Aug 11, 2023

انڈیا میں رواں برس ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی جس کو لاکھوں افراد نے آن لائن دیکھا ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک آدمی برقعہ اوڑھے ہوئی ایک خاتون پر حملہ کرتا ہے اور نوچ کر اس کا نقاب اُتار پھینکتا ہے۔ برقعہ اوڑھے ہوئی خاتون کی گود میں ایک بچہ ہوتا ہے مگر نقاب اُترنے پر واضح ہوتا ہے کہ برقعے کے اندر دراصل کوئی عورت نہیں بلکہ ایک مرد تھا۔

اس مختصر سے کلپ کے ساتھ ہندی زبان میں یہ تنبیہی پیغام ہوتا ہے کہ برقعہ استعمال کرنے والے مجرموں سے ’محتاط رہیے‘ جو بھیس بدل کر بچوں کو اغوا کرتے ہیں۔

رواں سال کے آغاز میں یوٹیوب پر اپ لوڈ ہونے والی اس ویڈیو کے ڈیلیٹ کیے جانے سے قبل اسے دو کروڑ نوے لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا تھا۔

یہ ویڈیو حقیقت پر مبنی نہیں تھی بلکہ ’عوام کو متنبہ‘ کرنے کے لیے یہ کلپ بنایا گیا تھا جس میں نظر آنے والے افراد غیر معروف اور شوقیہ فنکار تھے۔

سکرپٹڈ ویڈیوز یعنی بظاہر تفریح کے لیے بنایا گیا مواد انڈیا میں سچے واقعات کے طور پر سوشل میڈیا پر تیزی سے شیئر کیا جاتا ہے۔ اکثر ویڈیوز کے ساتھ جھوٹے اور من گھڑت دعوے بھی پوسٹ کیے جاتے ہیں جو معاشرے میں مذہبی منافرت اور بدگمانی کو ہوا دیتے ہیں۔

مئی 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انڈیا میں مذہبی کمیونٹیز، خاص طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خود سے گھڑے گئے جھوٹے بیانیے خاص طور پر خواتین کے حوالے سے اخلاقی پولیسنگ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

اس نوعیت کی ویڈیوز بنانے اور انھیں پوسٹ کرنے کا رجحان ہندی، تمل، ملیالم، گجراتی، مراٹھی اور تیلگو سمیت متعدد انڈین زبانوں تک پہنچ چکا ہے اور بعض اوقات مقامی میڈیا کے ادارے ایسی ویڈیوز کو خبر بھی سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کی مزید تشہیر کا باعث بنتے ہیں۔

گذشتہ چند برسوں کے دوران اس نوعیت کی ویڈیوز کے حوالے سے بہت سے انڈین ریاستوں میں حکام کو انتباہ جاری کرنا پڑے ہیں جبکہ ہجوم کی جانب سے کئی افراد کو صرف اس لیے بھی نشانہ بنایا گیا کیونکہ ان کے خیال میں کوئی مشتبہ اشخاص اغواکار تھے۔

یہ ویڈیوز خطرناک کیوں ہیں؟

اس نوعیت کی ویڈیوز زیادہ ویوز حاصل کرنے کے لیے جانتے بوجھتے غلط معلومات کے ساتھ پوسٹ کی جاتی ہیں، جو سوشل میڈیا پر صارفین کو کنفیوژ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

اس نوعیت کی ویڈیوز پر ’انتباہ‘ کے نام پر ڈسکلیمرز (disclaimers) لگائے جاتے ہیں مگر انھیں یا تو اتنی چھوٹی عبارت میں لکھا جاتا ہے کہ عام آدمی اسے پڑھ ہی نہ سکے یا انھیں ویڈیوز کے آغاز کے بجائے درمیان میں یا آخر میں لگایا گیا ہوتا ہے۔

اکثر اوقات، اس نوعیت کا انتباہ انگریزی زبان میں لکھا ہوتا ہے جو مقامی زبانیں بولنے والے افراد کو سمجھ ہی نہیں آتا۔

آلٹ نیوز کے فیکٹ چیک کے مطابق برقع پہنے ہوئے شخص کی ویڈیو (جس کا اس رپورٹ کی ابتدا میں ذکر ہے) پر یہ نوٹ لگایا گیا تھا کہ ’یہ فکشن ورک ہے‘ مگر یہ نوٹ سکرین پر صرف ایک سیکنڈ کے لیے نظر آتا ہے۔

اس نوعیت کا مواد بنانے والے دیگر افراد ویڈیوز کو زیادہ حقیقت پسندانہ رنگ دینے کی غرض سے سی سی ٹی وی ٹیمپلیٹس (templates) کا اضافہ کرتے ہیں۔

ایسی ہی ایک ویڈیو جو دسمبر 2021 میں وائرل ہوئی تھیجسے متعدد زبانوں میں بغیر ثبوت کے اِن دعوؤں کے ساتھ شیئر کیا گیا کہ مسلمان مرد، ہندو لڑکیوں کو کھانے کے ذریعے مدہوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ویڈیو کے نیچے تبصرے کے سیکشن سے واضح تھا کہ بہت سے لوگ اس ویڈیو کو اصل سمجھ رہے تھے جبکہ بہت سے صارفین اسے اصل سمجھنے کی بنیاد پر اسلام مخالف تبصرے کرتے پائے گئے۔ ایک صارف نے لکھا ’لو جہاد سےخبردار رہیں۔‘

ریاست حیدر آباد میں مقیموینکت سیپنا اسی نوعیت کا مواد بناتے ہیں۔ ان کی بنائی گئی زیادہ تر ویڈیوز میں وہ سی سی ٹی وی کلپس کی طرح کے ریکارڈنگ سائن اور ٹائم سٹیمپ استعمال کرتے ہیں تاکہ ویڈیوز حقیقت سے انتہائی قریب لگیں۔ اُن کے یوٹیوب چینل کے 12 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں اور ان کے چینل پر 400 سے زیادہ ویڈیوز موجود ہیں۔

ان کی بنائی گئی ایک ویڈیو میں ایک درزی کو ایک خاتون کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اسے ٹوئٹر اور فیس بُک پر متعدد بار اس دعوے کے ساتھ شیئر کیا گیا کہ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے ایک مسلمان مرد (درزی) ایک ہندو عورت کے ساتھ بدسلوکی کر رہا ہے اور پھر ویڈیو ان تبصروں کے ساتھ بھی پوسٹ ہوئی کہ ’ہندو بہنوں اور بیٹیوں سے درخواست ہے کہ وہ مسلمانوں کی دکانوں پر نہ جائیں، یہ بُری ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں۔‘

سیپنا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ یہ ویڈیوز ’آگاہی پھیلانے‘ اور ’حقیقی زندگی میں پیش آنے والی صورتحال‘ کے بارے میں بتانے کے لیے بناتے ہیں۔

صحافی اور ڈس انفارمیشن محقق عالیشان جعفری کا کہنا ہے کہ وائرل ہونے والی اس نوعیت کی ویڈیوز کے نتیجے میں بھلے تشدد کے واقعات پیش نہ آتے ہوں مگر یہ ویڈیوز معاشرے میں موجودہ مذہبی تعصبات کو مزید گہرا کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

’یہ ویڈیوز ایک ایسے معاشرے میں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں جو جو پہلے ہی منقسم اور پولرائزڈ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ویڈیوز کا نشانہ مخصوص کمیونٹیز، خاص طور پر مسلمان ہوتے ہیں اور جب یہ ویڈیو وائرل ہوتی ہیں، تو یہ اقلیتی برادری کے خلاف تشدد کی فضا میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بعض اوقات ان سکرپٹڈ ویڈیوز، جو ناصرف معاشرے میں کنفیوژن پھیلانے کا باعث بنتی ہیں، کو آن لائن مزید غلط معلومات پھیلانے کے لیے جانتے بوجھتے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان میں سے چند ویڈیوز ایسی ہوتی ہیں جو دوستوں، خاندان کے افراد اور عمر میں بہت زیادہ فرق والے لوگوں کے درمیان ناجائز تعلقات کی تصویر کشی کرتی ہیں۔

ایسی ہی دو ویڈیوز رواں برس مئی میں بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں جن کے ذریعے ہندو کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا گیا۔

پہلی ویڈیو میں زعفرانی لباس میں ملبوس ایک آدمی کو دکھایا گیا جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنی بہن سے شادی کرنے جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ زعفرانی رنگ ہندو مذہب سے وابستہ ایک رنگ ہے۔

دوسری ویڈیو میں وہی خاتون برقع میں اس شخص کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے اور وہ کہتا ہے کہ وہ ہندو مذہب میں داخل کرنے کی غرض سے اس خاتون سے شادی کر رہا ہے۔

ان دونوں ویڈیوز میں نظر آنے والے مرد اور عورت دیگر کئی ویڈیوز میں مختلف کرداروں کو ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

ان ویڈیوز کے اصل کلپس ایک ایسے یوٹیوب چینل پر آج بھی موجود ہیں جس کے سبسکرائبرز کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے اور اس چینل پر عموماً سکرپٹڈ ویڈیوز پوسٹ کی جاتی ہیں۔

جب بی بی سی نے چینل کے مالک وکرم مشرا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ ان کی ویڈیوز کوصارفین حقیقی سمجھ بیٹھتے ہیں،تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہم سب مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ میں ایسی ویڈیوز بناتا ہوں جو معاشرے کے رجحانات کے مطابق اچھی ہوں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ایسی ویڈیوز محض انٹرٹینمنٹ اور ویوز حاصل کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں اور ان کے یوٹیوب چینل سے حاصل ہونے والی آمدن سے ان 12 افراد کا گزر بسر ممکن ہو پاتا ہے جو چینل کے لیے کام کرتے ہیں۔

بی بی سی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے رابطہ کیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ ان کی ایسی سکرپٹڈویڈیوز کے حوالے سے کیا پالیسی ہے جنھیں سیاق و سباق کے بغیر شیئر کیا جاتا ہے۔

میٹا کے ایک ترجمان نے کہا کہ اُن کے پاس ’فیس بُک پر تشدد کو ہوا دینے والے مواد کی ممانعت کے واضح اصول ہیں‘ اور وہ اِن قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے تمام تر مواد کو ہٹا دیتے ہیں۔

یوٹیوب نے بھی کہا کہ اس پلیٹ فارم کی پُرتشدد یا گرافک مواد، غلط معلومات اور گمراہ کن مواد کے حوالے سے سخت پالیسیاں ہیں۔

ایکس، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، نے ایک آٹو جواب بھیجا کہ وہ جلد ہی اس بابت جواب فراہم کریں گے۔

آپ سکرپٹ شدہ ویڈیوز کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟

’فیکٹ کریسینڈو‘ کے منیجنگ ایڈیٹر ہریش نائر کہتے ہیں کہ ’سٹیجڈ ویڈیوز دوسرے ممالک میں بھی تیار اور شیئر کی جاتی ہیں لیکن انڈینز اِن پر زیادہ ہی یقین رکھتے ہیں اور نتیجتاً یہ ملک میں وائرل ہو جاتی ہیں اور ’قدامت پسند‘ صارفین کی توجہ حاصل کرتی ہیں۔‘

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ انڈینز میں یہ رجحان بھی ہے کہ وہ ان ویڈیوز کو لازمی شیئر کرتے ہیں جو اُن کے خیال میں مفاد عامہ کے لیے پوسٹ کی جاتی ہیں۔

ان کے مطابق سٹیجڈ ویڈیوز کا ’معاشرے پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے کیونکہ وہ معاشرے میں پہلے سے موجود عقائد اور جذبات کی توثیق کرتی ہیں۔‘

انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے پالیسی ڈائریکٹر پرتیک واگھرے بھی اس رائے سے متفق ہیں۔ ’میڈیا کے حوالے سے زیادہ لیٹریسی کا نہ ہونا بھی اس مسئلے کا ایک پہلو ہے لیکن یہ ایک ایسے معاشرے میں ہو رہا ہے جہاں پہلے ہی سماجی تقسیم موجود ہے۔

لیکن یہ چیک کرنے کے طریقے موجود ہیں کہ آیا ویڈیو واقعی سکرپٹڈ ہے۔

’نیوز چیکر‘ کی منیجنگ ایڈیٹر روبی ڈھینگرا کہتی ہیں کہ ناظرین کو کیمرے کے زاویوں، مقامات، کرداروں کے ردعمل اور ویڈیو میں استعمال ہونے والی زبان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیمرے کے سامنے موجود لوگ کیمرے سے چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں یا اس کے لیے پوز دے رہے ہیں۔ کرداروں کی آواز فطری ہے یا وہ اونچی آواز میں اورایکٹنگ کر رہے ہیں۔

ڈھینگرا کہتی ہیں کہ اس بات کا ’انتہائی امکان نہیں‘ کہ ایک واقعے کو متعدد کیمرے بغیر کسی رکاوٹ کے ریکارڈ کر رہے ہوں جیسا کہ سکرپٹڈ ویڈیوز میں ہوتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More