سپریم کورٹ کے فیصلے نے نواز شریف کی پاکستان واپسی کے لیے کیا مشکلات پیدا کی ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 11, 2023

Getty Images

سپریم کورٹ کی جانب سے 11 اگست کو ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے کالعدم قرار دیے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا اس فیصلے نے مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی ملک واپسی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔

نواز شریف کو 2017 میں پانامہ پیپرز کیس میں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا۔ پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں کیپیٹل ایف زیڈ ای جبل علی نامی کمپنی کے بارے میں 2013 میں اپنے کاغذات نامزدگی میں ذکر نہ کرنے کے باعث میاں محمد نواز شریف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق نہیں رہے اور اسی وجہ سے وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیے جاتے ہیں۔

دسمبر 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں انھیں سات سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم وہ عدالتی اجازت کے بعد علاج کی غرض سے نومبر 2019 میں بیرونِ ملک روانہ ہوئے تھے اور اس کے بعد سے وہ واپس پاکستان نہیں آئے۔

ان کی غیرموجودگی میں انھیں عدالت کی جانب سے اشتہاری بھی قرار دیا جا چکا ہے۔

تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کی شب جیو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نواز شریف ستمبر 2023 میں نہ صرف پاکستان واپس آ جائیں گے بلکہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کی قیادت بھی کریں گے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ خود لندن جا کر نواز شریف کی واپسی کے پروگرام کو مشاورت کے بعد حتمی شکل دیں گے اور ’اگر اللہ نے چاہا تو وہ اگلے ماہ پاکستان واپس آجائیں گے۔‘

مسلم لیگ ن کے صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وطن واپسی پر نواز شریف قانون کا سامنا کریں گے۔

اس قانون میں کیا تھا جس کی وجہ سے نواز شریف کو ریلیف مل سکتا تھا؟

رواں برس مئی میں پاکستانی پارلیمان سے منظور ہونے والے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 کے تحت سب سے اہم تبدیلی یہ تھی کہ ازخود نوٹس کے مقدمات میں فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا اور اس نظرثانی کا دائرہ کار اپیل جیسا ہی ہونا تھا۔

اس قانون کے تحت دوسری اہم تبدیلی یہ کی گئی تھی کہ ایسے فیصلوں پر نظرثانی کی اپیل کی سماعت اس بینچ سے بڑا بینچ کرے گا جس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی ہو۔

بل میں کہا گیا تھا کہ نئے قانون کے تحت کسی بھی فیصلے کے بعد 60 دن کے اندر نظرثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی تھی۔

قانون کے تحت اپیل کنندہ کو اپنا وکیل بھی تبدیل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ نئے قانون کے تحت ان افراد کو بھی اپیل کا حق حاصل ہو گا جن کے خلاف اس قانون کے نافذ العمل ہونے سے پہلے فیصلہ سنایا گیا ہو تاہم ایسے افراد کو قانون نافذ ہونے کے 60 دن کے اندر اپیل دائر کرنا تھی۔

حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بل کا مقصد سپریم کورٹ کو فیصلوں اور احکامات پر نظرثانی کے اختیارات کے استعمال میں سہولت دینا ہے تاہم تحریکِ انصاف نے اس قانون کو نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ نواز شریف کو جس مقدمے میں سزا سنائی گئی وہ بھی آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت لیے گئے ازخود نوٹس کے نتیجے میں ہی شروع ہوا تھا، اس لیے قانون برقرار رہنے کی صورت میں انھیں بھی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ملا تھا تاہم ان کی جانب سے اپیل دائر ہونے سے قبل ہی یہ قانون سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔

Getty Imagesعدالتی فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ قانون پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز کے مترادف ہے اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو۔

78 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے کہا ہے یہ اصول طے شدہ ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا اور سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نے آئین کا تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے اور کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کے اختیار کو انتہائی احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔‘

عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک قانون کو اس وقت کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے جب اس کی شقیں آئین سے ہم آہنگی رکھتی ہوں لیکن ریویو آف ججمنٹ ایکٹ آئین پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے اور اسے کسی صورت آئین سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

عدالت نے کہا ہے کہ اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو ’مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا۔‘

نواز شریف کی نااہلی کے خاتمے کی کوششوں پر کیا اثر پڑے گا؟

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کی نااہلی کی مدت پر دو مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔

سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جمعے کو ازخود نوٹس کے فیصلوں پر نظرِثانی کا قانون کالعدم قرار دینے سے نواز شریف کی نااہلی سے متعلق معاملات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ پارلیمنٹ کی جانب سے متفقہ طور پر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نواز شریف کی نااہلی پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم تارڑ نے اس فیصلے کو ’افسوسناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر عدالتیں بار بات پارلیمان کے اختیار میں مداخلت کریں گی۔۔۔ تو یہ اچھی روایت نہیں ہوگی۔ اس سے ادارے کمزور ہوں گے۔‘

سابق وزیر قانون نے کہا کہ اس کی ٹائمنگ سے تاثر ملتا ہے کہ پارلیمان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا تاکہ پارلیمان اسے دوبارہ نہ لاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نواز شریف کی نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر ہوئی۔ سیاست میں حصہ لینا بنیادی حقوق کا معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن کی دفعہ 232 کے تحت ’نواز شریف سمیت درجنوں افراد جنھیں تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا وہ پانچ سال کا عرصہ گزارنے کے بعد اہل ہوچکے ہیں۔‘

تاہم اس موقف کے برعکس بعض قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی جس ادارے، یعنی سپریم کورٹ، سے ہوئی اسی ادارے نے اپنے ایک فیصلے میں اس کی مدت کا تعین بھی کیا ہے (یعنی اسے تاحیات قرار دیا ہے) اور جب تک سپریم کورٹ اپنے اس فیصلے پر نظرِثانی نہیں کرتی صرف الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے نواز شریف کی نااہلی کی مدت کا دوبارہ تعین نہیں کیا جا سکتا۔

BBC

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون شعیب شاہین نے بتایا کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کو اپنی نااہلی کے خلاف ملنے والا اپیل کا حق اب ختم ہوگیا ہے تاہم اگر کسی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو عدالت میں چیلنج کر دیا اور اسے بھی عدالت نے کالعدم قرار دیا تو پھر نواز شریف اور جہانگیر ترین کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

ماہر قانون خالد رانجھا کی قانونی رائے اس سے مختلف ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ قانون نواز شریف کو زیادہ تحفظ نہیں دیتا تھا اور اب نواز شریف اس پر نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کر سکتے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک پارلیمان آئینی ترمیم نہ کرے تب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ بحال رہے گا۔

اسی طرح ماہر قانون بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمان کے ذریعے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کا مقصد نواز شریف اور دیگر کی نااہلی کے خلاف اپیل کی گنجائش پیدا کرنا تھا لیکن اب حالیہ فیصلے سے یہ گنجائش ختم ہوگئی ہے۔

علی ظفر کی رائے میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے نااہلی کی مدت پانچ سال تک اس لیے محدود نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کے لیے پارلیمان کی دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم درکا ہے۔

الیکشن ایکٹ کی ترمیم کیا ہے؟

پاکستان کی قومی اسمبلی نے 25 جون کو الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔

اس ترمیم کے تحت کسی بھی رکن قومی اسمبلی کی نااہلی کی مدت زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال مقرر کر دی گئی تھی جبکہ ترمیم سے پہلے الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔

اگرچہ ترمیم سے قبل الیکشن ایکٹ میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا تھا لیکن اپریل 2018 میں اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات رہے گی۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف پاناما پیپرز کیس میں اور تحریکِ انصاف کے سابق رہنما اور حال ہی میں تشکیل پانے والی استحکامِ پاکستان پارٹی کے بانی جہانگیر ترین اثاثہ جات ظاہر نہ کرنے کے کیس میں 2017 میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More