Getty Images
’ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت نے ایک مکڑی کو نگل لیا تھا، اور مکڑی اس کے پیٹ میں چل پھر رہیتھی...‘
یہ ایک گانا ہے کہ مکڑینے بڑھیا کے پیٹ میں ’وگلڈ، گگلڈ اور ٹکلڈ‘ کیا۔ بدقسمت خاتون پہلے ایک مکھی کھا لیتی ہے اُس مکھی کو پکڑنے کے لیے اراچنیڈ(مکڑی) کو نگل لیتی ہے۔ اس کے بعد اصل مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں متعدد دیگر جاندار بھی نگل لیتی ہے۔
لیکن۔۔۔ آئیے مکڑی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
فرض کریں کہ آپ جان بوجھ کر مکڑی کو نہیں نگلتے لیکن کیا یہ امکان ہے کہ آپ اپنی نیند میں غیر ارادی طور پر مکڑی کو نگل سکتے ہیں؟
ہرٹفورڈ شائر کے ڈاک کارکن کرس کاؤسلے کا خیال ہے کہ انھوں نے حال ہی میں ایسا ہی کیا ہے۔
انھیں گذشتہ ماہ صبح سویرے دم گھٹنے کے بعد ہسپتال لے جایا گیا تھا۔
سانس لینے سے قاصر اور 999 پر کال کرنے کے بعد انھوں نے بتایا کہ ایمبولینس کے ایک پیرامیڈک نے انھیں بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے گلے کے پچھلے حصے میں لٹکتی ہوئی گیند کو مکڑی نے کاٹ لیا ہے۔
ان کا گلا پھول گیا تھا اور ان کی سانس بری طرح متاثر ہوئی تھی۔
کاؤسلے کا کہنا ہے کہ انھوں نے سوچا تھا کہ وہ ’مرنے جا رہے ہیں۔‘
ہسپتال کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کاؤسلے کو سانس لینے میں دشواری کی وجہ کیا تھی۔
کاؤسلے کا کہنا ہے کہ پیرامیڈک کی مکڑی کے کاٹنے کی تھیوری میں کوئی صداقت ہوسکتی ہے۔
BBCمکڑی کسی کے منہ میں کیوں جائے گی؟
برٹش آراکنالوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ قدرتی کیڑوں کو کنٹرول کرنے والی مکڑیاں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
اس کی ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ’وہ شکاری ہیں اور ان کا بنیادی شکار کیڑے ہیں، جن میں سے بہت سے ہماری فصلوں کو کھاتے ہیں اور ہمارے مویشیوں کو پریشان کرتے ہیں۔‘
سنہ 2017 میں سوئٹزرلینڈ کی باسل یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ مکڑیاں کیڑوں کے قدرتی دشمنوں کے طور پر بہت زیادہ ماحولیاتی اثر رکھتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 45 ہزار سے زائد اقسام اور آبادی کی کثافت 1000 مکڑیاں فی مربع میٹر تک ہے، مکڑیاں دنیا کی سب سے زیادہ انواع سے مالا مال اور وسیع پیمانے پر شکاریوں کے گروہوں میں سے ایک ہیں۔
انھوں نے حساب لگایا کہ ’مکڑی کی عالمی آبادی (جس کا وزن تقریبا 25 ملین ٹن ہے) ہر سال ایک اندازے کے مطابق 400-800 ملین ٹن شکار کا صفایا کرتی ہے‘۔
تاہم مکڑی کے ماہرین کواس پر شبہ ہے کہ کاؤسلے کی سانس لینے میں دشواری کی ذمہ دار مکڑی تھی۔
کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات سے وابستہ ڈاکٹر میٹ ولکنسن کا کہنا ہے کہ ’ایک مفروضہ ہے کہ آپ اپنی نیند میں ایک سال میں تقریبا آٹھ مکڑیاں نگل لیتے ہیں۔‘
’یہ ایک افسانہ ہے، اگرچہ بہت سے لوگ اسے حقیقت مان لیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر ولکنسن کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ مکڑی کو نگلنے کی کہانی کہاں سے شروع ہوئی، لیکن یہ افسانہ اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ یہ شہری افسانے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ واقعی عجیب بات ہے کہ یہ ( کاؤسلے کا علاج کرنے والوں کا) فطری رد عمل تھا۔
ڈاکٹر ولکنسن اور دیگر کو اس بات کا بہت شبہ ہے کہ مکڑی کے کاٹنے کی وجہ سے کاؤسلے کا یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔
PA Media
ڈاکٹر ولکنسن کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ میں بہت کم مکڑیاں آپ کو کاٹ سکتی ہیں اور ان میں سے صرف ایک قسم کی مکڑی جس کا نام فالس وڈو یا ’جھوٹی بیوہ‘ ہے، یہ بہت بڑی ہے اور اگر یہ آپ کے گلے میں ہو تو آپ جاگ جائیں گے۔‘
’یہ وہاں رینگنے والی نہیں ہے، وہاں ہوا اندر اور باہر جاتی ہے اور یہ وہاں نہیں جائے گئی۔‘
ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگر کسی کے چہرے پر مکڑی ہو تو زیادہ تر لوگ جاگ جائیں گے۔
ڈاکٹر ولکنسن کا کہنا ہے کہ ’آپ کو اس کے بارے میں بہت پہلے ہی معلوم ہو جائے گا۔‘
وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ طبی عملے کا خیال تھا کہ مکڑی کے کاٹنے کی وجہ سے کاؤسلے کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے ’مجھے کچھ بہت بڑے شواہد کی ضرورت ہوگی۔‘
’مجھے ثبوت دکھائیں، مکڑی کی باقیات، مجھے کاٹنے کا ثبوت دکھائیں۔ میں تصور نہیں کر سکتا کہ کسی مکڑی نے ایسا کیا ہے۔‘
برٹش آرکنولوجیکل سوسائٹی کے اعزازی سیکریٹری ڈاکٹر جیف آکسفورڈ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ سوتے وقت ایک سال میں آٹھ مکڑیوں کو نگلنے کی کہانی ’ایک افسانہ‘ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی سو رہا ہے تو وہ سانس لیے رہا ہوتا ہے اور گرم ہوا اندر اور باہر آ جا رہی ہوتی ہے۔‘
’آخر کیوں مکڑی منھ میں داخل ہوگی؟ وہ ایسا نہیں کرتیں۔‘
این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ اگرچہ برطانیہ میں مکڑی کے کاٹنے کے واقعات بہت کم ہوتے ہیںلیکن مکڑی کے کاٹنے سے کچھ لوگ بیمار ہو سکتے ہیں، انھیں پسینہ یا چکر آنے کا احساس ہو سکتے ہے۔
کچھ لوگوں کوشدید الرجی کی شکایت ہو سکتی ہے۔ این ایچ ایس تجویز کرتا ہے کہ اگر لوگوں کو مکڑی کے کاٹنے کے بعد کوئی شدید یا پریشان کن علامات لاحق ہوں تو فوری طور پر طبی امداد حاصل کی جائے۔
جہاں تککاؤسلے کا تعلق ہے، ان کے حادثاتی طور پر ارچنیڈ کھانے کی وجہ سے ان کی صحت کے لحاظ سے کوئی بدتر صورتحال نہیں رہی ہے۔
اور نہ ہی وہ راتوں رات ارکنو فوب یعنی مکڑی کے خوف کا شکار ہو گئے۔
تاہم، ہسپتال سے آنے کے بعد انھوں نے جو سب سے پہلا کام کیا، وہ کیڑوں سے بچاؤ کے آلات کا ایک سیٹ خریدنا تھا، کیونکہ، وہ کہتے ہیں، ’اب وہ برداشت نہیں کر سکتے۔‘