دودھ پلانے سے انکار کرنے پر 'معاشرہ آپ کو بری ماں کہتا ہے'

بی بی سی اردو  |  Aug 06, 2023

Getty Images

سونالی بندوپادھیائے جب 29 سال کی عمر میں ماں بنی تو وہ بہت خوش تھیں۔ ایک سال بعد ان کے ہاں ایک اور بچہ پیدا ہوا۔

اب ان کا بیٹا سات سال کا ہے اور بیٹی آٹھ سال کی ہے۔ دونوں بچے صحت مند ہیں۔

تاہم جب دونوں بچے پیدا ہوئے تو سونالی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ انھیں اپنا دودھ نہیں پلائیں گیں۔

اس وقت سونالی ایک ذہنی بیماری (شیزوفرینیا) کا علاج کروا رہی تھیں۔ وہ 19 سال کی عمر سے اس کے لیے دوائیں لے رہی تھیں۔

اپنے بیٹے کی پیدائش کے وقت انھوں نے اپنے بیٹے کو دودھ پلانے کے متعلق اپنے ماہر نفسیات ڈاکٹر (سائکائٹریسٹ) سے مشورہ لیا۔ ڈاکٹر نے سونالی کو اپنا دودھ بچے کو پلانے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن سونالی نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسا نہیں کریں گی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سونالی نے کہا کہ 'میرے جسم میں اتنی زیادہ ادویات جا رہی تھیں کہ میں اسے نظر انداز نہیں کر سکتی تھی اسی لیے میں نے اپنے بچوں کو دودھ نہ پلانے کا فیصلہ کیا۔‘

لوگوں کی باتوں سے خوف اور عدم تحفظ

ابتدائی دنوں میں سونالی خوفزدہ ہو جاتی تھیں جب لوگ انھیں کہتے تھے کہ بچوں کو دودھ نہ پلانے سے بچے کے ساتھ ماں کا جذباتی تعلق متاثر ہوتا ہے۔ وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی۔

لیکن اب وہ کہتی ہیں ’حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اب ماضی کی بات ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ درست ہے۔‘

سونالی کہتی ہیں ’ایک ماں ہمیشہ ماں ہی رہتی ہے، چاہے کچھ بھی ہو۔‘

سونالی جانتی ہیں کہ بچے کو دودھ پلانے کے بہت سے فائدے ہیں۔ لیکن سونالی کا اب بھی یہ خیال ہے کہ اُس وقت انھوں نے جو فیصلہ کیا وہ ان کے بچوں کے مستقبل کے لیے بہترین تھا۔

آج کے دور میں پہلی مرتبہ ماں بننے والی خواتین کواکثر دودھ پلانے کے اور اپنے بچے کی صحت کے حوالے سے بہت سے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عام طور پر اگر ماں بننے والی خاتون کا جواب مثبت ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ کسی سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے تو ساری گفتگو اسے شرمندہ کرنے پر منحصر ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دودھ پلانا ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کا یہ بھی مشورہ ہے کہ پیدائش کے بعد پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کو صرف ماں کا دودھ ہی پلایا جانا چاہیے۔

ویسے ماں بننے والی اکثر خواتین اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلا سکتی ہیں۔ لیکن اس معاملے میں بھی کچھ تضادات ہیں۔

اگر ماں بچے کی پیدائش کے بعد اپنا دودھ نہیں پلا پاتی تو اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہ مجبوری بھی ہو سکتی ہے۔ یا یہ ماں کا اپنا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔

لیکن، جیسے ہی کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ نہ پلانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کی تذلیل شروع ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’وہ بری ماں ہے۔‘

کچھ خواتین بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اسے اپنا دودھ نہ پلانے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ مائیں ایسی بھی ہیں جو کچھ عرصے بعد بچے کو دودھ پلانا چھوڑ دیتی ہیں۔

رولی نگم، کسولی میں رہنے والی ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ ماں بننے کے ابتدائی دنوں میں اپنے بچے کو اپنا دودھ پلانے کا تجربہ رولی کے لیے بہت اطمینان بخش تھا۔ لیکن چار مہینوں بعد جب رولی کے دودھ میں کمی ہوگئی تو ان کے لیے بچے کو دودھ پلانا ایک بڑی مشکل بن گئی۔

ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے رولی کہتی ہیں ’مجھے اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے بہت دباؤ ڈالنا پڑتا تھا۔ دودھ نہیں نکلتا تھا اور یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ میرے بچے کا پیٹ نہیں بھر رہا تھا۔‘

’کیا میں ایک نارمل ماں ہوں؟‘

مشیل مورس کو بھی اسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد وہ اسے اپنا دودھ نہیں پلا سک رہی تھیں۔ مشیل مورس اکثر اس بارے میں سوچا کرتی تھی۔

اس کے ذہن میں ایک سوال گردش کر رہا تھا، ’کیا میں ایک نارمل (عام) ماں ہوں؟‘

جب مشیل مورس کا دوسرا بچہ ہوا تو بھی ایسا ہی ہوا۔ اس بارے میں مشیل مورس نے کہا کہ ’ایسا کیوں ہوا اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ کوئی جواب نہیں ہے۔‘

مشیل مورس کے گائناکالوجسٹ نے انھیں یقین دلایا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ جب مشیل مورس کے ہاں تیسرا بچہ پیدا ہوا تو اس نے کچھ دنوں تک ان کا دودھ پیا تاہم یہ بھی ایک ماہ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

مشیل مورس نے بچے کو زبردستی خوراک دینے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے لیے انھیں بہت محنت کرنا پڑی۔ آخر کار مشیل نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے اتنی محنت نہیں کر سکتیں۔

وہ کہتی ہیں ’اس کے بعد ہم اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو گئے اور زندگی معمول کے مطابق چلتی رہی۔ بچے بھی معمول کے مطابق بڑے ہوتے گئے جو انھیں ہونا چاہیے تھی۔‘

رولی نگم نے دودھ پلانے کے بارے میں زیادہ فکر کرنے کے بجائے اپنی صحت اور تندرستی کو ترجیح دی اور اپنے بچے کو دودھ پلانا بند کردیا۔

رولی کے قریبی لوگوں نے ان کے فیصلے پر سوال اٹھانا شروع کر دیا۔ ان میں سے اکثر کا کہنا تھا کہ آج کل خواتین اپنی طرف سے کوئی محنت نہیں کرنا چاہتیں۔ انھیں اپنی ذمہ داری سے بچنے کے لیے صرف ایک بہانہ چاہیے۔

رولی کا کہنا ہے کہ ’وہ تمام لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ میں بہت بری ماں ہوں۔‘

رولی کا یہ پختہ یقین ہے کہ ایک بچے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینے کا حق صرف اس کی ماں کو ہے۔

بدلتے وقت اور بدلتے حالات

ڈاکٹر ساچی کھرے باویجا دلی کے ایک مقامی ہسپتال میں ایک سینئر کنسلٹنٹ ہیں۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا ان دنوں بچوں کو دودھ پلانا مشکل ہو رہا ہے یا یہ سوچنا درست ہے کہ اس نسل کی مائیں اپنی سہولت کے لیے دودھ پلانے سے گریز کرتی ہیں۔

ڈاکٹر ساچی کا کہنا ہے کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ نئی نسل کی خواتین اپنی سہولت کے مطابق دودھ پلاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کا تعلق طرز زندگی میں تبدیلی سے ہے۔ جیسے کہ ورزش میں کمی اور ایسی ملازمتوں میں اضافہ جن میں زیادہ تر بیٹھنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر ساچی کا کہنا ہے کہ ان عوامل کی وجہ سے خواتین کی جسمانی ساخت میں تبدیلیاں اور ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ساچی اس کی وضاحت کرتی ہیں کہ ’ہمارے جسم اور ہارمونز تبدیل ہو رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں پیدائش کا طریقہ بدل گیا ہے اور اسی لیے دودھ پلانے کا عمل بھی متاثر ہوا ہے۔‘

2020کے انڈیا کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چھ ماہ سے کم عمر کے صرف 64 فیصد بچوں کو صرف ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے۔

اور پیدائش کے ایک گھنٹے کے اندر دس میں سے صرف چار بچوں کو ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر ساچی باویجا بچے کی پیدائش کے ایک گھنٹے بعد یا ایک دن بعد بھی ماں کا دودھ نہ پلانے کی کئی وجوہات بتاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بہت سی خواتین کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ خاص طور پر ان خواتین کے لیے جن کے بچے کی پیدائش سیزیرین آپریشن سے ہوئی ہوتی ہے۔ ایسے نوزائیدہ بچوں کو فوری طور پر آئی سی یو میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’اس کا کوئی درست یا غلط جواب نہیں ہے۔‘

نیہا سنگھ یادو کو بھی ایسی ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے جڑواں بچوں کی پیدائش صرف 28 ہفتوں میں ہوئی۔ دونوں کو ایک ماہ تک نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں رکھا گیا اور وہ انھیں اپنا دودھ نہیں پلا سکیں۔

بعد میں دونوں بچے نپل کو منہ سے نہیں پکڑ سک رہے تھے اس لیے نیہا کے دودھ کا بہنا تقریباً بند ہو گیا تھا اور بچوں کو دودھ پلانا ان کے لیے انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہو گیا تھا۔

اس مشکل سے نجات کے لیے نیہا اور اس کے گھر والوں نے ماں کا دودھ جمع کرنے والی تنظیم (مدرز ملک بینک) کا سہارا لیا اور اس کے ساتھ وہ ڈاکٹر کے مشورے پر اپنا دودھ نکالنے کی کوشش کرتی رہیں۔

بچوں کو خوراک دینے کا وقت نیہا کے لیے بہت مشکل تھا اور وہ بالکل سو نہیں پاتی تھیں۔ 24 گھنٹوں میں نیہا بمشکل تین سے چار گھنٹے سو سکتی تھیں اور وہ بھی وہ آدھا آدھا گھنٹا کر کے سوتی تھیں۔

اتنے شدید تناؤ کی وجہ سے ان کے دودھ کی پیداوار بہت کم ہو گئی اور وہ اپنے دو بچوں کو دودھ نہیں پلا سکیں۔

نیہا سنگھ کہتی ہیں ’معاشرہ اکثر ماں بننے کو ایک رومانوی روپ دیتا ہے۔ لیکن میں بھی ایک انسان ہوں جو کسی اور کی طرح درد محسوس کرتی ہے۔‘

نیہا یادو جیسی بہت سی مائیں ہیں جو اس عقیدے سے متاثر ہوئی ہیں کہ بچے کو اپنا دودھ نہ پلانا ماں اور بچے کے درمیان جذباتی رشتے کو کمزور کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر ساچی باویجا نے کہا کہ انھیں تقریباً ہر روز ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’بچے کو دودھ نہ پلانا ٹھیک ہے یا نہیں اس کا جواب ہاں یا نہ میں نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ماں اور بچہ ایک ساتھ خوش ہوں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ماں بچے کو دودھ پلاتی ہے یا نہیں۔‘

اس مشورے کے بعد مہز خان نے اپنی بیٹی کے ساتھ کتابیں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

وہ کہتی ہیں ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہیں، تو آپ کا بچے کے ساتھ رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ لیکن آپ کو بچے کے ساتھ جڑنے کے دوسرے طریقے بھی تلاش کرنے چاہییں۔ اسی وجہ سے میں نے شروع سے ہی اپنے بچے کے ساتھ کتابیں پڑھنے کی عادت بنا لی۔‘

مہز خان بہت چھوٹی عمر سے ہی پرولیکٹن کی زیادتی کی وجہ سے دوائیں لے رہی ہیں۔ جسم میں پرولیکٹن کی زیادتی کی وجہ سے ان خواتین میں بھی دودھ پیدا ہونے شروع ہو جاتا ہے جو حاملہ نہیں ہیں یا ماں نہیں بنی ہیں۔

حیران کن بات یہ تھی کہ جب مہز ماں بنی تو ان کے دودھ کی پیداوار کم ہو گئی۔ وہ اپنے بچے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی دودھ نہیں پیدا کر سک رہی تھیں۔

مہز کہتی ہیں، ’میں گھنٹوں زور لگاتی رہتی تھی اور بمشکل دودھ کی ایک یا دو بوند باہر نکلتا تھا۔ میرے شوہر کو معلوم تھا کہ میں پوری کوشش کر رہی ہوں لیکن میں ایسا نہیں کر پا رہی تھی۔ انھوں نے اس وجہ سے میرے متعلق غلط رائے قائم نہیں کی۔‘

ڈاکٹر ساچی باویجا اس معاملے میں خاندان اور معاشرے کے کردار کو بہت اہم سمجھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’ہر ماں سے اپنے بچے کو دودھ پلانے کی توقع کی جاتی ہے۔ اسے ایک فرض کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اگر کوئی ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ماں کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔‘

’اس سے نئی ماؤں کی ذہنی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ وہ خود پر سے اعتماد کھو بیٹھتی ہیں کیونکہ پھر ایسی خواتین یہ سوچنے لگتی ہیں کہ یہ ماں کی 'سب سے فطری ذمہ داری' ہے جسے وہ پورا نہیں کر پاتیں۔‘

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ’بچوں کے والدین کو بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کے بارے میں سمجھنا اور سیکھنا چاہیے۔ بچے کے اس دنیا میں قدم رکھنے کا انتظار نہ کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اگر بچے کی پیدائش کے وقت ماں بچے کو دودھ نہ پلا پائے تو اس سے کسی کو صدمہ نہیں ہو گا۔‘

ڈاکٹر ساچی باویجا کا کہنا ہے کہ بچے کو دودھ پلانے کا عمل طلب اور رسد کے مطابق اسی وقت کام کرتا ہے جب وہ پیدائش کے پہلے ہی دن سے ماں کا دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ماں کو دودھ پلانے کا بہتر تجربہ فراہم کرتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More