’25 سال کی عمر میں میری نس بندی کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کی گئی کہ میں ابھی چھوٹی ہوں‘

بی بی سی اردو  |  Aug 04, 2023

Getty Imagesخواتین کی نس بندی کی سرجری کو ’ٹیوبل لیگیشن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے

یہ 22 جولائی بروز ہفتہ رات 10 بجے کی بات ہے جب خون بہنا شروع ہوا۔ پاؤلا (فرضی نام) اس وقت گھر پر تھیں۔ ان کی عمر 30 سال ہے۔ انھیں لگا کہ یہ ان کی ماہواری ہے لیکن تھوڑی دیر بعد وہ ڈر گئیں کیونکہ بہنے والے خون کی مقدار بہت زیادہ تھی اور انھیں بہت درد محسوس ہو رہا تھا۔

یہ صورتحال دیکھتے ہوئے انھوں نے ہسپتال جانے کا فیصلہ کیا۔ ہسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے اُن سے کہا کہ ’آپ کا نقصان ہو چکا ہے، آپ کا اسقاط حمل ہو گیا ہے۔‘

ڈاکٹروں کے منہ سے یہ سن کر انھیں حیرت ہوئی کیونکہ انھوں نے ایسی خبر کی توقع نہیں تھی۔

انھیں حیرت اس لیے ہوئی کیونکہ وہ برسوں پہلے یہ فیصلہ کر چکی تھیں کہ وہ کسی بھی حالت میں ماں نہیں بنیں گی۔

یہ سن کر ان پر ایک اور حقیقت واضح ہوئی اور وہ یہ کہ وہ مانع حمل گولیاں جو وہ استعمال کر رہی تھیں وہ ناکام ہو چکی تھیں۔

مانع حمل گولیاں ناکام ہو چکی تھیں۔ پاؤلا جب 18 برس کی تھیں تب سے وہ چاہتی تھیں کہ ان کی نس بندی کر دی جائےمگر کوئی بھی ڈاکٹر یہ کرنے کے لیے راضی نہیں تھا۔

’اگر میری نس بندی کر دی گئی ہوتی تو ایسا کچھ نہ ہوتا۔ یہ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں تھا اور مجھے غصہ آتا ہے کیونکہ میں برسوں سے کسی ڈاکٹر کی تلاش کر رہی ہوں تاکہ میری ماں نہ بننے کی خواہش پوری ہو۔‘

انھوں نے اس نقصان (اسقاط حمل) کے چند دن بعد ہیبی بی سی کو ایک انٹرویو میں تفصیل بتائی۔

پاؤلا ایسی ہزاروں خواتین میں سے ایک ہیں جو رضاکارانہ نس بندی کی سرجری تک رسائی حاصل نہیں کر سکتیں، اس سرجری کو ’ٹیوبل لیگیشن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ طریقہ حمل کو روکنے میں 99 فیصد سے زیادہ موثر ہے، اور حمل کو روکنے کے دستیاب طریقہ علاج میں سے ایک ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) درحقیقت اسے چند ’بہت موثر‘ مانع حمل طریقوں کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔

یہ طریقہ جسم میں ہارمون کی سطح کو متاثر نہیں کرتا (جیسا کہ دیگر مانع حمل ادویات کرتی ہیں) اور اس کے کوئی خاص ذیلی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) بھی نہیں ہوتے۔

BBCٹیوبل لیگیشنکیسے کام کرتا ہے؟

خواتین کی نس بندی بیضوں کو فیلوپین ٹیوبوں، جو بیضہ دانی کو بچہ دانی سے جوڑتی ہیں، کے نیچے سفر کرنے سے روکتی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ عورت کے انڈے (ایگز) سپرم سے نہیں مل پائیں گے اور نہ حمل نہیں ٹھہرے گا۔

ٹیوبوں کو بند کرنے کے مختلف طریقے ہیں: یا تو کلپس یعنی سلیکون کے چھلّے لگا کر یا فیلوپین ٹیوب کے چھوٹے ٹکڑے کو باندھ کر یا کاٹ کر۔

یہ ایک نسبتاً آسان سرجری ہے جو لیپروسکوپی کے ذریعے کی جاتی ہے۔

حمل کو روکنے کے باقی طریقوں جیسے گولیاں، انٹرا یوٹرن ڈیوائسز، اندام نہانی کا چھلّا، پیچ یا انجیکشن کے قابل امپولز کی نسبت اس کا بنیادی فرق یہ ہے کہ یہ مستقل اور ناقابل واپسی ہے، یعنی اس کے بعد آپ زندگی میں کبھی حاملہ نہیں ہو سکتے۔

یہ ان خواتین کے لیے ایک اہم فائدہ ہو سکتا ہے جنھوں نے بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ کیونکہ اس کے بعد نہ روزانہ گولی لینے کی جھنجھٹ ہوتی ہے اور نہ ہی مانع حمل ادویات اور ذرائع پر پیسہ خرچ کرنا ہوتا ہے۔

تاہم، بہت سے ڈاکٹروں کے لیے یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ سرجری کرنے سےگریز کرتے ہیں۔

ایسا ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں نس بندی کے اس طریقہ کار تک رسائی قانونی ہے۔

ذمہ دارانہ زچگی کو فروغ دینے کے لیے زیادہ تر ممالک میں یہ شرط عائد کی ہے کہ عورتتحریری طور پر درخواست کرے (ایک باخبر رضامندی پر دستخط کرے) اور یہ کہ اس سرجری سے قبل اپنے معالج سے تولیدی صحتسے متعلق مشاورت بھی کرے۔

لیکن بی بی سی نے جن خواتین اور ماہرین سے اس سلسلے میں رابطہ کیا اس کے مطابق نس بندی سے قبل یہ شرائطرکاوٹوں کے ایک سلسلے کو جنم دیتی ہیں جو سرجری کے اس طریقے کو بہت مشکل بنا دیتا ہے۔

پاؤلا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جنھیں نے ماضی میں تین مواقع پر نس بندی کی خواہش کا اظہار کیا مگر اس کے ردعمل میں انھیں اپنے ڈاکٹر کی طرف سے ملنے والا ردعمل منفی تھا۔

وہ کہتی ہیں ’پہلی بار جب میں نے 23 سال کی عمر میں اس کے لیے درخواست دی تھی تو ڈاکٹر نے مجھے نہیں کہا، کہ میں ابھی (اس سرجری کے لیے) بہت چھوٹی ہوں‘

’دوسری بار جب میں نے درخواست دی تو میں 25 سال کی تھی مگر مجھے ملنے والا جواب وہی تھا کہ میں اتنی بڑی نہیں ہوں کہ ایسا فیصلہ کر سکوں۔ اور 27 سال کی عمر میں تیسری بار جب میں نے یہ درخواست کی تو انھوں نے واضح طور پر مجھے یہ کہتے ہوئے دروازہ بند کر دیا کہ اگر میں ٹیوبل لنگیشن چاہتی ہوں، تو مجھے یہ بیرون ملک سے کرانا ہو گا۔‘

تاہم حال ہی میں ہونے والے اسقاط حمل نے انھیں چوکنا کر دیا۔

ان کا حالیہ حمل، اگرچہ ناکام رہا، لیکن اس نے انھیں چوکنا کر دیا۔

وہ کہتی ہیں ’دوسری مانع حمل ادویات کے ساتھ آپ ہمیشہ ناکام ہو سکتے ہیں۔ یہی مسئلہ ہے۔‘

’میں اس واقعے کو بھول جانا چاہتی ہوں مگر میں اسے بھول نہیں پا رہی۔‘

Getty Imagesحمل کو روکنے کے باقی طریقوں جیسے گولیاں، انٹرا یوٹرن ڈیوائسز، اندام نہانی کا چھلّا، پیچ یا انجیکشن کے قابل امپولز کی نسبت اس کا بنیادی فرق یہ ہے کہ یہ مستقل اور ناقابل واپسی ہےطویل انتظار

یہ سرجری مفت کروانے کی خواہشمند خواتین کو درپیش بڑے مسائل میں سے ایک طویل انتظار ہے۔ آپ کو صحت عامہ کے سرکاری اداروں میں اس عمل سے گزرنے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔

اور جن خواتین کے پہلے بچے نہیں ہیں ان کی صورتحال اور بھی پیچیدہ ہے۔

ماہر امراض نسواں گیبریل زیمبرانو کہتی ہیں ’انتظار کی فہرستیں بہت طویل ہیں اور بچوں کے بغیر والی خواتین کو ترجیح نہیں دی جاتی (یعنی ان خواتین کو سسٹم میں ترجیح دی جاتی ہیں جن کے پہلے سے بچے ہیں اور وہ مزید بچے نہیں چاہتیں)۔ اس وجہ سے اسی خواتین کو دوسرے مانع حمل طریقوں سے اپنا خیال رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘

خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، کووڈ-19 کی وبا نے اس صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے، جس سے خواتین کے لیے مانع حمل خدمات خاص طور پر نس بندی تک رسائی مشکل ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا کم اور درمیانی آمدن والے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔

رضاکارانہ نس بندی ان خواتین کے لیے بہت زیادہ قابل رسائی ہوتی ہے جو اس کے لیے نجی طور پر ادائیگی کر سکتی ہیں۔

چلی سے تعلق رکھنے والی امنڈا ٹریوہیلا نے 34 سال کی عمر میں یہ سرجری کروائی ہے مگر اس سے قبل وہ 16 سال تک اس سہولت تک رسائی کا انتظار کرتی رہیں مگر انھیں اس میں ناکامی ہوئی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرکاری نظام میں کوئی بھی میری نس بندی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ (اس کے مطابق) یا تو میں بہت چھوٹی تھی یا میرے پہلے سے کوئی بچے نہیں تھے۔۔۔ لہٰذا میں صحت کے نجی نظام میں گئی، جو کہ بہت مہنگا ہے۔ ‘

امنڈا کو نجی ہسپتال میں اس سرجری کے لیے تقریباً 4,800 امریکی ڈالر ادا کرنے پڑے۔

Getty Imagesماہر امراض نسواں گیبریل زیمبرانو نے تصدیق کی کہ ’ہمیں سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ عورت اس پر پچھتائے گی‘

اعداد و شمار

اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کی نس بندی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مانع حمل طریقہ ہےخاندانی منصوبہ بندی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2020 میں 21 کروڑ 90 لاکھ خواتین نے نس بندی کی سہولت تک رسائی حاصل کی، جو مانع حمل طریقے اپنانے والی خواتین کا 23 فیصد ہےدوسری طرف، مردانہ نس بندی بہت کم ہے جو اسی دورانیے میں ایک کروڑ 70 لاکھ مردوں نے کروائی پر کی گئی، جو مانع حمل اپنانے والے مردوں کا فقط 1.8 فیصد ہےاقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، ڈومینیکن ریپبلک، ایل سلواڈور، میکسیکو اور کولمبیا وہممالک ہیں جہاں خواتین میں نس بندی کا رجحان سب سے زیادہ ہےGetty Images’یہ بالآخر ختم ہو گیا‘

نس بندی کے دو سال بعد امنڈا ٹریوہیلا کہتی ہیں کہ وہ ’پُرسکون اور خوش‘ محسوس کرتی ہیں۔

انھیں یاد ہے کہ جب وہ یہ سرجری کروانے کے لیے وارڈ میں داخل ہوئی تو 50 برس سے زائد عمر کی ایک دائی نے ان سے ایسی بات کہی جسے وہ کبھی نہیں بھولیں گی۔

’اس نے مجھ سے کہا :’مجھے لگتا ہے کہ آپ جو کچھ کر رہی ہیں وہ بہت قیمتی ہے۔ میں اس نسل سے نہیں جو یہ فیصلہ کر سکتی تھی۔ میں کبھی بھی بچے پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن کوئی بھی میرا آپریشن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں یہاں آپ کا خیال رکھوں گی۔‘

جب وہ آپریشن کے بعد ہوش میں آئیں تو امنڈا نے ایک نئی زندگی شروع کی۔ ’میں نے ایک لامحدود سکون محسوس کیا۔ میں نے سوچا، آخر یہ ختم ہو گیا۔‘

پاؤلا آج ایک مختلف حقیقت میں زندگی گزار رہی ہے۔

وہ اپنے حالیہ اسقاط حمل سے بمشکل صحت یاب ہوئی ہیں اب ان میں نس بندی کی کوشش جاری رکھنے کی توانائی نہیں ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More