’کام سوتر‘ میں صرف شہوانیت اور جنسی لذت کی بات نہیں تو پھر آخر اس کتاب میں کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 02, 2023

BBCمرد اور عورت کی خواہشات آگ اور پانی کی طرح ہے

کام سوتر (جسے عرف عام میں کاما سُترا بھی کہا جاتا ہے) سنسکرت زبان میں ایک تصنیف ہے جسے واتسیاین نامی ایک سادھو نے تحریر کیا تھا۔

مغربی دنیا میں اس کتاب کو ’شہوانی ادب‘ کے نمونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ جنوبی ایشیائی ممالک بشمول انڈیا اور پاکستان میں آج بھی بہت سے لوگ ’کام سوتر‘ کو جسمانی تعلقات کو بیان کرنے والے ایک متن کے طور پر دیکھتے ہیں۔

جب کیتھولک چرچ جسم کو ایک ’بُری چیز‘ اور ’جسمانی لذتوں کو فضول‘ اور اُن کی خواہش کرنے کو ’گناہ‘ بتا رہے تھے اس وقت سادھو واتسیاین دریائے گنگا کے کنارے بیٹھ کر ’کام سوتر‘ لکھ رہے تھے۔

وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ جسمانی لذت بہت اچھی چیز ہے اور اسے اچھے طریقے سے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تو کیا واتسیاین جیسے تجرد کی زندگی گزارنے والے سادھو کی لکھی ہوئی یہ تصنیف صرف جنسی لذت کی بات کرتی ہے اور اس کتاب کو ایک سیکس مینوئل سمجھنا کتنا مناسب ہے؟

’کام سوتر‘ دراصل ایک غلط سمجھی جانے والی کتاب یا غلط تشریحِ تعبیر والی کتاب بن کر رہ گئی ہے۔

اگر آپ اس کتاب کا بغور مطالعہ کریں اور اس میں لکھے گئے مواد کو سمجھیں تو کام سوتر کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔ نہ صرف کام سوتر کے بارے میں بلکہ قدیم ہندوستان میں جنسیت کے بارے میںبھی بہت سے غلط تصورات کی تصحیح ممکن ہو پائے گی۔

کام سوترا کی ترکیبGetty Imagesکام سوتر تحریر کرنے والے سادھو واتسیاین کا خیالی خاکہ

کام سوتر واتشیاین کی لکھی ہوئی ترکیبوں کا مجموعہ ہے۔ کام سوتر کب لکھی گئی اس کی درست معلومات موجود نہیں ہیں۔

تاہم ماہرین کے مطابق یہ کتاب چوتھی صدی قبل مسیح میں لکھی گئی ہو گی جبکہ کچھ محققین کا خیال ہے کہ کام سوتر تیسری صدی عیسوی میں لکھی گئی تھی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کتاب ’عہد گپت‘ میں لکھی گئی تھی۔ تاہم کام سوتر میں کہیں بھی گپت حکومت کا ذکر موجود نہیں ہے۔

دراصل یہ کوئی کتاب نہیں ہے۔ یہ سات کتابوں کا مجموعہ ہے جس میں 36 ابواب ہیں۔ جن میں کُل ملا کر 1250 شلوک ہیں۔

آرٹ ہسٹری کی سکالر اور محقق ڈاکٹر الکا پانڈے کام سوترا کی ترکیب کے بارے میں کہتی ہیں کہ کام سوتر کی سات کتابوں میں سے پہلی کتاب ’اچھی زندگی‘ کیسے گزاری جائے کے بارے میں ہے۔ اس میں دھرم (اخلاقی قدر)، ارتھ (معاشی قدر)، کام (جسمانی قدر) سیکس سمیت چار مراحل میں سے شامل ہیں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ’کام‘ یعنی سیکس جنسی خوشی اور ’اچھی زندگی‘ گزارنے کے لیے اہم ہے۔

اس سلسلے کی دوسری کتاب جنسی آسن یعنی سیکس کے دوران کی پوزیشن کے بارے میں ہے۔

’کام سوتر‘ میں جو سات چیزیں ہیں اس کے بارے میں مزید معلومات دیتے ہوئے مصنف اور پروفیسر مادھوی مینن کا کہنا ہے کہ ان کتابوں میں سے ایک صرف گھر کی سجاوٹ اور اس کی تعمیر کے بارے میں ہے۔

مادھوی مینن کہتی ہیں کہ کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ آپ سیکس کی لذت کو اور اس جذبے کو بڑھانے کے لیے جگہ کو کس طرح بنا اور سجا سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’چھٹی کتاب مکمل طور پر طوائفوں کے بارے میں ہے۔ اس سیکشن میں خواتین کے بارے میں براہ راست تحریر ہے۔ اب لوگ کہیں گے کہ ’اوہ، یہ تو طوائفوں یا جسم فروشی کے بارے میں ہے‘ اور کتاب کو رد کر دیں۔‘

مادھوی مینن کہتی ہیں کہ ’لیکن (جس زمانے میں یہ کتاب تحریر ہوئی) یہ طوائفیں محض طوائفیں نہیں تھیں۔ وہ اس زمانے میں ثقافتی سماجی زندگی کا حصہ تھیں اور اس وقت ہندوستان کے اشرافیہ کی زندگی میں شامل تھیں۔‘

عورتوں کی خواہشات کی اہمیت

سیکس کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ ہمبستری کے دوران صرف مرد کی لذت ضروری ہے جبکہ عورت کی لذت کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ اس نظریے کو سب سے پہلے ’کام سوتر‘ کے ذریعے مسترد کیا گیا۔

پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ خواتین کی لذت مرد کے جماع کی مستی یعنی ’لذت کی انتہا‘ پر منحصر ہے۔ لیکن ’کام سوتر‘ میں پہلی بار یہ کہا گیا کہ خواتین کو یہ خوشی حاصل کرنے کے لیے مردوں کی ضرورت نہیں ہے۔

اگرچہ سیکس مرد اور عورت دونوں کی جسمانی ضرورت ہے، لیکن اس کے بارے میں ان کے جذبات اور خواہشات بہت مختلف ہیں۔

واتسیاین کہتے ہیں کہ ’مردوں کی جسمانی خواہش آگ کی طرح ہے۔ یہ جنسی اعضا سے شروع ہو کر سر تک جاتی ہے۔ آگ کی طرح یہ آسانی سے بھڑکتی ہے اور اتنی ہی جلدی بجھ جاتی ہے۔ دوسری طرف عورت کی جنسی خواہش پانی کی طرح ہے جس کے بیدار ہونے اور پھر ٹھنڈا ہونے میں وقت لگتا ہے۔‘

مصنفہ مادھوی مینن کہتی ہیں کہ ’ کام سوتر میں جب بھی مرد اور عورت کے درمیان جسمانی تعلق کی بات آتی ہے تو واتسیاین بتاتے ہیں کہ خواتین کی جسمانی حالت کیا ہونی چاہیے، ان کے ساتھ کس طرح بوس و کنار کرنا چاہیے، وغیرہ۔

'لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے (سیکس) صرف اس صورت میں کرنا چاہیے جب وہ (خاتون) چاہے۔‘

واتسیاین نے مرد اور عورت کے جسمانی تعلقات کے ساتھ ساتھ ان کے پیار اور جذباتی تعلقات پر بھی تبصرہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ محبت، لڑائی میں اتار چڑھاؤ کی بات بھی کرتے ہیں۔

وتسیاین تعلقات کی تازگی کو برقرار رکھنے کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رشتے میں جوش اور خوشی کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں (مرد اور عورت) کے درمیان جھگڑا ہونا ضروری ہے۔

واتسیاین کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب دونوں کے درمیان رشتہ مضبوط ہو اور باہمی اعتماد ہو۔ لیکن اگر دونوں کے درمیان محبت نہ ہو تو یہ لڑائی خوفناک ہو سکتی ہے اور اس کا کوئی حل نہیں ہے۔

کام سوترا میں وہ لکھتے ہیں: ’جھگڑا ہمیشہ مرد کی طرف سے شروع کیا جاتا ہے۔ عورت غصے سے چیختی ہے۔ اپنے زیورات پھینک دیتی ہے۔ سامان توڑ کر آدمی پر پھینک دیتی ہے۔ لیکن اس لڑائی کا ایک اصول ہے اور وہ یہ کہ یہ سب کرتے ہوئے بھی عورت اپنی حد کو پار نہیں کرتی ہے۔‘

کام سوترا میں ایک بہت ہی دلچسپ وجہ بھی بتائی گئی ہے جو سو فیصد خواتین کے حق میں جاتی ہے۔

’پہلی بات یہ ہے کہ اگر آدمی اس کی طرف راغب نہیں ہوتا ہے، تو یہ اس کی توہین ہو گی۔ دوسرا جھگڑا تب ہی ختم ہوتا ہے جب آدمی اس کے قدموں پر گر کر معافی مانگے اور وہ گھر سے باہر ایسا نہیں کر سکتا۔‘

Getty Imagesہم جنس پرستی اور تیسری جنس کا تذکرہ

مصنف لکھتے ہیں کہ سشروتا سمہیتا (ایک کتاب) کے مطابق ہم جنس پرست مردوں کی پانچ قسمیں ہیں اور یہ ان کے جنسی رجحان کے تعلق سے ہیں۔ یہ اقسام اسیکیا، سوگندھیک، کمبھیک، ارشک اور شندھ ہیں۔

تنارد سمرتی میں تین قسم کا ذکر ہے اور ایسے مردوں کو عورتوں سے شادی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

ہم جنس پرست مردوں کے لیے ’پانڈا‘ کی اصطلاح کے تحت واتسیاین نے 14 مختلف قسم کے مردوں کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ لفظ ’نستریہ‘ ویدک ادب میں ہم جنس پرست خواتین اور عورت کی صنفی شناخت کے لیے نظر آتا ہے۔

مختلف تحریروں کے حوالوں سے مصنف نے خواتین کی 10 اقسام نوٹ کی ہیں۔

سویرینی - وہ جس کے دوسری عورتوں کے ساتھ محبت کے تعلقات ہوں

کامنی- وہ جس کے مرد اور عورت دونوں کے ساتھ محبت کے تعلقات ہوں

ستری پنس ۔ جو رویے میں مردانہ ہو

شندی یا خواجہ سرا - وہ جو مرد کی طرح نظر آتا ہے اور اس کے حیض نہیں آتے یا چھاتی نہیں ہے

ناراشندا - وہ جس کی نسوانیت مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے

ورت - جس کا مادہ بیج بچہ دانی میں نہیں لگایا جا سکتا

سوسی وکتر سوسی موکھی – جس کی اندام نہانی مکمل نہ ہو یعنی چھوٹی ہو۔

وندھیا یا بانجھ – حیض کے بغیر

موگھا پوس - غیر حاملہ

پترگھنی - وہ عورت جو اکثر اسقاط حمل کرتی ہے

Getty Imagesہم جنس پرستی کا کتاب میں مفصل ذکر ہے

سویرینی کا ذکر کام سوترا میں ملتا ہے۔ اسی طرح بھارگو پران میں کامنی اور مہابھارت میں ستری پنسا کا ذکر ملتا ہے۔ ان تین قسم کی خواتین کی درجہ بندی ان کے جنسی رویے کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

سنسکرت کا لفظ ’شندھ‘ ایسے مرد کے لیے استعمال ہوتا ہے جس نے اپنی پیدائشی مردانگی کھو دی ہو اور عورت کی طرح برتاؤ کرتا ہو۔ اس رجحان کے برعکس لفظ خواجہ سرا عورت کے لیے ہے جو مرد بن کر رہنا چاہتی ہے۔

امرا لکھتے ہیں کہ قدیم ویدک ہندوستان میں خواجہ سراؤں کو معاشرے سے اپنی صنفی شناخت چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔

ہم جنس پرستی کو قبول کرنے کے بارے میں ہمارے معاشرے میں اب بھی زیادہ کشادگی نظر نہیں آتی۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ہم جنس پرستی کو قبول کرنے کے لیے جدوجہد نظر آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

'کیا جنسی مناظر بالی وڈ میں کامیابی کی ضمانت ہیں؟'

کیا ویب ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے فحش مواد آج بھی اہم ہے؟

’قدیم بھارتی معاشرے میں ہم جنس پرستی کی روایت ملتی ہیں‘

جہاں آج ’ایل جی بی ٹی کیو‘ کے نام سے موسوم کمیونٹی کو عزت کے ساتھ اپنی صنفی شناخت حاصل کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر جدوجہد کرنی پڑتی ہے وہیں قدیم ہندوستان میں اس کمیونٹی کو قبول کیا جاتا تھا اور ان کی مختلف شناخت کو قبول کیا جاتا تھا۔

GALVA-108 نامی ایک بین الاقوامی تنظیم نے ویدک ادب میں صنفی تنوع پر تحقیق کی ہے اور اس کے بارے میں لکھا ہے۔ امر داس ولیمز نے 2001 میں تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔

انھوں نے کتاب ’ترتیہ پراکرتی- تیسری جنس کے لوگ‘ لکھی ہے۔

کام سوترا میں ان کے لیے 'تیسری فطرت' کی اصطلاح استعمال ہے۔

برطانوی حکومت کے اثرات

اگر صنفی اور انفرادی جنسی تنوع کی انڈین تحریروں میں جگہ ہے تو اس کا مطلب انڈینز ان کو سمجھ رہے تھے، پھر بدلتے وقت میں انھوں نے ان سماجی عناصر کو کیسے اپنایا؟ وہ کب سے انھیں معاشرے کے مرکزی دھارے کے ارکان کے طور پر قبول کرنے میں ہچکچانے لگے؟

مصنفہ اور پروفیسر مادھوی مینن کہتی ہیں کہ ’ہم ابھی تک برطانوی نوآبادیاتی ذہنیت کے اثرات کا شکار ہیں۔‘

کام سوترا سے ہی ہمیں ’تیسری جنس‘ کے بارے میں ایک حساس تفہیم حاصل تھی جسے اب ہم ’تریتیہ پنتھی‘ کہتے ہیں۔

جنہیں ’ہیجڑا‘ یا ’خواجہ سرا‘ کہا جاتا تھا ان کو مغل دربار میں عزت کا مقام حاصل تھا۔ مختلف تقاریب اور مذہبی تقریبات میں ان کی موجودگی مبارک سمجھی جاتی تھی۔

لیکن انگریز ہندوستان آئے اور اس سب پر ان کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہ کیا ہے؟ مرد عورت کا بھیس کیسے بدل سکتا ہے؟

پھر انھوں نے ’مجرمانہ قبائل ایکٹ‘ پاس کیا۔ ایکٹ صرف یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جنس کے مطابق عوامی لباس نہیں پہنتا ہے تو اس شخص کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے ہر اس چیز کو جرم قرار دیا جو تخلیقی جنسیت کے فریم ورک میں فٹ نہیں بیٹھتی تھی۔

Getty Imagesیہ آٹھویں نویں صدی کے مجسمے ہیں مندر کے مجسمے اور ہم جنس پرستی

جنسیت اور جامعیت کے بارے میں قدیم ہندوستان کا لبرل نقطہ نظر کام سوترا جیسے متن تک محدود نہیں ہے۔ یہ قدیم مجسموں میں بھی نظر آتا ہے۔

ایک مشہور مصنف اور افسانہ نگار دیودت پٹنائک ان مجسموں کے بارے میں کہتے ہیں: ’کانچی پورم، کونارک، کھجوراہو جیسے مندروں کی دیواروں میں ہم جنس پرستی کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ عام طور پر خواتین کو جذباتی انداز میں ایک دوسرے کو اپناتے ہوئے دکھاتے ہیں۔‘

’وہ مجسمے شاید محبت کرنے والی خواتین کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘

’اس لحاظ سے دو مردوں کی جنسی تعلقات کی تصاویر نسبتاً کم ہیں۔ شاید دیواروں پر تیسرے فریق کی تصاویر ہوں اور ہم غلطی سے انھیں مرد یا عورت کہہ دیں۔ یہ دیکھنے والی آنکھو پر منحصر ہے۔‘

دیو دت بتاتے ہیں کہ کس طرح جنسیت کے بارے میں یہ خیالات وقت کے ساتھ ساتھ ویدک ہندوستان اور اساطیر میں کم ہوتے گئے۔

’یہ خیالات ختم نہیں ہوئے، آج بھی متھرا میں شیو جی کی ورنداون میں خواتین کے روپ میں پوجا کی جاتی ہے۔ آندھرا پردیش میں برہموتسو منایا جاتا ہے۔ تروپتی بالاجی ساڑھی میں ملبوس ہیں، کرناٹک میں پلیگما دیوی کی پوجا مونچھیں سامنے رکھ کر کی جاتی ہے۔ یعنی ہماری سوچ جنس سے بہت مختلف ہے۔ جنس ایک بہت سیال چیز ہے۔‘

کھجوراہو میں ٹورسٹ گائیڈ کے طور پر کام کرنے والے نریندر مندر میں ان تصاویر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کام یعنی سیکس کرنے کی تصاویر ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ انھیں کھجوراہو جیسے مندروں میں مجسموں کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔

Getty Images

وہ مزید کہتے ہیں: ’کھجوراہو نہ صرف ایک مذہبی دارالحکومت تھا، بلکہ ایک تعلیمی مرکز بھی تھا۔ یہ صرف آرٹ کے بارے میں نہیں ہے۔ جہاں ہم جنس پرستی کو دکھایا گیا ہے وہیں سیکس کے عمل کے معیار کو بھی دکھایا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مجسمے زندگی کے ایک اہم حصے اور اس کے آس پاس کے اسرار کو حل کرنے کی کوشش ہے۔‘

لیکن نریندر کا تجربہ ہے کہ جو سیاح اکثر یہاں آتے ہیں وہ ان مجسموں کو اتنی کشادہ دلی سے نہیں دیکھتے۔

وہ کہتے ہیں: ’یہاں آنے والے بہت سے سیاح کہتے ہیں کہ ہم ان مندروں کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ کیونکہ اس میں شہوت انگیز تصاویر ہیں۔ ہمارے ساتھ بچے ہیں، ہم خاندان کے ساتھ آئے ہیں۔‘

انھیں افسوس ہے کہ ہم فن اور ثقافت کے ورثے کے طور پر ابھی تک واقف نہیں ہیں۔

نہ صرف کام سوتر یا مندروں کے قدیم مجسموں میں بلکہ بہت سے ہندو متون اورادب میں سیکس لائف اور جنسیت کے بارے میں بہت سی باتیں موجود ہیں۔

یہاں تک کہ ادب میں شیو پاروتی کے رومانس کا ذکر ملتا ہے۔ (کالی داس کے کمارسمبھو میں)

14ویں صدی میں جے دیو نے ’گت گووند‘ نامی نظم لکھی۔ اس میں ذکر ہے کہ بھگوان کرشن نے ایک عورت کی طرح لباس پہنا ہوا تھا۔ آپ اس کی تصاویر دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح کے ملبوسات پہنے ہوئے رادھا کرشن کی کچھ تصاویر ہیں۔

اردھنارینتیشور کی تصویر کیا ہے؟ آدھی شیو اور آدھی پاروتی کی تصویر۔ اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ بچوں کو جنم دینے کی نیت سے جسمانی تعلق رکھنے والے مرد اور عورت کی نہ صرف دو صنفی شناخت ہوتی ہے بلکہ صنفی شناخت اس سے آگے بھی ہو سکتی ہے۔

اس لیے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ روحانیت مقدس ہے اور جنسیت ناپاک ہے تو آپ کو تھوڑا سوچنا چاہیے۔ کبھی ہم نے روحانیت اور جنسیت کو ایک ہی دھاگے میں باندھنے کی کوشش کی تھی اور وہ ’کام سوتر‘ کا وقت تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More