کھانے کی میز اور دسترخوان پر اکثر ماں کا اپنے منھ سے نوالہ نکال کر اپنے بچوں کو دینا یا بچوں کو کھاتا دیکھ کر کھانے سے ہاتھ روک لینا تو سب نے دیکھا لیکن ایک ویڈیو جس میں ایک بیوی کو اپنی پلیٹ سے کھانا اپنے شوہر کی پلیٹ میں منتقل کرتے دکھایا گیا ہے، نے سوشل میڈیا کو تقسیم کر دیا ہے۔
یہ ویڈیو انڈیا کی مقبول انفلوئنسر تمسی جین کے یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا چینلز پر اپنے شوہر نکو کے ساتھ شیئر کی گئی تھی۔
یہ ویڈیو دراصل ایک مختصر دورانیے کی ریل ہے، جس میں میاں بیوی کھانے کی میز پر بیٹھے تھالیوں میں کھانا کھا رہے ہیں۔ اس دوران ان کے درمیان کوئی مکالمہ تو نہیں ہوتا مگر اپنے فون میں مگن شوہر نظر اٹھائے بغیر اچانک اپنی بیوی کو تھالی میں مزید چاول ڈالنے کا اشارہ کرتے ہیں۔
ان کی اہلیہ فوراً مرتبان میں چاولوں کی مقدار دیکھتی ہیں اور پھر اپنی تھالی سے چاول نکال کر انھیں دے دیتی ہیں اور اس کا انھیں بالکل پتا بھی نہیں چلتا۔
یہ ویڈیو جب ٹوئٹر پر کسی اور صارف کی جانب سے شیئر کی گئی تو اسے یہاں 63 لاکھ افراد اب تک دیکھ چکے ہیں جبکہ یوٹیوب شارٹس پر یہ ویڈیو ایک کروڑ 10 لاکھ افراد نے دیکھی ہے۔
https://twitter.com/RajivKalra18/status/1685136348699824129
اس بارے میں اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر تمسی نے ایک کمنٹ میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے ایسی ہی ایک ویڈیو جنوبی انڈیا کے کسی اکاؤنٹ سے شائع ہوتے دیکھی تھی تو انھوں نے سوچا کے یہ شمالی انڈیا سے بھی کسی کو بنا کر شیئر کرنا چاہیے۔
اس ویڈیو کا عنوان ہے کہ ’صرف انڈین بیویاں ہی یہ کر سکتی ہیں‘۔
خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر ازدواجی زندگی پر مواد بنانے والے متعدد ایسے اکاؤنٹس موجود ہیں جو متعدد ویڈیوز کے ذریعے روزمرہ کا مواد شیئر کرتے ہیں۔
اس ویڈیو کے بارے میں مختلف قسم کی آرا سامنے آ رہی ہے۔ کچھ صارفین تنقید کر رہے ہیں کہ جب انفلوئنسر اس قسم کا مواد بناتے ہیں جن میں بیویوں اور شوہروں کو ایک مخصوص روشنی میں دکھایا جاتا ہے تو اس سے عام لوگوں میں بھی ایسا ہی رویہ پروان چڑھتا ہے۔
اکثر صارفین ویڈیو میں شوہر کے رویے پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ ایک خوبصورت لمحے سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور یہ حقیقت بھی نہیں اس لیے اس پر تنقید مناسب نہیں۔
حالانکہ یہ ویڈیو انڈیا کی ہے اور اسے ایک انڈین صارف نے شیئر کیا ہے تاہم اس پر پاکستانی صارفین خصوصاً خواتین تبصرے کر رہی ہیں۔
ایک صارف نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس قسم کے رویے کو امیر خواتین (انفلوئنسر) کی جانب سے رومانوی رنگ دینا اس لیے بہت غلط ہے کیونکہ اصل میں معاشی طور پر بدحال خواتین ایسے رویوں کے باعث غذائیت کی کمی کا شکار ہوتی ہیں۔‘
https://twitter.com/Paromitabardolo/status/1685365772087132160?s=20
اسی طرح پرینکا نامی ایک صارف نے کہا کہ ’اس ویڈیو میں اصل مسئلہ دراصل شوہر کا نظریں اٹھا کر بیوی یا کھانے کی طرف نہ دیکھنا ہے، وہ پورا وقت موبائل پر دیکھ رہے ہیں۔‘
اکثر صارفین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حالانکہ یہ ویڈیو فلم بند کی گئی لیکن ایسا انڈیا اور پاکستان کے متعدد گھرانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
ایک صارف نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ پورا دن کام کریں، کھانا بنائیں اور پھر اپنے حصے کا بھی ایک ایسے شخص کو دیں جو اپنے فون میں مصروف ہیں اور وہ ان کے کھانے کی تعریف بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی کھانے کی عزت کر سکتے ہیں۔ یہ ہمیشہ خواتین کے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے؟‘
https://twitter.com/asuph/status/1685511716916826112?s=20
ایک صارف نے لکھا کہ یہ ایک ماں اور اس کے چالیس سالہ بیٹے کی ویڈیو کیوں معلوم ہو رہی ہے؟
ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’یہی وجہ ہے کہ ہمیں ’رومانوی رویے‘ پر تنقید کرنی چاہیے کیونکہ پدرشاہی نظام میں خواتین کو قید میں رکھنا اور ان سے فائدے اٹھانا محبت کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔‘
صارف پارومیتا نے خاتون کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’بہن تم اپنا کھانا کھاؤ، وہ اپنا دیکھ لے گا۔ وہ ویسے بھی آپ کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہا ہے۔‘
اسی طرح ایک صارف نے لکھا کہ یہ شخص اپنے سامنے پڑے ہوئے چاول اپنی پلیٹ میں کیوں نہیں ڈال سکتا؟۔۔۔
امت پال نامی صارف نے لکھا کہ یہ وہ انڈین مرد بچے ہیں جو کبھی بڑے نہیں ہوئے۔ جنھوں نے یہ ویڈیو بنائی ہے انھوں نے انڈیا کی پدرشاہی ثقافت کو عیاں کر دیا ہے۔
https://twitter.com/Swastichan/status/1685870728997187584?s=20
ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا میں ایک چوتھائی بالغ خواتین غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں اور ان کا بی ایم آئی 18.5 سے کم ہوتا ہے اور ان میں سے 57 فیصد میں خون کی کمی بتائی جاتی ہے۔ مہذب معاشروں میں انفلوئنسرز کو اس قسم کا پروپیگینڈا کرنے پر سزائیں ملتی ہیں۔‘
کچھ صارفین کا یہ ماننا ہے کہ اس ویڈیو پر ضرورت سے زیادہ تنقید بھی درست نہیں کیونکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔