الیکس ڈیٹرچ کے لیے وہ ایک عام سا دن تھا۔ امریکی بحریہ کے لیفٹیننٹ کمانڈر سین ڈیاگو کے قریب بحر الکاہل کے آسمانوں میں ایک تربیتی مشن کے دوران ایف 18 سپر ہارنیٹ جہاز اڑا رہے تھے۔ قریب ہی ان کے ایک اور ساتھی بھی اپنے جہاز میں موجود تھے۔ پھر اچانک ریڈیو پر ایک آواز گونجی۔
یہ یو ایس ایس پرنسٹن پر موجود آپریشن افسر تھے جنھوں نے الیکس کو ایک مشتبہ فضائی چیز کا جائزہ لینے کو کہا جو متعدد بار 80 ہزار فٹ کی بلندی پر جا کر اچانک سمندر کی سطح تک گر جاتی تھی اور پھر اچانک غائب ہو جاتی تھی۔
جب دونوں طیارے اس مقام پر پہنچے جہاں اس پراسرار شے کی آخری بار موجودگی کے بارے میں علم ہوا تھا، انھوں نے دیکھا کہ سمندر کی سطح پر پانی جیسے ابل رہا تھا۔
چند ہی لمحے بعد ایلکس نے پہلی بار اس شے کو دیکھا۔ یہ سفید رنگ کی 40 فٹ لمبی اور چوکور شکل کی چیز تھی جس کے ساتھ کوئی پر نہیں جڑے ہوئے تھے اور وہ پانی کی سطح کے بلکل اوپر موجود تھی۔
جیسے ہی وہ اس چیز کے مذید قریب پہنچے، وہ جا چکی تھی۔ وہ نامعلوم چیز ناقابل فہم رفتار سے آسمان کی جانب اڑ گئی تھی۔
یہ 2004 کا مشہور ’ٹک ٹیک‘ واقعہ ہے جس کی ویڈیو نیو یارک ٹائمز نے جاری کر دی تھی۔ اس فوٹیج میں، جس کی تصدیق امریکی محکمہ دفاع بھی کر چکا ہے، ایک چوکور سایے کو دیکھا جا سکتا ہے جو اچانک حیران کن رفتار سے غائب ہو جاتا ہے۔
یہ ان سینکڑوں عجیب و غریب واقعات میں سے ایک ہے جو حکام تک پہنچ چکے ہیں۔ پہلے امریکی حکومت کی جانب سے 2021 میں ’یو ایف او‘ کہلائی جانے والی ان پراسرار اشیا کا جائزہ لیا گیا جن کو اب مایوس کن طور پر ’یو اے پی‘ یا شناخت نہ ہونے والا فضائی رجحان کا سنجیدہ نام دے دیا گیا ہے۔
اور اب ناسا کی جانب سے پہلی بار ان اشیا کے بارے میں اپنی تحقیق کے نتائج جاری کیے جائیں گے جبکہ امریکی کانگریس کی ایک سب کمیٹی بھی اسی معاملے پر اجلاس کر چکی ہے۔
امریکہ میں خلائی مخلوق کے بارے میں پائی جانے والی دلچسپی کے دوران، جس کو 76 سال ہو چکے ہیں، کبھی پراسرار اڑن طشتریوں کا تذکرہ ہوا، تو کبھِ عجیب و غریب روشنیاں دیکھی گئیں اور پھر ایریا 51 کا راز اپنی جگہ موجود ہے۔ تاہم اب آخرکار سائنسی برادری آگے بڑھی ہے۔
لیکن سنجیدہ واقعات کو تفتیش کے لیے کیسے چنا جائے گا؟ اور سائنسدان اب اس معاملے پر توجہ کیوں دے رہے ہیں؟
رجحان
اس رجحان کا آغاز 1947 میں ہوا جب امریکہ بھر میں لوگوں نے غیر معمولی شکل کے بارے میں تذکرہ کرنا شروع کیا جن کو انھوں نے مبینہ طور پر آسمان میں دیکھا۔
سب سے پہلے اڈاہو کی ایک کاروباری شخصیت کینیتھ آرنلڈ، جو اپنے چھوٹے سے طیارے میں ایک تباہ شدہ جنگی طیارے کے ملبے کی تلاش کر رہے تھے، نے واشنگٹن کے قریب پہاڑوں پر جون کے ماہ میں 10 ہزار فٹ کی بلندی پر روشنی چمکتی ہوئی دیکھی۔
ان کے مطابق نو اشیا آسمان میں موجود تھیں جو 1200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ رہی تھیں۔ اس وقت اس رفتار سے کوئی جہاز نہیں اڑتا تھا۔ امریکہ میں اڑن طشتریوں کا جنون یہیں سے پیدا ہوا۔
اس سے پہلے امریکہ میں اڑن طشتریوں کا کبھی ذکر نہیں ہوا تھا۔ لیکن آرنلڈ کی جانب سے ہونے والے تذکرے کے ایک ماہ کے اندر اندر ملک بھر میں ایسے 10 واقعات کے بارے میں ذکر ہوا جن کو ماہرین نے تو فرضی کہانی قرار دیا لیکن ملک میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔
اور اس معاملے میں یہ ایک چیلنج ہے کہ ہم ان اشیا کے بارے میں جتنا زیادہ سوچتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ان کو دیکھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
کورونا کی مثال ہی لیں۔ جب سائنس دانوں نے ان اشیا کو دیکھنے کے واقعات کا جائزہ لیا تو انھوں نے جانچا کہ ان مشاہدات میں اس وقت اضافہ ہوا جب لوگ گھروں تک محدود تھے اور اسی وجہ سے ہر وقت آسمان کو تکتے رہتے تھے۔
اس نظریے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر ایسے مشاہدات معاشی تنزلی کے دوران ہوئے۔
2022 میں امریکی حکومت کے تجزیے کے مطابق 350 پائلٹس اور دیگر افراد نے صرف ایک سال میں ایسی اشیا کا مشاہدہ کیا جو حیران کن اضافہ تھا۔
تاہم حقیقت میں ایسے بہت کم ہی مشاہدات غیر معمولی ہوتے ہیں۔ ناسا نے جن 800 مشاہدات کا جائزہ لیا ان میں سے صرف دو سے پانچ فیصد کی وضاحت کرنا مشکل تھا۔
ناسا کی تحقیق کے سربراہ ڈیوڈ سپرگل کے مطابق ان مشاہدات کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔
پہلا حصہ ان مشاہدات پر مشتمل ہے جن میں غبارے، ڈرون، ماحول کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضائی تبدیلی یا پھر کیمرہ میں خرابی کی وجہ سے پراسرار سمجھا جانے والا مشاہدہ ہوتا ہے۔
NASA
جب بھی وہ کسی ایسے مشاہدے کے بارے میں سنتے ہیں جس میں چمکتی ہوئی روشنی کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ جان جاتے ہیں کہ یہ کسی ہوائی جہاز کی وجہ سے ہوا گا۔
دوسری فہرست کی مثال برطانوی خلا باز ٹم پیک کی جانب سے 2015 میں دیکھی جانے والی روشنیاں ہیں۔ وہ 186 دن خلا میں گزارنے کے بعد انٹرنیشنل سپیس سٹیشن سے باہر دیکھ رہے تھے حب ان کو محسوس ہوا کہ روشنیاں ایک مخصوص انداز میں حرکت کر رہی ہیں۔ پہلے ان کو تین، پھر چار روشنیاں نظر آئیں۔ انھوں نے بعد میں بی بی سی کے شو میں بتایا کہ ان کو لگا کہ وہ کسی خلائی مخلوق کا خلائی جہاز دیکھ رہے ہیں۔
ٹم پیک کو بہت جلد ہی احساس ہو گیا کہ وہ کسی پراسرار چیز کو نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے قطرے دیکھ رہے تھے جو ایک روسی خلا باز کی جانب سے پیشاب کرنے کے بعد قریب ہی موجود ایک خلائی گاڑی سے خارج ہو رہے تھے۔
اکثر ایک عام سی چیز نظر کے قریب میں بدل جاتی ہے۔ ایسا ہی وینس یا زہرہ نامی سیارے کے ساتھ بھی ہو جاتا ہے جو ویسے تو زمین جتنا بڑا ہے لیکن 70 ملین کلومیٹر دوری کی وجہ سے اکثر کسی اڑن طشتری جیسا لگ سکتا ہے۔
اسی طرح خلا میں پائی جانے والی خشکی کے ٹکڑے یا پانی کے کرسٹل بھی خلائی مخلوق کا روپ دھار کر لوگوں کو دھوکا دے چکے ہیں۔
تاہم کسی طاقتور کیمرہ کی آنکھ سے دیکھے بنا ان اشیا کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
ڈیوڈ سپرگل کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں تین سے چار ارب موبائل فون ہیں جو اچھی تصاویر لے سکتے ہیں، جی پی ایس پوزیشن جانچ سکتے ہیں اور کافی معلومات دے سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سب سے بہتر تو یہ ہے کہ کسی چیز کی متعدد کیمروں سے ایک ہی وقت میں تصاویر لی جائیں جس سے محققین کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ یہ نظر کا دھوکا ہیں یا کچھ اور۔‘
ایک پراسرار شے
اکتوبر 2017 میں ماہرین فلکیات نے ایک ٹیلی سکوپ کی مدد سے ایک عجیب سی سفید رنگ کی شے کو ہوائی میں موجود بادلوں کے درمیان دیکھا۔ یہ شے بہت تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی۔
اس شے کو ’اومواموا‘ کا نام دیا گیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ تیز تو تھی ہی لیکن اس کی رفتار بڑھ رہی تھی۔ نومبر کے مہینے میں یہ شے 38 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہی تھی جو ناقابل فہم تھا کیوں کہ دمدار ستاروں کی رفتار عام طور پر بڑھتی ہے جب وہ سورج کے قریب سے گزرتے ہیں لیکن اس شے کی دم نہیں تھی۔
سائنسدان بھی حیران تھے۔ کیا یہ کوئی غیرمعمولی دمدار ستارہ تھا یا کچھ اور؟ ایوی لیوب ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جو خلائی مخلوق کی متنازع تلاش کی وجہ سے مشہور ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ کسی خلائی مخوق کی جانب سے زمین پر بھیجا گیا ہے۔
اگرچہ کہ اب تک زیادہ تر سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ ’اومواموا‘ کوئی قدرتی چیز ہی تھی، جو غیر معمولی دمدار ستارہ بھی ہو سکتا ہے، اس میں کسی یو اے پی کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔
اس کے باوجود ڈیوڈ سپرگل اسے کسی خلائی مخلوق کا ثبوت نہیں سمجھتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم کوئی ایسی چیز دیکھیں جو تیز رفتار ہو اور پھر رفتار کم کر لے تو وہ غیر معمولی ہو گا۔‘
وہ اس معاملے کو وقت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی کے گرد موجود زیادہ تر ستارے عمر کے اعتبار سے سورج سے اربوں سال چھوٹے یا بڑے ہیں۔
ڈیوڈ سپرگل کہتے ہیں کہ ’یہ یاد رکھنا ہو گا کہ 100 ملین سال کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اگر آپ 1923 میں جینے والے کسی شخص کو آج کی گاڑیاں، طیارے یا ٹیکنالوجی دکھائیں گے تو وہ متاثر ہو گا لیکن حیران نہیں ہو گا۔ اگر آپ سنہ 1023 میں جینے والے کسی کو یہ سب دکھائیں گے تو سمجھے گا کہ ہم سب جادوگر ہیں۔ ایک ہزار سال ٹیکنالوجی میں بہت بڑا قدم ہیں۔ اور 100 ملین سال ایسے ایک لاکھ قدم ہوں گے۔‘
ایک نئی دریافت
ناسا کو اس بات کی توقع نہیں ہے کہ ان کو کسی ذہین خلائی مخلوق کے زمین کے دوروں کا ثبوت مل جائے گا لیکن یہ ممکنات میں سے ایک ضرور ہے۔
تاہم ان کا مقصد ایک ایسی رپورٹ تیار کرنا ہے جس میں زمین کے ارد گرد ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا جائے جس میں موسم کے غیر متوقع حالات بھی شامل ہیں۔
مثال کے طور پر ’سپرائٹس‘ نامی الیکٹرک ڈسچارج جو زمین کی اوپر کی سطح کو لال رنگ سے روشن کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں 1886 سے ہی بتایا جا رہا ہے لیکن پہلی بار ان کو کیمرہ کی آنکھ نے 1989 میں محفوظ کیا تھا۔ تاہم اب تک یہ ایک معمہ ہیں۔
ڈیوڈ سپرگل کہتے ہیں کہ ’بہت سے لوگ کئی دلچسپ چیزوں سے لاعلم ہیں۔‘ سپرائٹس ایسی ہی چیزوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ ہائی سپیڈ کیمرہ سے پہلے سائنسدان بھی ان پر یقین نہیں کرتے تھے۔
یہ صرف تجسس کا معاملہ نہیں ہے۔ فضا میں ایسی کوئی بھی چیز جو ناقابل فہم ہو، سیٹلائیٹ اور طیاروں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔
ڈیوڈ سپرگل کہتے ہیں کہ ’مجھے فضا میں موجود غباروں اور ڈرونز کی تعداد جان کر حیرانی ہوئی۔ اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان میں سے چند طیاروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔‘
تاہم کسی بھی قسم کی پیشرفت کے لیے اعلی معیار کا ڈیٹا ضروری ہے۔ ناسا کو احساس ہے کہ انھیں اڑن طشتریوں سے جڑے تصورات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
جب ڈیٹرچ کا جہاز اس واقعے کے بعد نیچے اترا تو ان کے ساتھی نے بتایا کہ جس نے بھی وہ واقعہ سنا کافی محظوظ ہوا۔
تاہم ان دونوں کو ہی برسوں انٹرویو دینا پڑے اور وہ مشہور ہو گئے۔
ناسا نے جب پہلی بار عوامی سطح پر اس معاملے پر اجلاس بلایا تو نکولا فاکس، جو سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں، نے بتایا کہ افسوس ناک طور پر تحقیق میں شامل کئی افراد کو آن لائن برا بھلا کہا جا رہا ہے۔
ڈیوڈ سپرگل کہتے ہیں کہ ان کو اس بات کی امید ہے کہ ان کی جانب سے شائع ہونے والی تحقیق اس تصور کو کم کرے گی کہ کوئی سازش کی جا رہی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔
جون 1947 میں کینیتھ آرنلڈ نے میڈیا سے کہا تھا کہ ’اگر میں ملک کو چلا رہا ہوتا اور کوئی ایسی غیر معمولی چیز دیکھ کر ہمیں بتاتا تو میں یقینا اس کے بارے میں مذید معلومات حاصل کرتا۔‘