BBC
کیا آپ کے فالوئرز کی تعداد ماڈل اور ایکٹرٹک ٹاکر جنت مرزا کے 23 ملین فینز سے کم ہے یا زیادہ؟ بھلے آپ عمران خان ہی کیوں نہ ہوں۔ گویا فالوئرز کم ازکم جنت مرزا کے برابر ہوں، ورنہ نہ ہوں۔
معیار اگر یہی بن چکا ہے کہ آپ کے اثر و رسوخاور مقبولیت کو ٹک ٹاک، فیس بک یا ٹوئٹر فالوئرز کے گز سے ہی ناپا جائے گا تو پھر کیوں نہ بات سوشل میڈیا پرسنیلٹی (اس اصطلاح کا مطلبکم از کم میں نہیں جانتا) کھابے لیم سے شروع کی جائے جس کے ٹک ٹاک پر 158 ملین فالوئرز ہیں۔
رقاص چارلی ڈمیلو کے ڈیڑھ سو ملین، گلوکار بیلا پوارچ کے ترانوے ملین، رقاص ایڈیسن رے کے نواسی اور ماربیسٹ کے اکیاسی ملین فالوئرز ہیں۔
فیصلہ اگر فیس بکفالوئنگ سے ہونا ہے تو پھر آپ کو کم ازکم 161 ملین فالورز کے مالک فٹ بالر کرسٹیانو رونالڈو، ایک سو اکیس ملین فالوئرز والی گلوکارہ شکیرہ، ایک سو چودہ ملین فالوئرز میں مقبول اداکار ول سمتھ، ایک سو تیرہ ملین فالوئرز پر شاداں فٹ بالر میسی اور اداکار وین ڈیزل کے ایک سو چھ ملین فالوئرز کو کراس کرنا پڑے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر انسٹا گرام پرفٹ بالر رونالڈو کی طرح آپ کے 510 ملین، گلوکارہ آریانا گرانڈ کے تین سو تینتالیس ملین، گلوکارہ سیلینا گومیز کے تین سو باسٹھ ملین، دی راک نامی پہلوان کے تین سو اکیاون ملین، ماڈل اور انفلوئنسر کم کارڈیشیئن کی طرح تین سو پینتیس ملین فالوئرز نہیں تو پھر آپ پتلی گلی سے نکلنے کا سوچیے۔
اور ٹوئٹر پر ایلون مسک کی طرح 130 ملین، کم کارڈیشیئن کی طرح پچھتر ملین، ڈیجیٹل مارکیٹئر گیری وینرچک کی طرح تین ملین اور ملالہ یوسفزئی کی طرح دو ملین فالوئرز نہیں تو پھر آپ نے زندگی میں اب تک آخر کیا کیا؟
اور یو ٹیوبر ہو تو جمی ڈونلڈ سن عرف مسٹر بیسٹ جیسا کہ جس کے 136 ملین سبسکرائبر ہیں یا پھر فیلکس کیلبرگ عرف پئو ڈائی پائی کی طرح ایک سو گیارہ ملین سبسکرائبر، یا پھر نو سالہ روسی نژاد امریکن بچی انستاسیا ریزنسکایا کی طرح ایک سو چار ملین، یا پھر ڈوڈ پرفیکٹ کی طرح انسٹھ ملین یا پھر جوگا جرمن کی طرح اڑتالیس ملین سبسکرائبر ہوں تب تو کوئی بات ہے، ورنہ کیا بات ہے؟
Getty Images
مطلب یہ کہ اس دنیا کے ہر اونٹ کے اوپر ایک پہاڑ اور ہر پہاڑ کے اوپر ایک آسمان موجود ہے، تو کیا محض سوشل میڈیا پر فالوئرز یا سبسکرائبرز کی تعداد کو مقبولیت یا اثر کا پیمانہ بنانا اور لائکس یا سبسکرپشن یا فالوئنگ کے لیے جان پر کھیلنے سمیت کچھ بھی کر گزرنا یا سکرینچی فینز کی تعداد سامنے رکھ کے کوئی حکمتِ عملی ترتیب دینا اور پھر اس حکمتِ عملی پر ٹرول بریگیڈز کی سفارشات کی روشنی میں تکیہ کرنا کتنی عاقلانہ بات ہے؟
آپ کو کوفہ یاد ہے؟ کتنے ہزار فالوئرز جان دینے پر آمادہ تھے۔ جب عبید اللہ ابنِ زیاد کا فرمانِ جبر جاری ہوا تو کتنے فالوئرز کھڑے رہے؟ یہ وہی ہزاروں تھے نا جنھوں نے امام کو اپنی وفاداری پر مبنی سینکڑوں خط بھیجے تھے۔ آجکے کوفے کا نام سوشل میڈیا ہے۔
یاد ہے جنرل پرویز مشرفکے فیس بک فالوئرز کی تعداد چار لاکھ تھی۔ جب وہ معزولی کے بعد پہلی بار اس فالوئنگ پر بھروسہ کر کے بیرونِ ملک سے کراچی کے جناح انٹرنیشنل پر لینڈ کیے تو چار لاکھ میں سے ساڑھے چودہ لوگ ہار لیے کھڑے تھے۔
ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے ( صغیر ملال )
وہ جو کہتے ہیں کہ اشیا کا اپنا جادو ہے، جس پر یہ جادو چل گیا وہ کہیں کا نہ رہا۔ سوشل میڈیا کیا ہے؟ ورچوئل ریئلٹی ہے نہ؟ ورچوئل ریئلٹی اس کے سوا کیا ہے کہ
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے
اب یہ سوچنے میں کیا قباحت ہے کہ خان صاحب کو نو مئی تک لانے میں سوشل میڈیا پر پرستاروں کی تعداد دکھا دکھا کے ان کی رائے پر اثرانداز ہونے والے ’گھیروؤں‘ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
جب 24 گھنٹے آپ کے کانوں میں فالوئرز فالوئرز فالوئرز بجایا جائے تو پھر کوئی بھی انسان اس تکراری عمل کو ٹھوس سچائی سمجھنے لگتا ہے اور یہ ورچوئل الوژن اس کے اہم فیصلوں پر بھی شعوری و لاشعوری طور پر اثرانداز ہونے لگتا ہے۔ یوں کوئی ایک قدم بھی الٹا پڑ جائے تو سب الٹا پڑتا چلا جاتا ہے۔
خان صاحب کے ارد گرد جو حلقہ تھا، نو مئی کے بعد پتہ چلا کہ وہ بھی ورچوئل تھا۔ ووٹ بینک آج بھی باقی ہے۔ چوری کھانے والے مجنوں تو ایک تپتی دوپہر میں ہی پگھل گئے۔ اب ساتھ کھڑے خون دینے والے مجنوں کتنے باقی ہیں؟
صرف خان صاحب ہی کیا، ان کی مقدماتی مشکیں کسنے والے بھی ورچوئل ریئلٹی کے دھوکے میں لت پت ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ اگر ایک آدمی کو ہاتھ پاؤں باندھ کے ڈال دیا جائے تو دیگر بھی تیر کی طرح سیدھے ہو کے چار و ناچار قطار میں آ ہی جائیں گے۔
مگر بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔ لوگ دن بہ دن بدتمیز ہوتے جا رہے ہیں۔ مقدس اور عام گائے میں تمیز کھوتے جا رہے ہیں۔ زندگی کی سختیاں انھیں اور نڈر بنا رہی ہیں۔
قوم جو کبھی تھی، اس نے اتنی مار سہی کہ اب بس ایک ہجوم کا وجود بچا ہے اور مصیبت یہ ہے کہ یہ ہجوم ورچوئل نہیں اصلی ہے۔ اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت سوشل میڈیا کے بارے میں بہت ہی ان سوشل ہے۔
اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ انھیں یہ تک نہیں معلوم کہ ٹک ٹاک پر جنت مرزا کے زیادہ فالورز ہیں یا عمران خان کے؟
زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے دیوانے آدمی ہیں ( داغ دہلوی)