ایٹم بم بنا کر ’جہانوں کے غارت گر‘ کہلانے والے اوپنہائمر کا فخر پچھتاوے میں کیسے بدلا؟

بی بی سی اردو  |  Jul 15, 2023

Getty Images

یہ 16 جولائی 1945 کو صبح سویرے کا وقت تھا۔ رابرٹ اوپنہائمر کنٹرول بنکر میں اس لمحے کے منتظر تھے جو دنیا بدلنے والا تھا۔ نیو میکسیکو کے صحرا میں قریب 10 کلو میٹر دور دنیا کے پہلے ایٹم بم کی آزمائش چل رہی تھی جسے ’ٹرینیٹی‘ کا نام دیا گیا۔

اوپنہائمر پریشانی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ وہ ہمیشہ سے کمزور صحت کے حامل تھے۔ انھوں نے تین سال ’مینہیٹن انجینیئر ڈسٹرکٹ‘ کی سائنسی شاخ ’پراجیکٹ وائے‘ کی سربراہی کی جہاں بم بنایا گیا۔

اس وقت ان کا وزن 52 کلوگرام تھا اور پانچ فٹ 10 انچ کے قد کے ساتھ وہ کافی دبلے پتلے لگتے تھے۔ وہ رات کو صرف چار گھنٹے سو پاتے تھے۔ شدید پریشانی اور سگریٹ پینے کی وجہ سے کھانسی انھیں جگائے رکھتی تھی۔

سنہ 1954 کا وہ دن اوپنہائمر کی زندگی کے بڑے لمحات میں سے ایک تھا جس کے بارے میں مورخین کائی برڈ اور مارٹن جے شروین نے 2005 میں اپنی کتاب امیریکن پرومیتھیئس میں تفصیلات لکھی ہیں۔ انھی واقعات پر مبنی فلم اوپنہائمر 21 جولائی سے امریکہ میں ریلیز ہو رہی ہے۔

برڈ اور شروین کی رپورٹ کے مطابق ایٹمی دھماکے سے چند منٹ قبل ایک فوجی جرنیل نے اوپنہائمر کے مزاج کا مشاہدہ کیا: ’ڈاکٹر اوپنہائمر۔۔۔ آخری سیکنڈوں میں انتہائی سنجیدہ ہوتے چلے گئے۔ وہ بہت کم سانس لے رہے تھے۔‘

اس دھماکے کی روشنی سورج سے بھی زیادہ تھی۔ 21 کلو ٹن ٹی این ٹی جتنی قوت کا یہ تجربہ اب تک کا سب سے بڑا دھماکہ تھا۔ اس کی شاک ویو 160 کلو میٹر دور تک محسوس کی گئی۔

پورا علاقہ دھماکے کی آواز کی لپیٹ میں آ گیا اور دھوئیں کے بادل آسمان کی طرف اٹھنے لگے۔ اسی دوران اوپنہائمر کے چہرے پر ’گہرے اطمینان‘ کے تاثرات آ گئے۔ کچھ منٹ بعد اوپنہائمر کے دوست اور ساتھی ازیڈور رابی نے انھیں دور سے چلتے ہوئے دیکھا: ’میں کبھی ان کی وہ واک بھلا نہیں سکتا۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ وہ کیسے گاڑی سے نکلے۔۔۔ ان کے چلنے میں کامیابی کا عنصر تھا۔‘

Getty Images’بے چارے‘ جاپانیوں پر بم گرائے جانے پر اوپنہائمر نے ’مکا لہرایا‘

سنہ 1960 کی دہائی کے انٹرویوز میں اوپنہائمر نے ان لمحات کے بارے میں کہا کہ اس وقت انھیں ہندو مذہب کی کتاب بھگوت گیتا کی وہ عبارت یاد آئی: ’اب میں موت بن چکا ہوں، جہانوں کو تباہ کرنے والا۔‘

اگلے دنوں ان کے دوستوں نے انھیں ذہنی طور پر پریشان پایا۔ ایک کا کہنا تھا کہ ’رابرٹ بہت خاموش ہو گئے اور دو ہفتوں تک گہری سوچ میں چلے گئے۔‘

’کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔‘

ایک صبح انھیں جاپانیوں کے واضح انجام پر فخریہ انداز میں بولتے سنا گیا: ’وہ بیچارے لوگ، وہ بیچارے لوگ۔‘ پھر کچھ دن بعد وہ دوبارہ اضطراب میں آ گئے۔

فوجی ہم منصب سے ملاقاتوں میں وہ ’ان بیچارے لوگوں‘ کے بارے میں بظاہر بھول چکے تھے۔ برڈ اور شروین کے مطابق انھوں نے صحیح حالات میں بم گرانے کی اہمیت پر بات کی۔ ’ظاہر ہے انھیں اسے بارش یا دھند کے موسم میں نہیں گرانا چاہیے۔۔۔ انھیں بلندی پر اسے دھماکے سے اڑانے نہ دینا۔ طے شدہ اعداد و شمار بالکل درست ہیں۔ اسے زیادہ بلندی پر نہ لے جانا ورنہ ہدف کو اتنا نقصان نہیں پہنچے گا۔‘

ٹرینیٹی آزمائش کے قریب ایک ماہ بعد انھوں نے ہیروشیما میں کامیاب بمباری کا اعلان اپنے ساتھیوں سے کیا۔ اس دوران ایک شخص نے دیکھا کہ اوپنہائمر نے ’ہوا میں مکا لہرایا جیسے وہ دنگل میں جیت گئے ہوں۔‘ اس پر تالیوں نے ماحول کو مزید گرما دیا۔

اوپنہائمر مینہیٹن پراجیکٹ کے جذبانی اور دماغی جزو تھے: کسی بھی دوسرے شخص کے مقابلے انھوں نے ہی ایٹم بم کو حقیقت میں بدلا۔ جنگ کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے والے جیرمی برنسٹین کہتے ہیں کہ یہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔

انھوں نے سنہ 2004 میں اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ ’اگر لاس ایلموس میں اوپنہائمر سربراہ نہ ہوتے تو مجھے لگتا ہے کہ اچھے یا بُرے انجام پر دوسری عالمی جنگ ختم ہو جاتی۔۔۔ جوہری ہتھیار استعمال کیے بغیر۔‘

اوپنہائمر نے کئی مواقع پر اس ایٹمی دھماکے پر مختلف تبصرے کیے ہیں۔ یہ ایسا ہے جیسے پریشان خیالی، امنگ، عروج اور تباہی کے خوف جیسے تمام جذبات کو ایک شخص میں ڈال دیا جائے۔

برڈ اور شروین نے اوپنہائمر کو ایک ’انیگما‘ یعنی معمہ قرار دیا: ’وہ ایسے تھیوریٹیکل فزیسسٹ تھے جنھوں نے عظیم رہنما جیسی صلاحیتیں ظاہر کیں۔ فن کی تعریف کرنے والا شخص جس نے ابہام کو جنم دیا۔‘

ان کے ایک دوست سائنسدان نے انھیں ’تخیل میں بہترین ہیر پھیر کرنے والا‘ کہا۔

برڈ اور شروین کی کتاب اور اوپنہائمر کے کردار میں تضادات – جن کی وضاحت ان کے دوست اور مصنفین کرنے میں ناکام رہے – ان کے ابتدائی برسوں سے موجود تھے۔

وہ سنہ 1904 میں نیو یارک شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین جرمنی سے آئے یہودی تارکین وطن تھے جو ٹیکسٹائل کی تجارت سے امیر ہوئے۔ وہ اپر ویسٹ سائیڈ کے ایک بڑے گھر میں رہتے تھے جس کی دیواروں پر یورپی فن پارے سجائے گئے تھے اور جہاں تین ملازمائیں اور ایک ڈرائیور تھا۔

پُرتعیش پرورش کے باوجود اوپنہائمر کے دوستوں کے مطابق وہ بگڑے ہوئے نہیں بلکہ عاجز تھے۔ ان کے سکول کی دوست جین دیدیشم یاد کرتے ہیں کہ وہ ’آسانی سے شرما جاتے تھے‘ اور ’بہت شرمیلے تھے۔۔۔ مگر وہ بہت ذہین تھے اور انھیں سب تسلیم کرتے تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں سے مختلف اور بہتر تھے۔‘

نو سال کی عمر میں وہ یونانی اور لاطینی فلسفہ پڑھنے لگے اور معدنیات میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی۔ وہ سینٹرل پارک میں پھرتے اور نیو یارک منرلوجیکل کلب کو خط لکھ کر بتاتے کہ انھوں نے کیا برآمد کیا۔ ان کے خط اتنے اچھے تھے کہ کلب کو لگا کہ وہ ایک بالغ مرد ہیں اور انھیں پریزنٹیشن دینے کے لیے مدعو کر لیا گیا۔

برڈ اور شروین کے مطابق اوپنہائمر کے ذہانت نے انھیں تنہا کر دیا تھا۔ ایک دوست کے مطابق ’وہ غور و فکر میں اکیلے کام کرتے اور سوچتے رہتے تھے۔‘

وہ صنفی توقعات پر پورا اترنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ نہ ہی انھیں کھیلوں میں حصہ لینے کی دلچسپی تھی۔ ان کے ایک کزن کے مطابق وہ بہادر بننے کے شوقین نہ تھے۔

’دوسروں کے جیسا نہ ہونے پر انھیں چھیڑا جاتا تھا۔‘ مگر ان کے والدین کو یقین تھا کہ وہ بہت عقلمند ہیں۔

اوپنہائمر کے مطابق ’والدین مجھ پر اعتماد کرتے تھے جس کے بدلے میں نے اپنے اندر ناخوشگوار انا پیدا کر لی۔‘

ایک دوست نے ان کے بارے میں کہا ’یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ آپ کسی کتاب کے صفحے پلٹتے ہوئے کہیں ہاں، ہاں، مجھے پتا ہے۔‘

Getty Imagesاوپنہائمر نے اپنے استاد کی ’زہریلا سیب کھلانے کی کوشش کی‘

وہ کیمسٹری پڑھنے ہارورڈ یونیورسٹی گئے جہاں ان کی کمزور شخصیت بے نقاب ہو گئی اور ان کی انا و حساسیت ان کے زیادہ کام نہ آئی۔

سنہ 1923 میں لکھے ایک خط میں انھوں نے کہا تھا کہ ’میں بڑی محنت کرتا ہوں کہ کئی نوٹ، نظمیں، کہانیاں اور کباڑ لکھتا ہوں۔۔۔ میں تین الگ الگ لیبارٹریوں میں بدبو پھیلاتا ہوں۔۔۔ میں بھولے بھٹکوں کو چائے پلاتا ہوں اور ان سے بات کرتا ہوں۔ ہفتہ وار چھٹیوں پر میں کم درجے کی توانائی کو ہنسی مذاق اور تھکاوٹ میں تبدیل کرتا ہوں۔

’یونانی ادب پڑھتا ہوں، لوگوں میں ایسے جملے بول کر شرمندگی جھیلتا ہوں، اپنے ڈیسک میں خطوط ڈھونڈتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کاش میں مر گیا ہوتا۔‘

خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیمبرج میں پوسٹ گریجویٹ تعلیم کے دوران بھی یہ مسائل جاری رہے۔ ان کے استاد انھیں لیبارٹری میں کام کرنے کا کہتے جو کہ اوپنہائمر کی کمزوری تھی۔ انھوں نے 1925 میں لکھا کہ ’میرا وقت بہت بُرا گزر رہا ہے۔ لیب میں کام کرنا بوریت کا باعث بنتا ہے۔ میں اس میں اتنا بُرا ہوں کہ مجھے نہیں لگتا کچھ سیکھ سکتا ہوں۔‘

اسی سال کے اواخر میں اوپنہائمر نے جان بوجھ کر لیبارٹری کے کیمیکلز لگا کر ایک زہریلا سیب اپنے استاد کے ڈیسک پر چھوڑ دیا۔ ان کے دوستوں نے سوچا کہ شاید انھوں نے ایسا حسد اور کمتری محسوس کرتے ہوئے کیا۔

استاد نے وہ سیب نہیں کھایا مگر کیمبرج میں اوپنہائمر کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں صرف اس شرط پر نکالا نہ گیا کہ وہ ایک ماہر نفسیات کے پاس جائیں گے۔ ماہر نفسیات نے ان میں سائیکوسس (ذہنی عارضہ جس میں حقیقت سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے) کی شناخت کی مگر ساتھ ہی کہا کہ علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

اس مرحلے کو یاد کرتے ہوئے اوپنہائمر نے بتایا تھا کہ انھوں نے کرسمس کی چھٹیوں کے دوران خودکشی کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔

اگلے سال پیرس کے دورے پر ان کے ایک دوست فرانسس فرگیوسن نے انھیں بتایا کہ انھوں نے اپنی گرل فرینڈ کو شادی کی پیشکش کی ہے۔ اوپنہائمر نے اس کے ردعمل میں ان کا گلا دبانے کی کوشش کی۔ فرگیوسن یاد کرتے ہیں کہ ’وہ پیچھے سے میرے اوپر کود گئے اور بیلٹ سے میرا گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔۔۔ میں اس سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور وہ زمین پر گِر کر رونے لگے۔‘

مگر نفسیاتی مسائل سے دوچار اوپنہائمر کی مدد ادب نے کی۔ برڈ اور شروین کے مطابق وہ فرانس میں ماسیل پروست کی کتاب پڑھنے لگے جس میں انھیں اپنے خیالات کی عکاسی ملی اور اس طرح وہ خود کو تسلیم کرنے لگے۔

انھوں نے کتاب سے یہ یاد کر لیا: ’اپنے مظالم سے لاتعلقی ظلم کی خوفناک اور مستقل قسم ہے۔‘

ظلم کے حوالے سے رویہ اوپنہائمر کی دلچسپیوں میں رہا اور اس نے دنیا میں ان کی شناخت پیدا کرنے میں کردار ادا کیا۔

انھوں نے ایک دوست کو بتایا کہ ’میں ایسے شخص کی تعریف کروں گا جو بہت سی چیزوں میں قابل ہو مگر اس کے باوجود اس کے چہرے پر آنسوؤں کے داغ ہوں۔‘

انگلینڈ واپس آمد پر ان کے جذبے بلند تھے اور وہ ’نیک دل ہونے کے ساتھ متحمل‘ محسوس کر رہے تھے۔

سنہ 1926 میں ان کی ملاسات جرمنی میں انسٹیٹیوٹ آف تھیوریٹیکل فزکس کے ڈائریکٹر سے ہوئی وہ مان گئے تھے کہ اوپنہائمر اچھے تھیوریٹیکل فزیسسٹ ہیں لہذا انھیں وہاں پڑھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ 1926 وہ سال تھا جس میں وہ ’فزکس کی دنیا میں آ گئے‘ اور یہی ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔

وہ اس شعبے میں اہم تحقیق کرنے والی برادری سے جڑ گئے اور ایسے سائنسدانوں سے ملاقاتیں کرتے جو ان کے زندگی بھر کے دوست بنے۔ ان میں سے کئی لاس ایلومس میں ان کے ساتھ تھے۔

Getty Imagesحب الوطنی میں ایٹم بم بنانے کا جذبہ اور خواہش

امریکہ واپسی پر اوپنہائمر نے کچھ ماہ ہارورڈ میں گزارنے اور پھر کیلیفورنیا میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کے خطوط میں عاجزانہ لہجہ آنے لگا۔ انھوں نے چھوٹے بھائی کو لکھے خط میں رومانوی انداز اور فن کے بارے میں بات کی۔

برکلی میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں انھوں نے تجربات کرنے والے سائنسدانوں کے ساتھ قریبی سے کام کیا اور کازمک ریز اور نیوکلیئر ڈس انٹیگریشن پر نتائج کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ واحد شخص تھے جو سمجھ سکتے تھے کہ یہ سب کس بارے میں ہے۔‘

ان کے مطابق ان کا محکمہ اسی وقت وقت وجود میں آگیا جب وہ اپنی پسندیدہ تھیوری دوسروں کو سمجھاتے تھے۔ وہ خود کو ’مشکل‘ استاد سمجھتے تھے مگر اسی کردار کی بدولت اوپنہائمر میں وہ حوصلہ آیا جس کی انھیں پروجیکٹ وائے کے دوران ضرورت تھی۔ ایک ساتھی نے ان کے طلبہ کے بارے میں لکھا کہ ’وہ انھیں بہترین سمجھتے، ان کی حرکات کی نقل اتارتے۔ اوپنہائمر نے ان کی زندگیوں کو متاثر کیا۔‘

1930 کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے اپنے ادبی کیریئر کو مضبوط بنایا۔ اسی دوران انھوں نے ہندو مقدس کتب حاصل کیں اور سنسکرت سیکھی تاکہ وہ اصل بھگوت گیتا پڑھ سکیں۔ اسی کتاب سے انھوں نے ’اب میں موت ہوں‘ کا حوالہ دیا تھا۔

یہ صرف ان کا ادبی شوق نہیں بلکہ مقدس حوالوں میں خود کے لیے سبق تلاش کرنے کا طریقہ تھا۔

بھگوت گیتا میں اشرافیہ کے ایک خاندان کے دو بازوؤں کے درمیان جنگ نے اوپنہائمر کو وہ فلسفہ سمجھایا جس کا انھوں نے پراجیکٹ وائے سے جڑے اخلاقی تقاضوں کی صورت میں سامنا کیا۔

انھیں یہ سبق ملا کہ نتائج سے قطع نظر اپنے کام اور قسمت پر غور کرنا چاہیے جبکہ نتائج کے خوف کی وجہ سے کسی اقدام کو روکا نہیں جاسکتا۔

1932 میں اپنے بھائی کو لکھے ایک خط میں انھوں نے بھگوت گیتا کا حوالہ دیا اور پھر جنگ کی مثال دے کر بتایا کہ اس فلسفے کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔

1930 کی دہائی کے وسط میں انھیں ماہر نفسیات ڈاکٹر جیٹ ٹاٹلاک سے محبت ہوگئی۔ برڈ اور شروین کے مطابق جین کے کردار میں بھی اوپنہائمر جیسی پیچیدگی تھی۔ اوپنہائمر نے انھیں شادی کی پیشکش کی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا۔ مگر جین نے انھیں انتہا پسندی کی سیاست اور جان ڈون کی شاعری متعارف کرائی۔

اوپنہائمر نے بیالوجسٹ کیتھرین ’کیٹی‘ ہیریسن سے 1940 میں شادی کی۔ کیٹی بھی پراجیکٹ وائے میں ان کے ساتھ تھیں جہاں وہ تابکاری کے خطرات پر تحقیق کر رہی تھیں۔

1939 میں سائنسدان سیاستدانوں سے زیادہ جوہری خطرے کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھے۔ البرٹ آئنسٹائن نے امریکی حکومت کے سینیئر رہنماؤں کو خط بھی لکھا۔

اس کا ردعمل سست تھا مگر سائنسدانوں کے حلقوں میں تشویش بڑھتی رہی جس کے بعد صدر نے اقدام اٹھایا۔

ستمبر 1942 میں جزوی طور پر اوپنہائمر کی ٹیم کی بدولت یہ واضح ہوگیا کہ ایٹم بم بنانا ممکن تھا اور اسے بنانے کے لیے ٹھوس منصوبہ شروع ہوگیا۔

برڈ اور شروین کے مطابق جب اوپنہائمر کو معلوم پڑا کہ وہ اس منصوبے کے سربراہ ہوں گے تو انھوں نے تیاریاں شروع کر دیں۔ انھوں نے اس وقت ایک دوست سے کہا ’میں ہر اس شخص سے رابطہ ختم کر رہا ہوں جو کمیونسٹ ہے۔ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو حکومت کو میرے ساتھ کام کرنے میں مشکلات ہوں گی۔ میں قوم کے لیے اپنے عزائم میں کسی چیز کو مداخلت نہیں کرنے دوں گا۔‘

آئنسٹائن نے بعد ازاں کہا کہ ’اوپنہائمر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جس چیز سے محبت کرتے ہیں، وہان سے پلٹ کر محبت نہیں کرتی – امریکی حکومت۔‘

اوپنہائمر کو اس منصوبے کے لیے بھرتی کرنے میں ان کی محبت الوطنی اور خواہش نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مینہیٹن انجینیئر ڈسٹرکٹ کے فوجی رہنما جنرل لیزلی گرووز ایٹم بم منصوبے کے لیے سربراہ سائنسدان کو ڈھونڈنے کے ذمہ دار تھے۔

ان پر ’ریسنگ فار دی بومب‘ نامی 2002 کی کتاب کے مطابق گرووز نے تجویز دی کہ اوپنہائمر کو اس منصوبے کا سربراہ ہونا چاہیے مگر انھیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

اوپنہائمر کا ’انتہائی آزاد خیال پس منظر‘ ایک تشویش تھی۔ گرووز نے سائنس کی دنیا میں ان کے علم کی قدر جانی مگر وہ ان کی ایٹم بم کے حوالے سے اس پُرزور خواہش سے پریشان تھے۔

مینہیٹن پراجیکٹ کے چیف آف سکیورٹی نے نوٹ کیا کہ ’مجھے یقین ہوگیا کہ وہ نہ صرف وفادار ہیں بلکہ وہ اس منصوبے کی کامیابی اور سائنس کی تاریخ میں اپنی جگہ کے بیج کسی رکاوٹ کو نہیں آنے دیں گے۔‘

’دی میکنگ آف دی اٹامک بومب‘ نامی 1988 کی کتاب میں اوپنہائمر کے دوست ازیڈور رابی کہتے ہیں کہ اوپنہائمر سمجھتے ہیں کہ وہ اس کام کے لیے غیر متوقع شخص تھے۔ ’یہ جنرل گرووز کی ذہانت کی مثال تھی۔‘

’سائنس وہ شعبہ ہے جس میں غلطی کر کے سیکھا جاتا ہے‘

لاس ایلموس میں بھی اوپنہائمر نے اپنی شخصیت کے تضادات کا خوب مظاہرہ کیا۔ 1979 کی سوانح عمری میں اوٹو فریش بتاتے ہیں کہ اوپنہائمر نے نہ صرف سائنسدان بھرتی کیے مگر ’ہینٹر، فلسفی اور ایسے لوگ بھی بھرتی کیے جہاں ان کی جگہ نہیں بنتی تھی۔ انھوں نے سوچا کہ ان لوگوں کے بغیر مہذب برداری نہیں بن سکتی۔‘

جنگ کے بعد اوپنہائمر کا رویہ بدل گیا۔ انھوں نے جوہری ہتھیاروں کو ’جارحیت، دہشت اور حیرت‘ کی علامتیں کہا۔ ان کے مطابق ہتھیاروں کی صنعت ’شیطان کا کام‘ ہے۔

اکتوبر 1945 کی ایک میٹنگ کے دوران انھوں نے صدر ٹرومین سے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میرے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔‘ صدر نے بعد میں بتایا کہ جواباً انھوں نے اوپنہائمر سے کہا تھا کہ ’میرے ہاتھ خون سے رنگے ہیں، مجھے اس کی فکر کرنے دیں۔‘

یہ تبادلہ خیال ویسا ہی ہے جیسا بھگوت گیتا میں ہوتا ہے جب شہزادہ ارجن لڑنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی موت کے ذمہ دار ہیں لیکن کرشنا اس کا الزام اپنے سر لیتا ہے۔

بم کی تیاری کے دوران اوپنہائمر اپنے ساتھیوں کو یہی جواز پیش کرتے تھے جب اخلاقی تقاضوں پر ان کی بحث ہوتی تھی۔ وہ انھیں کہتے تھے کہ بطور سائنسدان ہم ان فیصلوں کے ذمہ دار نہیں کہ ہتھیار کیسے استعمال کیا جائے گا، ہم تو صرف اپنا کام کر رہے ہیں۔ یعنی ہمارے نہیں بلکہ سیاستدانوں کے ہاتھ خون سے رنگیں گے۔

تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جب یہ کام ہوگیا تو اوپنہائمر کا اپنے مؤقف پر اعتماد لڑکھڑا گیا۔ برڈ اور شروین کے مطابق جنگ کے بعد اٹامک انرجی کمیشن میں تعیناتی کے دوران وہ مزید ہتھیار بنانے کی مخالفت کرتے تھے، خاص کر ہائیڈروجن بم جسے انھیں کی خدمات کی بدولت اب بنانا ممکن تھا۔

1954 میں امریکی حکومت نے اوپنہائمر کے خلاف تحقیقات شروع کیں اور ان کا سکیورٹی کلیئرنس ختم کر دیا جس کے بعد وہ پالیسی کے فیصلوں میں ملوث نہیں ہوسکتے تھے۔ ادبی برادری نے ان کا دفاع کیا۔

1955 میں فلسفی برٹرنڈ رسل نے لکھا کہ ’تحقیقات سے واضح کیا کہ غلطی ہوئی ہے اور سکیورٹی کے نقطہ نظر سے یہ ایک بڑی غلطی ہے۔ مگر یہاں وفاداری توڑنے کے شواہد نہیں اور اسے غداری نہیں کہا جاسکتا۔۔۔ سائنسدانوں کو افسوسناک المیے کا سامنا تھا۔‘

1963 میں امریکی حکومت نے انھیں انریکو فرمی ایوارڈ سے نواز کر سیاسی طور پر بحال کر دیا۔ سنہ 2022 میں ان کی موت کے 55 سال بعد امریکی حکومت نے ان کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کرنے کے فیصلے کو واپس لیا اور اس سے واضح ہوا کہ اوپنہائمر ہمیشہ اس کے وفادار رہے تھے۔

اوپنہائمر کو اپنی زندگی کی آخری دہائیوں کے دوران ایٹم بم بنانے کی تکنیکی کامیابی پر فخر تھا مگر اس کے اثرات پر دکھ بھی۔ انھیں بارہا کہا کہ بم کا بننا ناگزیر تھا۔

زندگی کے آخری 20 سال وہ پرنسٹن یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس سٹڈیز کے ڈائریکٹر رہے اور اس دوران وہ آئنسٹائن اور دیگر سائنسدانوں کے ساتھ کام کرتے تھے۔

برڈ اور شروین کے مطابق لاس ایلموس پر بھی وہ اس بات کی وکالت کرتے تھے کہ سائنس کو انسانی فکر کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اثرات کو بہتر انداز میں سمجھا جائے۔ اسی لیے انھوں نے غیر سائنسی عملہ جیسے فلسفی، ماہر نفسیات اور شاعر بھرتے کیے تھے۔

بعد میں انھیں اٹامک انرجی یا جوہری توانائی میں یہ مسئلہ نظر آیا کہ یہ اپنے وقت کے اقدار کو پس پشت میں ڈال دیتی ہے۔ صدر ٹرومین کے لفظوں میں ’یہ نئی قوت اتنی انقلابی ہے کہ یہ پرانے خیالات کو مدنظر نہیں رکھتی۔‘

1965 میں انھوں نے ایک تقریر میں کہا کہ ’میں اپنے وقتوں کے عظیم لوگوں سے سنا ہے کہ جب انھیں کوئی حیران کن چیز ملتی تھی تو انھوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ اچھی ہے کیونکہ وہ اس سے ڈرتے بھی تھے۔‘

رسل نے اوپنہائمر کے بارے میں لکھا ہے کہ ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ چیزوں کو سادہ انداز میں دیکھ سکیں۔ ’یہ پیچیدہ اور نازک ذہن میں یہ صلاحیت نہ ہونا حیران کن نہیں۔‘

جب ہم اوپنہائمر کی شخصیت میں تضادات کی بات کرتے ہیں تو شاید یہی چیز تھی جس نے انھیں بم بنانے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کی۔ تحقیق میں مہارت کے علاوہ اوپنہائمر میں بم بنانے کی پُرزور خواہش تھی اور صرف وہی یہ تصور کرسکتے تھے کہ وہ اسے ممکن بنانے والے سائنسدان ہوں گے۔

وہ کم عمری سے سگریٹ نوشی میں مبتلا رہے اور اس کی وجہ سے کئی بیماریوں کا شکار ہوئے۔ 1967 میں ان کی موت 62 سال کی عمر میں گلے کے کینسر سے ہوئی۔

موت سے دو سال قبل انھوں نے سائنس اور شاعری میں یہ فرق بیان کیا: ’سائنس وہ شعبہ ہے جس میں غلطی کر کے سیکھا جاتا ہے کہ دوبارہ ایسا نہیں کرنا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More