الزامات کی زد میں آنے والے بی بی سی میزبان ہوو ایڈورڈز ہسپتال میں زیر علاج

بی بی سی اردو  |  Jul 13, 2023

PA Media

ہوو ایڈورڈز کی اہلیہ نے ان کی شناخت بی بی سی کے اس میزبان کے طور پر کی ہے جن پر ایک نوجوان سے پیسوں کے بدلے عریاں تصویریں مانگنے کے الزامات ہیں۔

ان کی اہلیہ نے بتایا ہے کہ ہوو ایڈورڈز ذہنی صحت سے جڑے مسائل سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں۔

وکی فلنڈ، جو ہوو ایڈورڈز کی اہلیہ ہیں، نے کہا کہ کئی دنوں کی افواہوں کے بعد وہ اپنے شوہر کی ذہنی صحت پر تشویش اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے ان کی طرف سے بیان جاری کر رہی ہیں۔

برطانوی اخبار ’دا سن‘ نے دعوی کیا تھا کہ ہوو ایڈورز نے ایک نوجوان فرد کو عریاں تصاویر کے لیے پیسوں کی ادائیگی کی تھی۔

دوسری جانب پولیس کے مطابق 61 سالہ ایڈورڈز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

ان کے خاندان نے کہا ہے کہ صحت بہتر ہونے کے بعد وہ خود ان الزامات کا جواب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بی بی سی میزبان کے بارے میں حالیہ خبروں کے بعد یہ ہمارے خاندان کے لیے مشکل پانچ دن تھے اور میں اپنے شوہر ہوو ایڈورڈز کی جانب سے یہ بیان دے رہی ہوں۔ یہ بیان دینے کی وجہ میرے شوہر کی ذہنی صحت سے جڑے خدشات اور ہمارے بچوں کی حفاظت ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ایڈورڈز ذہنی صحت کے سنجیدہ مسائل سے متاثر ہیں اور حالیہ برسوں میں شدید ڈپریشن کا علاج کرواتے رہے ہیں۔

’گزشتہ چند دنوں کے واقعات نے معاملے کو مزید بگاڑ دیا ہے، ان کی طبیعت خراب ہوئی اور اب انھیں ہسپتال میں علاج فراہم کیا جا رہا ہے جہاں وہ کچھ عرصہ تک رہیں گے۔‘

’کوئی جرم نہیں ہوا‘

پی اے نیوز کی جانب سے جاری بیان میں وکی فلنڈ نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ ’ایڈورڈز کی شناخت کے بعد ان الزامات کی وجہ سے دیگر بی بی سی میزبانوں کے بارے میں افواہوں کا سلسلہ تھم جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کے شوہر کو گزشتہ جمعرات بتایا گیا تھا کہ ان کے خلاف الزامات سامنے لائے جا رہے ہیں۔

اس بیان میں خاندان کی جانب سے پرائیویسی کا خیال رکھنے کی اپیل کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ایڈورڈز کے ذہنی صحت کے مسائل عوامی سطح پر پہلے بھی سامنے آ چکے ہیں۔

خاندان کی جانب سے بیان سامنے آنے سے چند منٹ قبل پولیس کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا جو ان الزامات کا جائزہ لے رہی تھی۔

پولیس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ میٹ پولیس کے خصوصی کرائم ڈویژن کے ڈیٹیکٹیو اس نیتجے پر پہنچے ہیں کہ ان کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں کہ کوئی جرم ہوا ہے۔

پولیس کے مطابق اس نتیجے پر پہنچنے کے عمل میں بی بی سی، الزامات عائد کرنے والے اور ان کے خاندان سمیت مختلف پارٹیوں سے بات کی گئی۔

PA Media

بیان میں کہا گیا کہ پولیس اسی فرد کے خلاف مزید الزامات سے آگاہ ہے لیکن اب تک نئے الزامات کے بارے میں کوئی معلومات یا تفصیلات نہیں ملی ہیں اور اسی لیے اس وقت پولیس کی کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ الزامات کی تفتیش جاری رہے گی۔ اس سے قبل پولیس کی درخواست پر بی بی سی کی تفتیش روک دی گئی تھی۔

بی بی سی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اب ہم اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور حقائق کے تجزیے کی مدد سے یہ خیال رکھتے ہوئے کام کیا جائے گا کہ ہم پر سب کا خیال رکھنے کی بھی ذمہ داری ہے۔‘

بی بی سی سٹاف کو ایک ای میل میں ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی نے کہا کہ ’یہ کافی پیچیدہ حالات ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ خاندان کی جانب سے بیان اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ’گزشتہ چند دن میں نجی زندگیوں کو عوامی سطح پر لایا گیا اور اس معاملے میں لوگ اور ان کے خاندان اہم ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’چند مشکل دنوں کے بعد واضح طور پر کافی لوگوں کے لیے یہ مشکل وقت ہو گا۔ میں آپ کو یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہماری اولین ترجیح تمام لوگوں کا خیال رکھنا ہے۔‘

ہوو ایڈورڈز کون ہیں؟

ہوو ایڈورڈز 1980 کی دہائی سے بی بی سی سے وابستہ رہے ہیں اور اس دوران انھوں نے ایک ٹرینی سے بی بی سی نیوز کے میزبان بننے کا سفر طے کیا۔

دس بجے کے شو کی میزبانی کے علاوہ وہ الیکشن سمیت ملکہ الزبتھ کی وفات جیسے واقعات کی کوریج کی سربراہی کر چکے ہیں۔

انھوں نے 1984 میں بی بی سی میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد وہ بی بی سی ویلز میں پولیٹیکل رپورٹر بن گئے۔ دو سال بعد انھیں بی بی سی ویلز کا پارلیمانی نامہ نگار بنا دیا گیا۔

1990 میں وہ ویسٹ منسٹر کے لیے بی بی سی کے چیف پولیٹیکل نامہ نگار تھے اور نیوز چینل پر باقاعدگی سے نظر آنے لگے۔

1997 میں بی بی سی نیوز ٹوئنٹی فور شروع ہوا تو وہ اس کا حصہ بن گئے۔

یہ چینل آغاز میں تکینیکی مشکلات کا شکار رہا لیکن ایڈورڈز کی پراعتماد پرفارمنس نے بی بی سی کی انتظامیہ کو متاثر کیا۔

ایڈورڈز بی بی سی ون کے چھ بجے کے شو میں بھی کبھی کبھار میزبان بن جاتے تھے اور 1999 میں پروگرام کے مرکزی اینکر بنے۔

BBC

چار سال بعد ان کی ترقی ہوئی اور وہ بی بی سی نیوز کے دس بجے کے شو کے میزبان بنے۔ ان کے طویل کیریئر کا سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب گزشتہ سال ستمبر میں انھوں نے ملکہ برطانیہ کی وفات کی خبر پڑھی۔

اس دن ملکہ کی صحت سے جڑی افواہوں کی وجہ سے انھوں نے جلد کام کا آغاز کیا اور دو بجے سے ہی خبریں پیش کرنا شروع کر دیں جس کے بعد ایک کالے رنگ کی ٹائی پہنے انھوں نے ملکہ کی وفات سے عوام کو آگاہ کیا۔

انھوں نے ملکہ کی آخری رسومات کی کوریج کی اور ان کو ٹی آر آئی سی ایوارڈ دیا گیا۔

2017 میں جب پارلیمنٹ نے بی بی سی کو اپنے اہم میزبانوں کی تنخواہ کے اعداد و شمار بتانے پر مجبور کیا تو علم ہوا کہ ایڈورڈز ساڑے پانچ لاکھ پاؤنڈ تنخواہ لے رہے تھے۔

منفی خبروں اور مرد اور خواتین میزبانوں کی تنخواہوں میں فرق کی وجہ سے ایڈورڈز کی تنخواہ میں کمی ہوئی اور موجودہ وقت میں ان کی تنخواہ چار لاکھ 35 ہزار پاؤنڈ تھی۔

ایڈورڈز 2012 کی جیمز بانڈ فلم ’سکائی فال‘ میں بھی نظر آئے جس میں انھوں نے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس پر ایک فرضی حملے کی بی بی سی نیوز رپورٹ پڑھی۔

2021 میں بی بی سی ریڈیو کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ’میں اب بھی اپنے کام سے لطف اندوز ہوتا ہوں لیکن میرے خیال میں اب میں زیادہ طویل عرصے تک یہ نہیں کر پاؤں گا۔‘

اسی سال ایک ڈاکومینٹری میں انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ 20 سال سے ڈپریشن سے متاثر ہیں۔

ہوو ایڈورڈز کے خلاف الزامات

ان کے خلاف سب سے پہلے جمعے کے دن الزامات سامنے آئے تھے کہ انھوں نے ایک نوجوان فرد کو عریاں تصاویر کے لیے اس وقت ادائیگی کی جب وہ 17 برس کے تھے۔

دا سن اخبار کی اس خبر کا ذریعہ نوجوان فرد کی والدہ اور سوتیلے والد تھے لیکن نوجوان فرد کے وکیل کی جانب سے جاری بیان میں ان کے مؤقف کو رد کیا گیا ہے۔

ساؤتھ ویلیز پولیس اس سے قبل کہہ چکی ہے کہ انھوں نے نوجوان فرد کے خاندان کو بتایا تھا کہ اس معاملے میں مجرمانہ کارروائی نہیں ہو سکتی۔ پولیس کے مطابق یہ بات دا سن اخبار میں خبر شائع ہونے سے پہلے کی ہے۔

BBC

بدھ کے دن جاری ہونے والے ایک بیان میں پولیس نے کہا تھا کہ انھوں نے اس معاملے پر مزید تفتیش کی ہے لیکن ان کو کسی مجرمانہ فعل کے شواہد نہیں ملے۔

منگل کے دن بی بی سی نے ایک ایسے فرد سے بات کی تھی جن کی عمر 20 سال تھی اور جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کو اس میزبان نے دھمکی آمیز پیغامات بھیجے تھے۔

دا سن اخبار نے اس کے بعد ایک اور خبر شائع کی جس میں دعوی کیا گیا کہ میزبان نے فروری 2021 میں کورونا لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک 23 سالہ فرد سے ملاقات کی جس سے ان کی ملاقات ایک ڈیٹنگ سائٹ پر ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ میزبان نے اس فرد کو کافی دباؤ والے پیغامات بھیجے تھے۔

اخبار نے میزبان اور ایک 17 سالہ فرد کے درمیان ہونے والی مبینہ انسٹا گرام چیٹ بھی شائع کی تھی جس میں میزبان نے محبت کی نشانی سمجھی جانے والی علامات یا ایموجیز بھیجی تھیں۔

بی بی سی ان دعووں کی تصدیق نہیں کر سکا۔

دا سن اخبار کے ترجمان نے کہا ہے کہ اب اخبار ہوو ایڈورڈز کے خلاف الزامات پر کوئی نئی خبر شائع کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور بی بی سی کی اندرونی تفتیش کے ساتھ تعاون کرے گا۔

ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دا سن بی بی سی سے تعاون کرے گا اور ہم بی بی سی کی ٹیم کو ایک خفیہ ڈوزیئر فراہم کریں گے جس میں سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں جو ہمیں موصول ہوئے ہیں اور ان کو بھجوانے والوں میں بی بی سی ملازمین بھی شامل ہیں۔‘

دا سن اخبار کے بیان میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی خبر میں ایڈورڈز پر جرم سرزد کرنے کا الزام نہیں لگایا تھا۔

اخبار نے خبر میں کہا تھا کہ ایڈورڈز نے نوجوان کو تصاویر کے لیے اس وقت ادائیگی کی تھی جب وہ 17 برس کے تھے لیکن یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ ایسا فعل جرم ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ 18 برس سے کم عمر، جنسی تصاویر کے قانون میں بچے تصور ہوتے ہیں جبکہ سیکس کے لیے رضامندی کی طے شدہ عمر 16 برس ہے۔

اپنی اس خبر میں تبدیلی کرتے ہوئے اخبار نے بعد میں الفاظ تبدیل کیے تھے اور کہا تھا کہ ’یہ سمجھا جاتا ہے کہ دونوں کے درمیان رابطہ اس وقت شروع ہوا جب نوجوان کی عمر 17 برس تھی۔‘

ان الزامات کے سامنے آنے اور ان پر بحث کے باوجود بی بی سی سمیت دیگر اداروں نے آغاز میں فیصلہ کیا کہ وہ میزبان کا نام پرائیویسی خدشات کی وجہ سے ظاہر نہیں کریں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More