بی بی سی میزبان پر ایک اور نوجوان کو دھمکی آمیز میسیجز بھیجنے کا الزام

بی بی سی اردو  |  Jul 12, 2023

EPA

بی بی سی کے ایک میزبان پر ایک نوجوان سے پیسوں کے بدلے عریاں تصویریں مانگنے کے الزامات سامنے آنے کے بعد اب ایک اور نوجوان نے یہ الزام لگایا ہے کہ اسی میزبان نے انھیں دھمکی دی تھی۔

اس دوسرے نوجوان کی عمر 20 سال سے زیادہ ہے اور بی بی سی کے میزبان نے بغیر اپنی شناخت ظاہر کیے ان سے ایک ڈیٹنگ ایپ پر رابطہ کیا۔

نوجوان کا کہنا ہے کہ بی بی سی میزبان نے ان پر ملاقات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ ان سے ملے نہیں۔ جب نوجوان نے ان کی شناخت آن لائن شیئر کرنے کا کہا تو میزبان نے ایک پیغام میں انھیں گالیاں لکھ کر بھیجیں۔

بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے نوجوان نے بتایا کہ وہ میزبان اور ان کے اثرورسوخ سے خوفزدہ تھے اورپیغامات پر دی گئی دھمکیوں کی وجہ سے وہ ڈر گئے اور خوف میں مبتلا رہے۔

بی بی سی نے یہ پیغامات دیکھے ہیں اور اس کی تصدیق کی ہے۔

واضح رہے کہ اس نوجوان کا ’دا سن‘ کی خبر میں بتائے گئے نوجوان سے کوئی تعلق نہیں۔

بی بی سی کے اس ہائی پروفائل مرد میزبان کی طرف سے دھمکی آمیز رویے کے الزامات نے ان کے طرز عمل پر نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔

بیبی سی نے میزبان سے براہ راست اور ان کے وکیل کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن نئے الزامات کے متعلق ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس دوسرے نوجوان نے بی بی سی نیوز سے بات کی ہے لیکن اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے بی بی سی کے کارپوریٹ انویسٹیگیشن یونٹ سے رابطہ نہیں کیا۔

عریاں تصویریں مانگنے کا الزامReuters

گزشتہ دن بی بی سی کے ایک میزبان کے مبینہ طور پر ایک کم عمر نوجوان کوعریاں تصاویر کے بدلے پیسے دینے کے معاملےمیں ایک نیا موڑ آیا تھا جب نوجوان کے وکیل نے اپنے مؤکل کے والدین کے دعوؤں کو ’بکواس‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’کوئی غیرمناسب اور غیر قانونی عمل نہیں ہوا۔‘

واضح رہے کہ برطانوی اخبار ’دا سن‘ نے جمعے کو یہ خبر دی تھی کہ بی بی سی کے ایک میزبان نے مبینہ طور پر ایک کم عمر نوجوان کوعریاں تصاویر بنا کر دینے کے لیے پیسے دیے۔

اس کے بعد بی بی سی نے اتوار کو کہا تھا کہ ان کے ایک سٹاف ممبر کو معطل کر دیا گیا ہے لیکن ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تھی۔

بی بی سی نے کہا کہ وہ ’حقائق کا تعین کر کے مناسب اقدامات سے متعلق معلومات‘ دینے کے لیے جتنا جلدی کام کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔‘

نوجوان کے وکیل نے کہا تھا کہ ان کے مؤکل نے جمعے کو ’دا سن‘ کی خبر کی اشاعت سے پہلے اپنی والدہ کے لگائے ہوئے الزامات سے انکار کیا تھا۔

’دا سن‘ اخبار کے مطابق انھوں نے اس معاملے میں ثبوت دیکھے تھے اور وہ نوجوان کی والدہ کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور والدین کی شکایت پر ’بی بی سی نے کوئی اقدام نہیں کیا۔‘

اس نوجوان کے وکیل کی طرف سے پیر کو بی بی سی کو بھیجے گئے خط میں بتایا گیا کہ نوجوان نے جمعے کی شب ’دا سن‘ اخبار کو ایک واٹس ایپ مییسج میں ان دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’بالکل غلط ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں۔‘

وکیل کے مطابق اس کے باوجود ’دا سن‘ نے ’اپنا نامناسب آرٹیکل‘ شائع کر دیا۔

انھوں نے مزید لکھا تھا کہ ’کسی بھی شک سے بچنے کے لیے، ہمارے مؤکل اور بی بی سی کے میزبان کے درمیان کچھ نامناسب اور غیر قانونی عمل نہیں ہوا اور دا سن اخبار میں لگائے گئے الزامات بکواس ہیں۔‘

نوجوان فرد کے وکیل نے یہ بھی کہا تھا کہ میڈیا کی رپورٹنگ ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے ’دا سن‘ اور بی بی سی دونوں پر تنقید کی کہ انھوں نے ان کے مؤکل سے مؤقف نہیں لیا۔

وکیل نے اپنے خط میں کہا تھا کہ ’جمعہ چھ جولائی سے پہلے دا سن اخبار میں سے کسی نے بھی خبر کی اشاعت سے پہلے میرے مؤکل سے بات کرنے کی کسی قسم کی کوشش نہیں کی۔‘

وکیل نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے مؤکل اور ان کی والدہ کے تعلقات اچھے نہیں۔

اس خط کے جواب میں ’دا سن‘ نے اپنا مؤقف دیا تھا کہ ’ہم نے دو فکرمند والدین پر خبر شائع کی جنھوں نے بی بی سی سے ان کی اولاد کی حالت اور ان کے میزبان کے رویے کے متعلق شکایت کی۔‘

BBC

’دا سن‘ نے مزید کہا تھا کہ ’ان کی شکایت پر کچھ نہیں کیا گیا، ہم نے ثبوت دیکھے ہیں اور وہ ان (والدین) کے تحفظات کی تائید کرتے ہیں۔ اب یہ بی بی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی جامع تحقیقات کروائیں۔‘

دا سن نے پیر کی شام کو وکیل کا خط سامنے آنے کے بعد ایک نئی خبر شائع کی جس میں نوجوان کی والدہ اور سوتیلے والد نے اخبار کو انٹرویو دیا اور کہا وہ اپنی طرف سے لگائے گئے الزامات پر ’قائم‘ ہیں۔

سوتیلے والد نے اخبار کو کہا کہ انھوں نے ’ایک گھنٹے تک‘ بی بی سی کے سامنے اپنے الزامات پیش کیے۔ والدین کا یہ بیان اخبار میں پہلے چھپنے والی خبر کی نفی کرتا ہے جس میں لکھا گیا کہ ’خاندان کا کہنا ہے کہ کارپوریشن سے کسی نے ان کے ابتدائی بیان کے بعد ان سے انٹرویو نہیں لیا۔‘

’دا سن‘ کے آرٹیکل میں یہ بھی رپورٹ کیا گیا تھا کہ نوجوان کا سوتیلا باپ پولیس کے پاس شکایت لے کر گیا لیکن انھیں یہ کہا گیا کہ ’وہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ غیر قانونی نہیں۔‘

بی بی سی نیوز کے پاس اس نوجوان کی شناخت نہیں اور ان سے براہ راست بات بھی نہیں کی گئی۔

دوسری جانب پولیس نے بتایا تھا کہ وہ بی بی سی کے میزبان کے خلاف لگائے گئے الزامات سے متعلق ’معلومات کا جائزہ‘ لے رہے ہیں لیکن انھوں نے ایک دن قبل کہا تھا کہ ’اس وقت کوئی تحقیقات نہیں ہو رہیں۔‘

پولیس کے ترجمان نے بتایا تھا کہ پیر کے دن انھوں نے بی بی سی کے نمائندوں کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کی۔

پولیس اب مزید پوچھ گچھ کر رہی ہے ’تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ کیا کسی جرم کے سرزد ہونے کے شواہد موجود ہیں کہ نہیں۔‘

Getty Images

جمعے کو چھپنے والی اپنی خبر میں ’دا سن‘ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بی بی سی کے میزبان نے 17 سالہ نوجوان کو تصویروں کے لیے ہزاروں پاؤنڈز دیے۔

بی بی سی نے کہا کہ انھیں اس معاملے کی پہلی شکایت مئی میں ملی اور ’نئے الزامات‘ انھیں جمعرات کو ’دا سن‘ میں چھپنے والی خبر سے ایک دن پہلے ملے۔

اتوار کو ’دا سن‘ نے رپورٹ کیا کہ والدین بی بی سی کی طرف سے دیے گئے نئے بیان سے افسردہ ہیں اور انھوں نے الزام لگایا کہ ’ابتدائی شکایت کے بعد بی بی سی سے کسی نے بھی ان سے انٹرویو نہیں لیا۔‘

اخبار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پہلی خبر چھپنے کے بعد بی بی سی کے میزبان نے نوجوان فرد کو دو ’گھبرائی ہوئی کالز‘ کیں۔ نوجوان فرد کی اب عمر 20 سال ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More