Getty Imagesقرآن نذر آتش کرنے کے واقعے میں ایک عراقی نژاد سویڈش شخص ملوث ہے
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک شخص کی جانب سے قرآن کے نسخے کو نذر آتش کرنے کے واقعے کی پاکستان اور ترکی سمیت متعدد مسلم ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔
بدھ کو سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر ایک شخص کی جانب سے قران کے نسخے کو نذر آتش کیا گیا۔ قرآن جلانے کے واقعے میں ایک عراقی نژاد شحص ملوث ہے جس نے اس مظاہرے کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لی تھی۔
اس واقعے پر جہاں مراکش اور اردن نے احتجاجاً سٹاک ہوم سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں وہیں جمعرات کے روزعراق کے دارالحکومت بغداد میں واقع سویڈن کے سفارتخانے کے کمپاونڈ میں مشتعل مظاہرین بھی داخل ہوئے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں درجنوں مظاہرین کو بغداد میں موجود سویڈن کے سفارت خانے کے کمپاونڈ میں گھومتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جائے وقوعہ پر موجود خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے بتایا کہ ’ہجوم کچھ دیر کے لیے سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہوا۔‘ تاہم مقامی سکیورٹی فورسز کی تعیناتی پر مشتعل ہجوم وہاں سے منتشر ہو گیا۔
جبکہ سویڈش حکام کی جانب سے اس نوعیت کے احتجاج کی اجازت دیے جانے پر ترکی نے سویڈن کی فوجی اتحاد نیٹو میں شمولیت کی دوبارہ مخالفت کی ہے۔ نیٹو رکنیت کے حصول کے لیے سویڈن کو ترکی کی حمایت درکار ہے۔
رواں سال جنوری کے دوران بھی سویڈن میں قرآن نذر آتش کیے جانے پر مسلم ممالک نے شدید ردعمل دیا تھا۔
https://twitter.com/sebusher/status/1674412887044145157
سٹاک ہوم میں عید کے روز اسلام مخالف مظاہرہ
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کے تقریباً 200 عینی شاہدین کے مطابق مسجد کے باہر موجود دو مظاہرین میں سے ایک نے قرآن کے نسخے کو پھاڑ دیا اور مقدس اوراق کی بے حرمتی کرنے کے بعد انھیں نذر آتش کیا۔
جبکہ اس دوران دوسرا شخص میگا فون پر مظاہرہ کرنے والے کی بات کا ترجمہ دہراتا رہا۔
وہاں موجود بعض افراد نے اوراق جلائے جانے پر احتجاج کرنے کے لیے ’گاڈ از گریڈ‘ (خدا عظیم ہے) کے نعرے لگائے جبکہ پتھراؤ کی کوشش کرنے والے ایک شخص کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔
بدھ کے روز مظاہرے سے قبل واقعے میں ملوث شخص سلوان مومیکا نے امریکی نیوز چینل سی این این کو بتایا تھا کہ وہ پانچ سال قبل عراق سے سویڈن آئے اور ان کے پاس سویڈن کی شہریت ہے۔
انھوں نے سی این این کو بتایا کہ وہ ایک ایتھسٹ ہیں، یعنی کسی مذہب کو نہیں مانتے۔
Reuters
سلوان مومیکا نے سی این این کو مزید بتایا کہ وہ یہ مظاہرہ عدالت میں تین ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ قرآن پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔
واضح رہے کہ سویڈن کی پولیس نے مسلم مخالف مظاہروں کے انعقاد کی کئی درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
تاہم ایک مقامی عدالت نے پولیس کے ان فیصلوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ آزادی اظہار کی خلاف ورزی کر رہےہیں۔
مسجد کے ڈائریکٹر اور امام محمود خلفی نے کہا کہ عید الاضحی کے تہوار کی تعطیل کے موقع پر احتجاج کی اجازت دینے کے فیصلے سے مسجد کے نمائندوں کو مایوسی ہوئی ہے۔
امام خلفی نے ایک بیان میں کہا کہ ’مسجد انتظامیہ نے پولیس سے درخواست کی کہ وہکم از کم مظاہرے کو کسی دوسری جگہ کی طرف منتقل کر دیں جو قانون کے مطابق ممکن ہے۔ تاہم انھوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا۔‘
خلفی کے مطابق ہر سال دس ہزار کے قریب لوگ سٹاک ہوم کی مسجد میں عید کی تقریبات کے لیے آتے ہیں۔
Getty Images
سی این این کے مطابق مظاہرے سے متعلق پولیس کے اجازت نامے میں کہا گیا ہے کہ ’قرآن نذر آتش کرنے سے ممکنہ سکیورٹی خطرات اور نتائج اس نوعیت کے نہیں ہیں کہ موجودہ قانون کے مطابق وہ مظاہرے کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کی بنیاد بن سکیں۔‘
مظاہرے کے اجازت نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’قرآن کو جلانے کا مطلب ہے دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بڑھنا اور اس سے خارجہ پالیسی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔‘
حکام کی جانب سے کچھ شرائط پر اس اجتماع کی اجازت دی گئی تھی جس میں 12 جون سے مظاہروں کے دوران آگ لگانے پر پابندی بھی شامل تھی جس کا اطلاق تا حکم ثانی لاگو تھا۔
پاکستان، ترکی سمیت مسلم ممالک کی مذمت
سویڈن میں مسجد کے باہر قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے کی پاکستان، سعودی عرب، ترکی، ایران،عراقاور مصرسمیت کئی مسلم ممالک نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ’آزادی اظہار اور احتجاج کے بہانے تشدد پر اکسانے کے عمل کو کسی طور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
بیان کے مطابق ’عالمی قوانین کے مطابق مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے لیے پرتشدد اقدامات کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘
دفتر خارجہ کے مطابق ’مغرب میں اسلامو فوبیا کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا قانونی فریم ورک پر سنگین سوال اٹھاتا ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ’اس واقعے پر پاکستان کے تحفظات سویڈن تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ عالمی برادری اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف جذبات کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے۔‘
دوسری جانب مراکش اور اردن نے سویڈن سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔
EPA
مراکش کے دفتر خارجہ نے واقعے کو جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب مسلمان اپنا ایک مقدس تہوار منا رہے تھے۔
ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے ایک ٹویٹ میں قران کی بے حرمتی کے اس فعل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر اسلام مخالف مظاہروں کی اجازت دینا ناقابل قبول ہے۔
سعودی عرب نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ایسے اقدام نفرت اور نسل پرستی کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتے ہیں۔‘
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے اپنی بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ مقدس اوراق کو جلانا ’بے ادبی اور تکلیف دہ‘ ہے جو قانونی طور پر تو جائز ہو سکتا ہے تاہم اخلاقی طور پر نامناسب ہے۔
تاہم انھوں نے ترکی اور ہنگری پر زور دیا کہ وہ سویڈن کے نیٹو میں شمولیت کی درخواست کی توثیق کریں۔ ’ہمیں یقین ہے کہ سویڈن نے سہ فریقی یادداشت کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے۔‘
سویڈن نے گذشتہ سال یوکرین پر روس کے حملے کے تناظر میں نیٹو کی رکنیت کی درخواست دی تھی تاہم نیٹو ممالک کے اتحاد میں شامل ترکی نے اس عمل پر اعتراض عائد کیا تھا اور سویڈن پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان لوگوں کو پناہ دے رہا ہے جنھیں ترکی دہشت گرد سمجھتا ہے اور ان کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔
سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اس بارے میں قیاس آرائی نہیں کریں گے کہ یہ احتجاج سویڈن کے نیٹو کے عمل کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ عملقانونی ہے لیکن اخلاقی طور پر مناسب نہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ قرآن جلانے کے واقعے کے بارے میں فیصلہ کرنا پولیس پر منحصر ہے۔‘