ٹائٹینک جہاز کے ملبے تک لے جانے والی لاپتہ آبدوز میں سوار پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد کون ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jun 20, 2023

BBC

بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں اتوار کو لاپتہ ہونے والی اس تفریحی آبدوز کی تلاش کا کام جاری ہے جس میں سوار پانچ مسافر ٹائٹینک جہاز کا ملبہ دیکھنے جا رہے تھے۔ ان پانچ مسافروں میں سے دو پاکستانی بھی شامل ہیں۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق اتوار کے دن اس چھوٹی سی آبدوز کے سفر کے آغاز کے ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد ہی رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ واضح رہے کہ اس آٹھ دن کے سفر کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر کا ٹکٹ خریدا جاتا ہے اور سمندری کی تہہ میں 3800 میٹر تک اتر کر ٹائٹینک جہاز کے ملبے کا نظارہ کیا جاتا ہے۔

اس تفریحی سفر کی منتظم کمپنی اوشیئن گیٹ کا کہنا ہے کہ آبدوز میں سوار افراد کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جس میں حکام کے مطابق امریکی اور کینیڈین نیوی سمیت نجی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

پاکستانی سیاح شہزادہ داؤد کون ہیں؟

اس آبدوز میں سوار پاکستانی شہریوں میں ملک کے ایک بڑے کاروباری خاندان کے رکن شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے امیر ترین افراد میں شامل اور برطانیہ میں ’پرنس ٹرسٹ چیریٹی‘ کے بورڈ ممبر شہزادہ داؤد اور اُن کے بیٹے سلیمان بھی اُس لاپتہ آبدوز میں سوار ہیں جو ٹائٹینک جہاز کا ملبہ دیکھنے جا رہی تھی۔

داؤد فیملی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے بیٹے شہزادہ داؤد اور اُن کے بیٹے سلیمان نے بحر اوقیانوس میں ٹائیٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا۔ فی الحال، اُن کی سب میرین کرافٹ (چھوٹی آبدوز) سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور اس کے بارے میں دستیاب معلومات محدود ہیں۔ متعدد سرکاری ایجنسیوں اور گہرے سمندر میں کام کرنے والی کمپنیوں کی قیادت میں ایک مشترکہ کوشش کی جا رہی ہے تاکہ آبدوز سے رابطہ بحال کیا جا سکے اور انھیں بحفاظت واپس لایا جا سکے۔‘

داؤد فیملی نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے ساتھیوں اور دوستوں کی طرف سے موصول ہونے والے پیغامات پر بہت مشکور ہیں اور ہر ایک سے درخواست کرنا چاہیں گے کہ اس وقت خاندان کی رازداری کا خیال کرتے ہوئے اُن کی حفاظت کے لیے دعا کریں۔‘

داؤد خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے لیکن ان کے برطانیہ کے ساتھ بھی گہرے روابط ہیں۔

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین ہیں۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے

شہزادہ داؤد پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں برطانیہ منقتل ہو گئے جہاں انھوں نے یونیورسٹی آف بکنگھم سے شعبہ وکالت میں تعلیم حاصل کی جبکہ انھوں نے گلوبل ٹیکسٹائیل مارکیٹنگ میں فلاڈیلفیا یونیورسٹی سے ایم ایس سی بھی کر رکھی ہے ۔

شہزادہ داؤد خلا میں ریسرچ کرنے والے ایک کمپنی ’ایس ای ٹی آئی‘ انسٹیٹیوٹ کے ٹرسٹی بھی ہیں اور اس ادارے کی ویب سائیٹ پر ان سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

ان تفصیلات کے مطابق شہزادہ داؤد اپنی اہلیہ کرسٹین اور اپنے بچوں سلیمان اور علینا کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انھیں فوٹو گرافی کا شوق ہے اور وہ جانوروں سے محبت کرنے والے شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

شہزادہ داؤد ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ کے وائس چیئرمین ہیں۔’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ داؤد گروپ کا حصہ ہے اور یہ خاندان گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے کاروبار کی دنیا میں مصروف عمل ہے۔ شہزادہ داؤد سنہ 1996 میں خاندانی کاروبار میں شامل ہوئے جہاں ان کی مہارت کارپوریٹ گورننس اور پاکستان میں صنعتی شعبے کی تجدید میں ہے۔

داؤد ہرکولیس کارپوریشن صنعتوں کے ایک متنوع سلسلے کا انتظام و انصرم سنبھالتی ہے جہاں شہزادہ داؤدتوانائی، زرعی و غذائی اشیا، خوراک، پیٹرو کیمیکلز اور ٹیکسٹائل جیسے شعبوں کے انضمام اور ترقی و اختراع کے مواقع تلاش کرنے میں اہم کردار ادا کرتےہیں۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن لمیٹڈ اور داؤد لارنس پور لمیٹڈ کے بورڈز میں بطور شیئر ہولڈر ڈائریکٹر شامل ہیں۔ شہزادہ داؤد گروپ کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے ذمہ دار بھی ہیں بشمول ان کمپنیوں کے جو صاف توانائی کے مستقبل کے لیے پرعزم ہیں۔

داؤد فاؤنڈیشن کے زیرانتظام چلنے والے فلاحی کاموں میں بھی ان کی شمولیت رہتی ہے اور وہ داؤد پبلک سکول، داؤد کالج آف انجینئرنگ اور کراچی سکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ کے بورڈز کے ٹرسٹی کے طور کام کرتے ہیں۔ وہ اینگرو فاؤنڈیشن کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔ شہزادہ داؤد جامع کاروباری ماڈلز پر یقین رکھتے ہیں جو کم آمدنی والی کمیونٹیز اور داؤد گروپ کے کاروباری مفادات کے ساتھ مل کر چلتی ہیں۔ وہ برٹش ایشیئن ٹرسٹ کے بانی سرکل میں بھی ہیں۔

سرچ آپریشن کہاں تک پہنچا؟

یاد رہے کہ آبدوز میں موجود تیسرے مسافر 58 سالہ برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ بھی شامل ہیں جبکہ دیگر دو عملے کے افراد ہیں۔ اس آبدوز میں چار دن کی ایمرجنسی آکسیجن سپلائی موجود ہوتی ہے۔

سوموار کو امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’ہمارے اندازے کے مطابق (تلاش کے کام کے لیے) اس وقت 70 سے 96 گھنٹے دستیاب ہیں۔‘

تاہم انھوں نے بتایا کہ جس علاقے میں سرچ آپریشن کیا جا رہا ہے وہ کافی دور دراز ہے جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سرچ آپریشن میں ایک آبدوز، دو ہوائی جہاز حصہ لے رہے ہیں۔

اس سفر کے آغاز سے قبل برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ انھیں یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ٹائٹینک کے ملبے تک جانے والے مشن کا حصہ بن رہے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’نیو فاؤنڈ لینڈ میں 40 سال کے بدترین موسم سرما کی وجہ سے اس سال کا یہ پہلا اور آخری مشن ہو گا۔‘

دوسری جانب اوشیئن گیٹ کمپنی نے کہا ہے کہ ان کی پوری توجہ اس وقت آبدوز میں سوار افراد اور ان کے اہلخانہ پر ہے۔

ڈیوڈ پوگ نامی رپورٹر، جن کا تعلق سی بی ایس سے ہے، گذشتہ سال اسی آبدوز پر سفر کر چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ممکنہ طور پر اس آبدوز سے رابطہ کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں کیوں کہ پانی کے نیچے ریڈیو یا جی پی ایس کام نہیں کرتا۔‘

’جب کوئی جہاز اس آبدوز کے بلکل اوپر پہنچ جائے تو پھر پیغامات کا تبادلہ ہو سکتا ہے لیکن بظاہر ابھی تک ایسی کوششوں کا کوئی جواب نہیں مل رہا۔‘

انھوں نے بتایا کہ آبدوز سے نکلنے کا کوئی طریقہ نہیں کیوں کہ ’آبدوز میں موجود لوگوں کو صرف باہر سے ہی کوئی نکال سکتا ہے۔‘

ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کی مہم کیا ہے؟

اوشیئن گیٹ کمپنی کی اشتہاری مہم کے مطابق آٹھ دن کا یہ سفر عام زندگی سے نکل کر کچھ غیر معمولی دریافت کرنے کا موقع ہے۔

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 2024 میں بھی دو مہمات بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

اس چھوٹی سی آبدوز میں ایک پائلٹ کے علاوہ تین مہمان مسافر ہوتے ہیں جو ٹکٹ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کمپنی کے مطابق ایک ماہر بھی آبدوز میں سوار ہوتا ہے۔

اس مہم کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں سینٹ جونز سے ہوتا ہے۔

کمپنی کی وی سائٹ کے مطابق اس کے پاس تین آبدوزیں ہیں جن میں سے صرف ٹائٹن نامی آبدوز، جو لاپتہ ہے، اتنی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس آبدوز کا وزن 10432 کلو ہے اور ویب سائٹ کے مطابق یہ 13100 فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے۔ اس آبدوز میں 96 گھنٹے تک کے لیے لائف سپورٹ موجود ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ ٹائٹینک اپنے وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا جو 1912 میں نیو یارک جاتے ہوئے اپنے پہلے ہی سفر پر ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس جہاز پر سوار 2200 مسافروں اور عملے کے اراکین میں سے 1500 سے زیادہ ہلاک ہو گئے تھے۔

اس جہاز کا ملبہ 1985 میں پہلی بار دریافت ہوا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More