یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بعد انسانی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے نو افراد نے عدالت میں دعوی کیا ہے کہ وہ اس حادثے میں ملوث نہیں تھے۔
ان نو ملزمان پر، جن کی عمریں 20 سے 40 سال تک ہیں، انسانی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ دیگر الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
ایک ملزم کے وکیل نے عدالت میں دعوی کیا کہ ان کا موکل خود کشتی پر سوار مسافروں میں سے ایک تھا اور ’وہ سمگلر نہیں ہے۔‘
واضح رہے کہ اس حادثے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک کم از کم 500 متاثرین لاپتہ ہیں۔
سوموار کے دن نو ملزمان کو کالاماٹا کی ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان پر انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے، کشتی ڈبونے اور انسانی سمگلنگ کے الزامات عائد کیے گئے۔
ایک ملزم کے وکیل، الیگزانڈروس ڈیاماریسس، نے کہا کہ ان کا موکل بے گناہ ہے اور ’اس نے سمگلروں کو یورپ پہنچنے کے لیے پیسے دیے تھے۔‘
عدالت کے باہر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ سمگلر نہیں ہے۔ وہ تو صرف ایک مسافر تھا۔‘
ان ملزمان کو منگل کے دن پھر عدالت میں پیش کیا جائے گا جہاں یہ فیصلہ ہو گا کہ مقدمے کی سماعت کے آغاز تک ان کو جیل میں ہی رکھا جائے یا نہیں۔
’کشتی حادثے میں ملوث ایجنٹ گوجرانوالہ سے گرفتار‘Reuters
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کریک ڈاؤن اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
ادھر ایف آئی اے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک میں شامل ایجنٹوں نے ’نوجوانوں کو باہر بھجوانے کے عوض ان سے 24، 24 لاکھ وصول کیے گئے۔‘
اس کی جانب سے درج کیے گئے مقدمات میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں سمیت دیگر تارکین وطن لیبیا کے علاقے بن غازی سے 14 جون کو غیر قانونی طریقے سے سفری دستاویزات کے بغیر بذریعہ کشتی اٹلی کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ کشتی بحیرہ روم کے گہرے سمندری علاقے میں ڈوب گئی جبکہ یونانی کوسٹ گارڈز نے 12 پاکستانیوں سمیت دیگر 104 تارکین وطن کو بچا لیا۔
ایف آئی اے نے گجرات میں تین مقدمات میں 12 مبینہ انسانی سمگلروں جبکہ گوجرانوالہ میں ایک مقدمے میں پانچ مبینہ انسانی سمگلروں کو نامزد کیا ہے۔
گوجرانوالہ میں ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر قیصر بشیر مخدوم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشتی حادثے میں ملوث ایک ایجنٹ کو گرفتار کیا گیا ہے جس نے مبینہ طور پر ’فی کس 23 لاکھ روپے وصول کیے تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حادثے میں ملوث مزید ایجنٹوں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
اب تک پاکستان میں انسانی سمگلروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور کے کمشنر چوہدری شوکت علی نے نمائندہ بی بی سی عمردراز ننگیانہ کو بتایا ہے کہ ڈوبنے والی پناہ گزینوں کی کشتی میں میرپور ڈویژن کے 23 افراد سوار تھے، جن میں سے دو افراد زندہ بچ جانے والوں میں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کمشنر میرپور کے مطابق ’کشتی ڈوبنے کے سانحے میں زندہ بچ جانے والے میرپور ڈویژن کے ان دو متاثرین نے مزید ایسے 21 پاکستانی پناہ گزینوں کی تصدیق کی ہے جن کا تعلق میرپور ڈویژن سے تھا اور جو تاحال لاپتہ ہیں۔‘
کمشنر کے مطابق ’حکام نے شناخت کے عمل کے لیے کوٹلی کی تحصیل کھوئی رتہ میں لواحقین سے ڈی این اے کے نمونے لینے کا عمل شروع کر دیا ہے اور یہ نمونے یونان بھیجے جائیں گے تاکہ لاشوں کی شناخت کی جا سکے۔‘
گذشتہ روز میرپور کے کمشنر چوہدری شوکت کا کہنا تھا کہ ’انسانی سمگلنگ میں ملوث مرکزی ایجنٹ کی معاونت کرنے والے‘ نو مقامی افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ جبکہ ایف آئی اے نے مذکورہ ایجنٹ کو کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
میرپور میں تین سے چار ماہ کے دوران لیبیا اور اٹلی جانے والے 27 لاپتہ افراد کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں نوجوانوں کی اکثریت کی تعداد تحصیل کھوئیرٹہ سے ہے۔
صحافی محمد زبیر خان کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یونان کشتی حادثے کا پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں 26 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ دیگر نامعلوم ملزمان شامل ہیں۔
مقدمہ ضلع کوٹلی پولیس نے پولیس انسپکٹر کی مدعیت میں درج کیا ہے۔ درج مقدمہ کے مدعی کھوٹی رٹہ تھان کے ایس ایچ او سہیل یوسف ہیں۔
انھوں نے پولیس کو یہ بتایا کہ ’انھیں معتبر زرائع سے اطلاع ملی ہے کہ مقدمے میں نامزد ملزمان جس میں مقامی افراد کم از کم دس ہیں، نے انسانی سمگلنگ کا گروپ منظم کررکھا ہے جو مقامی سطح پر اپنے اپ کو ایجنٹ ظاہر کرکے عوام کو ورغلا کر اور بھلا پھسلا کر قانونی طریقے سے یورپ لے جانے کا جھانسہ دے کر بھاری رقم بٹورتے ہیں۔
بعد ازاں ان افراد کو بحیرہ روم کے سمندر کے راستے غیر محفوظ اور غیر قانونی طور پر ڈنکی لگا کر بھجتے ہیں اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ کچھ عرعہ قبل ان لوگوں نے تحصیل کھوئی رٹہ کے متعدد افراد کو بھی جھانسہ دے کر یورپ لے جانے کے بہانے خطیر رقم بٹوری گئی اور 14 جون کو ان افراد کو یونان کی سمندری حدود میں ایک کشتی میں سوار کرایا۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ کشتی میں 300 سے 350 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی مگر اس آٹھ سو افراد کو سوار کرایا گیا۔
مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ملزمان ’ہمارے تھانے کی حدود میں لوگوں کے ساتھ فراڈ کا سبب بننے کے علاوہ کئی اموات کا سبب بھی بنے ہیں۔‘
Getty Images’سمندر میں ڈوبنے سے قبل پناہ گزینوں کی کشتی 7 گھنٹوں تک ایک ہی جگہ کھڑی رہی‘
بی بی سی نے یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بارے میں چند اہم شواہد حاصل کیے ہیں جو یونانی کوسٹ گارڈ (ساحل پر تعینات محافظ) کی جانب سے دیے گئے بیانات پر شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔
بی بی سی کو اس علاقے میں موجود دیگر بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی سمندر میں ڈوبنے سے قبل کم از کم سات گھنٹے تک حرکت کرنے کے بجائے ایک ہی جگہ پر کھڑی رہی تھی۔
بی بی سی نے میری ٹائم اینالیٹکس کے پلیٹ فارم ’میرین ٹریفک‘ کی طرف سے ٹریکنگ ڈیٹا کی ایک کمپیوٹر اینیمیشن حاصل کی ہےجس کے اعداد و شمار کشتی ڈوبنے سے قبل سمندر کے اس مخصوص علاقے کی سرگرمیوں کی مکمل نشاندہی کرتے ہیں جہاں تارکین وطن کی کشتی ڈوبی تھی۔
اس ڈیٹا نے یونان کے سرکاری دعوؤں کو مشکوک کر دیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ کشتی کو نیویگیشن میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور یہ کہ انھوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔
تارکین وطن کو لے جانے والی ماہی گیری کی اس کشتی میں کوئی ٹریکر موجود نہیں تھا اس لیے وہ نقشے پر نہیں دکھائی دی۔
ان شواہد کے برعکس کوسٹ گارڈ اب بھی اپنے دعوے پر قائم ہیں کہ اس دورانیے میں کشتی اٹلی کے راستے پر گامزن رہی تھی اور اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔
بی بی سی کے ان شواہد سے متعلق یونانی حکام نے ابھی تک اپنا ردعمل نہیں دیا ہے۔
یاد رہے کہ یونانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کشتی میں سوار افراد نے کہا تھا کہ ان کو مدد کی ضرورت نہیں اور کشتی ڈوبنے سے پہلے تک بظاہر کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا جس کی بنیاد پر ان کی مدد کی جاتی۔