روس نے کم رینج پر مار کرنے والے جوہری ہتھیار بیلاروس بھیجنے کا اعلان کیوں کیا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 17, 2023

BBC

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنےٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی پہلی کھیپ بیلاروس میں پہنچانے کا اعلان کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ ٹیکٹیکل نیوکلیئرویپن دراصل ایسے چھوٹے جوہریہتھیار ہوتے ہیں جن کا مقصد میدان جنگ میں یا حملے کے لیے کسی محدود جگہ کو نشانہ بنانے اور کم رینج تک مار کرنا ہوتا ہے۔

روسی صدر نے ایک فورم پر اس حوالے سے مزید کہا کہ ان جوہری ہتھیاروں کو صرف اس صورت میں استعمال کیا جائے گا جب روس کو اپنی سرزمین یا ریاست کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہو گا۔

دوسری جانب امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ انھیں کریملن کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے صدر پوتن کے بیانات پر ردِعمل میں کہا ہے کہ ’ہمیں ایسے کوئی اشارے نہیں ملے جو روس کی جانب سے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی تیاری کو ظاہر کریں۔‘

واضح رہے کہ بیلا روس نے روس کا ایک اہم اتحادی ہونے کے باعثگزشتہ سال فروری میں صدر پوتن کی جانب سے یوکرین پر بھرپور حملے کے لیے مکمل معاونت فراہم کی تھی۔

صدر پوتن کے مطابق ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی منتقلیکا کام موسم گرما کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔

سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم میں اپنے خطاب کے بعد پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ ’ان کا یہاقدامکسی کو بھی روس پر سٹریٹجک شکست سے دوچار کرنے کی سوچ کو لگام دینے کے لیے ہے۔‘

جب فورم کے منتظمین سے ان ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پوری دنیا کو کیوں دھمکائیں گے؟ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ روسی ریاست کو خطرہ ہونے کی صورت میں انتہائی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔‘

صدر پوتن کے مطابق ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی منتقلی کا کام موسم گرما کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔

سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم میںاپنے خطاب کے بعد پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے صدر پوتن نے کہا ’ان کا یہ اقدام کسی کو بھی روس پر سٹریٹجک شکست سے دوچار کرنے کی سوچ کو لگام دینے کے لیے ہے۔‘

جب فورم کے منتظمین سے ان ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پوری دنیا کو کیوں دھمکائیں گے؟ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ روسی ریاست کو خطرہ ہونے کی صورت میں انتہائی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔‘

Reutersچھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ایک کلوٹن یا اس سےبھی کم ہو سکتے ہیں

ٹیکٹیکل نیوکلیئرویپن دراصل ایسے چھوٹے جوہریہتھیار ہوتے ہیں جن کا مقصد میدان جنگ میں یا حملے کے لیے کسی محدود جگہ کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ جوہری ہتھیار ایکمخصوص علاقے میں دشمن کے اہداف کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں اور ان کی تابکاری کے تباہ کن اثرات وسیع پیمانے پر نہیں پھیلتے۔

ان میں سب سے چھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ایک کلوٹن یا اس سے کم ہو سکتے ہیں جو ایک ہزار ٹن دھماکہ خیز مواد کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ سب سے بڑے ٹیکٹیکل جوہرری ہتھیار 100 کلوٹن تک بڑے ہو سکتے ہیں۔

اس کا موازنہ اگر 1945 میں امریکہ کی جانب سے ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے کیا جائے تو اس کا وزن 15 کلوٹن تھا۔

سینٹ پیٹرزبرگ میں روسی قیادت کی افریقی رہنماؤں کے ساتھقیام امن کے اقدام کے سلسلے میں ملاقات بھی متوقع ہے۔

اسی حوالے سے جمعے کے روز دونوں ممالک کے رہنما کیئو میں موجود تھے تاہم ان کی موجودگی کے دوران ہی یہ شہر روسی میزائل حملے کی زد میں آ گیا۔

جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے دونوں جانب سے کشیدگی میں کمی اور امن کے لیے مذاکرات پر زور دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم یہاں اس بات کو سننے اور جاننے کے لیے آئے ہیں کہ یوکرین کے عوام کس کرب سے گزرے ہیں۔‘تاہمیوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہاہے کہ روس کو سفارتی طور پر روکنے کے بجائے اسے عالمی برادریکی جانب سے اس حملے کی مذمتپہنچانے کی ضرورت ہے اور اس پیغام کے لیے ضروری ہے کہ روس کے ساتھسفارتی تعلقاتختم کئے جائیں۔

Reutersسینٹ پیٹرزبرگ میں روسی قیادت کیافریقی رہنماؤں کے ساتھقیام امن کے اقدام کے سلسلے میں ملاقات بھی متوقع ہےیوکرین کو دیا جانے والا کوئی بھی ایف 16 امریکی لڑاکا طیارہ جل کر تباہ ہو جائے گا: روس کا دعوی

صدر زیلینسکی نےواصخ کیا ہے کہ کیئو ماسکو کے ساتھجب تک مذاکراتکے عمل میں شامل نہیں ہو گا تب تک روس یوکرین کے علاقوں پر قابض رہے گا۔

دوسری جانب صدر پوتن نے اپنے اس دعوے کو بھی دہرایاہے کہ یوکرین کو اپنے جوابی حملوں میں کامیابیملنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یوکرینی فوج کے پاس اباپنے فوجی سازوسامان بھی ختم ہو رہا ہے اور وہ جلد ہی صرف مغربی ممالک کی جانب سے عطیہکیے گئے ہتھیار کا ہی استعمال کرسکیں گے۔

’آپ اس طرح زیادہ دیر تک نہیں لڑ سکتے۔ یوکرین کو دیا جانے والا کوئی بھی ایف 16 امریکی لڑاکا طیارہ جل کر تباہ ہو جائے گا اور اس میں کوئی شک نہیں۔‘

یوکرین نے پہلے بھی اسی طرح کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مشرقی اور جنوبی یوکرین دونوں علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں مسلسلپیش رفت کر رہے ہیں۔

جمعہ کو یوکرین کی نائب وزیر دفاع حنا مالیار نے کہا کہ ملک کے جنوب میںفوجی یونٹس تمام سمتوں میں دوکلومیٹر آگے بڑھے ہیں۔ تاہم بی بی سی آزادانہ طور پر میدان جنگ کے بارے میںان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکتا۔

روسی رہنما نے اقتصادی موضوعات پر بھی بات کی اور یہ دعویٰ کیا کہ روس پر لگائی جانے والی مغربی پابندیاں نہ صرفاسےتنہا کرنے کی کوشش میں ناکام رہیں بلکہ اس کے برعکس تمام ہتھکنڈے روس کو ’مستقبل کی منڈیوں‘کے ساتھ تجارت میں توسیع کا باعث بنے۔ انھوں نے ایشیا، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ نئے معاہدوں کی تعریف کیاور انھیںقابل اعتماد اور ذمہ دار شراکت دار قرار دیا۔

Getty Imagesماسکو نے بیلا روس کا انتخاب کیوں کیا ہے؟

بیلاروس ماسکو کا قریبی اتحادی ہے اور یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کرتا ہے۔ بیلاروس کی طویل سرحد یوکرین اور نیٹو کے رکن ممالک پولینڈ، لیتھوینیا اور لیٹویا سے ملتی ہے۔

یہ انیس سو نوے کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ ہے کہ روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ملک سے باہر نصب کر رہا ہے۔

سنہ 1991 سے پہلے یہ ایٹمی ہتھیار روس، یوکرین، بیلاروس اور قازستان میں تھے جو سب سویت یونین کا حصہ تھے۔ لیکن سنہ 1991 میں سویت یونین کے ختم ہونے کے بعد یہ آزاد ممالک بن گئے۔ جس کے بعد ان ممالک میں نصب ایٹمی ہتھیاروں کو روس منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو سنہ 1996 میں مکمل ہوا۔

صدر پوتن نے روس کے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیلاروس کے صدر ایلگزینڈر لوکاشینکو کا عرصے سے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کو بیلاروس میں نصب کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔

صدر پوتن نے کہا کہ ان کا فیصلہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔

’پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ یہ کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔ امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک میں اپنے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کافی عرصے سے نصب کیے ہوئے ہیں۔‘

نیٹو نے روس کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی منتقلی کی مذمت کی ہے اور اسے خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ نیٹو نے کہا ہے کہ وہ صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔

روس آئندہ ہفتے سے ایٹمی ہتھیاروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی تربیت کا آغاز کر رہا ہے۔ صدر پوتن نے بتایا کہ بیلاروس میں ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کو رکھنے کی جگہ کی تعمیر پہلی جولائی کو مکمل ہو جائے گی۔

ان ہتھیاروں کو جن میزائلوں کے ذریعے لانچ کیا جاتا ہے انھیں پہلے ہی بیلاروس منتقل کیا جا چکا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More