BBCدانیہ شاہ بھی اُنھی خواتین میں سے ایک ہیں، جن کو اپنے پہلے بچے کی بار دودھپلانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا
بے شمار مائیں ایسی ہیں جو چاہتی ہیں کہ وہ اپنے بچے کو اپنا دودھ پلائیں مگر وہ یہ شکایت کرتی ہیں کہ پیدائش کے فوراً بعد ہی اُن کا بچہ اُن کا دودھنہیں پیتا یا پھر اگر بچہ ان کا دودھ پی بھی رہا ہے تو چھاتی سے دودھکم آ رہا ہے۔
بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے صرف چار خواتین ہی بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔
سنہ 2018 میں عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 41 فیصد مائیں ہی پیدائش کے بعد چھ ماہ تک بچوں کو اپنا دودھپلاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انڈیا اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان میں ماں کے دودھ پلانے کی یہ شرح کافی کم ہے۔
ماں کا دودھکیسے زیادہ کیا جا سکتا ہے، اس بارے میں ہم آگے چل کر بات کرتے ہیں لیکن ابھی ہم بات کرتے ہیں اُن مسائل کے بارے میں جو ماؤں کو بچے کو اپنا دودھپلاتے وقت پیش آتے ہیں۔
’ساس نے میرے دوسرے بچے کی پیدائش پر فوراً اُس کے منہ میں فیڈر ڈال دیا‘
دانیہ شاہ بھی اُنھی خواتین میں سے ایک ہیں، جن کو اپنے پہلے بچے کی بار دودھپلانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا اور دوسرے بچے کی بار تو وہ اپنا دودھ آغاز سے پلا ہی نہیں سکیں مگر تیسرے بچے کی مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف تھی۔
جب دانیہ کو پتا چلا کہ وہ تیسرے بچے کی ماں بننے والی ہیں تو اُنھوں نے لیکٹیشن ماہر (جو نئی ماؤں کو نومولود کو چھاتی سے دودھ پلانے سے متعلق رہنمائی دیتے ہیں) کی مدد لینے کا سوچا۔
’جب میرا دوسرا بیٹا پیدا ہوا تو اُس نے پیدائش کے بعد سے ہی کبھی میرا دودھ نہیں پیا، جس کا مجھے انتہائی دکھ تھا۔ اس لیے میں نے تیسرے بچے کی بار یہ سوچلیا تھا کہ ماہرین سے مدد لوں گی۔‘
دانیہ نے سوشل میڈیا پر موجود پیجز دیکھنا شروعکر دیے جہاں اُن کو ایک ویب سائیٹ کا پتا چلا اور پھر نو ماہ تک دانیہ اس ویب سائٹ سے معلومات حاصل کرتی رہیں۔
پاکستان میں لیکٹیشن کے شعبے کو لے کر آگاہی کی کمی ہے۔ اس وجہ سے اکثر ماؤں کو علم نہیں کہ وہ اپنا دودھ کیسے بڑھائیں اور کس طریقے سے بچے کو دودھ پلائیں اور اسی وجہ سے اکثر بچے ماں کے دودھسے محروم رہ کر مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
Getty Images(فائل فوٹو)
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ماں کا دودھپینے والے بچوں کی نہ صرف قوتِ مدافعت زیادہ ہوتی ہے بلکہ پیدائش کے بعد پہلے چھماہ تک ماں کا دودھپینے والے بچے کے زندہ رہنے کے امکانات ماں کا دودھ نہ پینے والے بچے کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
دانیہ بھی سمجھتی ہیں کہ اُن کے دوسرے بچے کے مقابلے میں اُن کا تیسرا بچہ زیادہ ایکٹیو ہے مگر پھر بھی اُنھیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
’میرے پہلے بچے کی بار میرا دودھبہت کم آتا تھا، میں تنگ رہتی تھی۔ میرا بیٹا بھی ہر وقت روتا رہتا تھا۔ پورے دن میں سے آدھا دن میں اُس کو اپنی چھاتی سے لگائے رکھتی تھی کیونکہ اُس کا پیٹ ہی نہیں بھرتا تھا۔‘
دانیہ کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوسروں کے مشورے پر زیادہ عمل کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پیدائش کے فوراً بعد ہی بوتل کا دودھبچے کو دیا جاتا ہے اور پھر وہ ماں کا دودھ نہیں پیتا۔
دانیہ اپنے پہلے بچے کی بار اکیلی تھیں تو اُنھوں نے جیسے تیسے بچے کو اپنا دودھ ہی دیا۔ گوگل پر کئی آرٹیکلز سے وہ دودھ پلانے کے بارے میں پڑھتی تھیں مگر دوسرے بچے کی بار اُن کی ساس اُن کے ساتھ موجود تھیں۔
’میری ساس نے میرے دوسرے بچے کی پیدائش پر فوراً اُس کے منہ میں بوتل ڈال دی، جس کی وجہ سے وہ میرا دودھ نہیں پیتا تھا۔‘
پہلے اور دوسرے بچے کے مسائل نے دانیہ کو مجبور کر دیا کہ وہ تیسرے بچے کی بار کسی ماہر کی مدد حاصل کریں کیونکہ دانیہ نہ صرف اپنے بچے کو اپنا دودھ پلانا چاہتی تھیں بلکہ وہ اس بار اپنے دودھ کو زیادہ بھی کرنا چاہتی تھیں۔
پیدائش کے فوراً بعد ماں کی چھاتی میں سے ایک لیکوئڈ (مائع ) نکلتا ہے جس کو انگریزی میں ’کلاسڑم‘ بولتے ہیں۔ اس لیکوئڈ میں ایسی غذائیت پائی جاتی ہے جو بچے کو ساری عمر کسی بھی چیز میں نہیں مل سکتی۔
دانیہ نے بتایا کہ پہلے دو بچوں کی بار تو اُنھیں اس بارے میں معلوم ہی نہیں تھا اور وہ اس کو بڑے بزرگوں کے کہنے پر ضائع کر دیتی تھی مگر لیکٹیشن ماہر کی مدد لینے کے بعد اُن کو اس بارے میں علم ہوا۔
’میرے تیسرے بچے کی بار جب میں نے مدد حاصل کی تو میرے تیسرے بیٹے نے نہ صرف میرا دودھ پیا بلکہ وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں انتہائی چُست بھی ہے۔‘
Getty Images’سمجھا جاتا ہے کہ ماں کو قدرتی طور پر علم ہو گا کہ بچے کو دودھ کیسے پلایا جائے‘
ہم نے اس بارے میں مزید جاننے کے لیے لیکٹیشن ماہر میشا عثمان سے رابطہ کیا، جو سوشل میڈیا ہر ’ممز کلب ڈاٹ کام‘ کے نام سے اپنا پیج بھی چلاتی ہیں۔
میشا کا کہنا ہے کہ چھاتی کا دودھ پلانا ایک چیلنج ہے، جس کا شکار صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں خواتین ہوتی ہیں۔
’دنیا بھر میں عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ماں بننے والی خاتون کو قدرتی طور پر یہ علم ہو گا کہ بچے کو دودھ کیسے پلایا جاتا ہے مگر یہ درست نہیں۔ میشا بھی یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں خواتین کے پاس خود علم نہیں ہوتا۔‘
میشا نے بتایا کہ ان کے پاس ایسی کئی خواتین آتی ہیں، جو ان سے مختلف سوال کرتی ہیں مگر ایک سوال جو ہر عورت کرتی ہے وہ یہ کہ اُن کا بچہ اُن کا دودھ نہیں پیتا یا پھر بہت روتا ہے اور ایسے میں وہ فارمولا دودھ دینے کا سوچ رہی ہیں۔
’ایسی صورت میں ہم ماں کی چھاتی کا معائنہ کرتے ہیں۔ کہ کیا اُن کی چھاتی symetricalہے۔ اُن کے نیپلز انورٹیڈ تو نہیں۔ اس کے بعد ہم بچے کو دیکھتے ہیں کہ کیا اُس کی زبان تالو کے ساتھ لگ سکتی ہے، بچے کا جبڑا کیسے حرکت کر رہا ہے۔‘
میشا کا کہنا ہے کہ ا س کے بعد ہم پوزیشنز دیکھتے ہیں کہ ماں کیسے بچے کو دودھ پلا رہی ہے کیونکہ اگر ماں بچے کو ٹھیک طریقے سے دودھ نہیں پلاتی تو ماں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور ایسے میں بچہ بھی ٹھیک سے ماں کا دودھ نہیں پی پائے گا۔
چھاتی کا دودھ پلانے کا درست طریقہ
میشا نے دودھ پلانے کے چند درست طریقہ بتائے۔ میشا نے بتایا کہ سب سے پہلے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بچے اور ماں کا پیٹ ایک سمت میں ہو جبکہ ماں کی نپلز اور بچے کا ناک ایک سمت میں ہو۔ بچے کا کان، کندھے اور کولے بھی ایک سمت میں بلکہ سیدھے ہوں۔
دوسری اہم چیز یہ ہے کہ بچہ ماں کی چھاتی کتنی اپنے منہ میں لے سکتا ہے۔
’زیادہ مائیں بچوں کے منہ میں صرف نپلز دیتی ہیں، جس سے یہ ہوتا ہے کہ ماں کی چھاتی میں Memory glands میں ductsہوتے ہیں اور بچہ وہ چوس نہیں پاتا۔ ایسے میں دودھ پوری چھاتی میں گردش نہیں کر پاتا اور بچہ صرف نپلز چوس رہا ہوتا ہے۔‘
میشا کا کہنا ہے کہ وہ ماؤں کو بتاتی ہیں کہ چھاتی کا زیادہ حصہ بچے کے منہ میں ڈالیں تاکہ دودھ اچھی مقدار میں آئے۔
’بچے کو 45 ڈگری کے اینگل پر دودھ پلائیں جس سے بچے میں باہر کی ہوا کم اندر جائے گی اور اُس کے پیٹ میں کم گیس بنے گی۔‘
BBCلیکٹیشن ماہر میشا عثمان سے رابطہ کیا، جو سوشل میڈیا ہر ’ممز کلب ڈاٹ کام‘ کے نام سے اپنا پیج بھی چلاتی ہیںماں کے دودھ کو زیادہ کیسے کیا جائے؟
یہ تو بات ہو گئی دودھ پلانے کے درست طریقوں کے بارے میں، اب ہم جانتے ہیں کہ ماں کے دودھ کو زیادہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔
میشا کا ماننا ہے کہ ماؤں کو بریسٹ فیڈنگ سے متعلق جو بھی معلومات لینی ہیں، وہ حاملہ ہونے کے فوراً بعد لینا شروع کر دیں۔ ’اس سے ماں کا نہ صرف دودھ زیادہ ہو گا بلکہ بچہ بھی صحت والا ہو گا۔
میشا نے ماں کا دودھ زیادہ کرنے کے چند طریقے بتائے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
ماں کو کلسٹر فیڈنگ کروانی چاہیے اور ایسا کرتے وقت اُن کو زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ کلسٹر فیڈنگ کا مطلب ہے کہ بچے کو ہر تھوڑی دیر بعد اپنا دودھ پلائیں کیونکہ ماں بچے کو جتنا اپنا دودھ پلائے گی، اُتنا ہی اُن کا دودھ زیادہ بنے گا۔ کام کرنے والی مائیں پمپنگ کے ذریعے اپنا دودھسٹور کر کے رکھ سکتی ہیں اور وہ بوتل میں اپنا دودھ بچے کو دے سکتی ہیں۔ پمپ کیا ہوا دودھ فریج میں تین سے چار دن کے لیے رکھا جا سکتا ہے۔ اس کو سٹور کرنے کے لیے سپیشل ’بریسٹ ملک بیگ‘ (Breast Milk Bags) کی ضرورت ہو گی۔ دودھ پلانے سے پہلے ماں کے دو گلاس پانی پینے سے دودھ کی روانی اچھی ہو گی۔ماں رات کے وقت بچے کو دودھ پلانا نہ چھوڑے۔ رات کے وقت ماں کے دودھ میں چربی کا لیول زیادہ ہوتا ہے جو بچے کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ رات کو بچے کو دودھنہ دینے کی وجہ سے ماں کے دودھکی مقدار کم ہو سکتی ہے۔ دودھ میں زیرہ اُبال کر پینے سے ماں کے دودھ کی مقدار زیادہ ہو سکتی ہے۔