پاک انڈیا ’ورکنگ دشمنی‘ پر کسی کو اعتراض نہیں

بی بی سی اردو  |  Apr 24, 2025

Getty Imagesانڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے کے خلاف آخری باضابطہ اعلانِ جنگ 1971 میں کیا تھا

بچپن میں ہم اکثر دیکھتے تھے کہ چلتے بازار میں دو لوگوں کے درمیان کسی بھی پرانی رنجش یا تازہ ترین ناگواریت پر اچانک سے تو تو، میں میں شروع ہو جاتی۔ راہ گیر انھیں اچٹتی نگاہ سے دیکھتےآگے بڑھ جاتے۔ تو تو، میں میں گالم گلوچ میں بدلنے لگتی تو اکادکا لوگ رکنے لگتے۔ پھر آس پاس کا کوئی نہ کوئی بزرگ منجی یا دکان پر بیٹھا بیٹھا نعرہ لگاتا ’اوئے پاگلو انسان بنو، گالم گلوچ کا کیا فائدہ۔‘

درجۂ حرارت منہ ماری کی حدود پار کر کے ہاتھا پائی کی جانب بڑھنے لگتا تو فریقین پہلے اپنی اپنی گھڑی اتار کے جیب میں رکھتے یا ساتھ والے کو پکڑاتے، پھر آستینیں چڑھاتے، کمر بند کستے، اپنے اپنے سینے کے بٹن کھولتے اور ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیتے۔ تھوڑی بہت تھوکم تھاکی، مکا مکی بھی ہو جاتی مگر اکثر آس پاس والے یا بھلے مانس اجنبی ان دونوں کو پیچھے سے جپھا مار کے الگ الگ کر دیتے۔

جب دونوں سورماؤں کو یقین ہو جاتا کہ بادلِ نخواستہ باہمی تشدد کا خطرہ ٹل گیا ہے تو پھر دور ہوتے ہوتے بھی ایک دوسرے کی ماں بہن کا تذکرہ جاری رکھتے اور منہ پر چیلنجی ہاتھ پھیرتے اور فحش اشارے کرتے بکتے جھکتے اپنی راہ لیتے۔

اور پھر دونوں شام کو اپنے اپنے دوستوں میں شیخی بگھارتے ’اگر رانا بھائی مجھے پیچھے سے پکڑ کے دور نہ لے جاتا تو آج تو میں نے کمینے کا منہ توڑ ہی دینا تھا۔‘

کبھی کبھی چاقو بھی چل جاتے یا گھیر کے بھی حریف کو مارا جاتا مگر وہ ایک الگ سوچی سمجھی گیم ہوتی تھی۔

میں جب بھی انڈیا پاکستان کی گرمی سردی کا تماشہ دیکھتا ہوں تو جانے کیوں بچپن کے بازار و مناظر تصور میں گھوم جاتے ہیں۔ ہر بار دوطرفہ پارہ سرخ نشان تک پہنچتا ہے اور پھر کوئی نہ کوئی بیچ میں جپھا مار کے عارضی صلح صفائی کروا دیتا ہے جو کہ اچھی بات ہے۔

AFPپہلگام کے حملے کے بعد انڈیا میں پاکستان مخالف مظاہرے ہوئے ہیں

مستقل صلح صفائی کا امکان اس لیے نہیں کہ اس کے لیے دل اور دماغ کو کینے سے خالی کرنا پڑتا ہے۔ باقی دنیا کے لیے تو یہی غنیمت ہے کہ دونوں بھلے ’ورکنگ دشمنی‘ رکھیں اور چھوٹی موٹی سرپھٹول، مار کٹائی بھی کر لیں مگر ایسی نوبت نہ آ جائے کہ جوہری پستول لہراتے ہوئے ایک دوسرے پر پل پڑیں۔

دنیا اچھے سے جانتی ہے کہ غلطی سے اگر اس اوچھےپستول سے ایک بھی گولی فائر ہو گئی تو ان دونوں کے بیس پچیس کروڑ لوگ مریں نہ مریں باقی دنیا کا ماحولیاتی نظام گڑ بڑا سکتا ہے اور اس سے اربوں لوگ اور معیشتیں تتربتر ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ اپنے اپنے تحفظ کے لیے کوئی بھی پیٹھ سے پیٹھ ملے دو جوہری پاگلوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑنا چاہتا۔

رہی ایک دوسرے کے خلاف پانی بطور ہتھیار استعمال کرنے کی آرزو، تو خواہش اور عمل میں بہت فرق ہے۔ جنوبی ایشیا کے تمام اہم دریاؤں کی چابی تبت کی برف میں دبی ہوئی ہے اور تبت چین کا حصہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی بھی نچلا ملک اپنے سے نچلے ہمسائے کے گھر میں جانے والا نل بند کرے گا تو اسے ضرور دس بار سوچنا پڑے گا کہ اس کے نل میں بھی جو پانی آ رہا ہے اس کا ہائیڈرینٹ کسی تیسرے ملک میں ہے۔

انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے کے خلاف آخری باضابطہ اعلانِ جنگ 1971 میں کیا تھا اور آخری بار دسمبر 2001 میں لوک سبھا پر دہشت گرد حملے کے بعد ایک مکمل جنگ کی کگار پر پہنچے تھے جب واجپائی حکومت نے آپریشن پراکرمکے تحت پانچ لاکھ فوجی مشترکہ سرحد تک پہنچائے اور جواب میں پاکستان نے تین لاکھ فوجی موبلائز کیے۔

اگلے دس ماہ تک دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھیں۔ اکتوبر 2002 میں خرچے اور بوریت کے دباؤ میں فوجیں پیچھے ہٹنے لگیں۔ فائدے یا نقصان کا تو نہیں معلوم مگر اس لاحاصل مشق میں انڈیا کے تین سے چار ارب ڈالر اور پاکستان کے لگ بھگ سوا ارب ڈالر پھک گئے۔

پہلگام حملہ: ’بیٹے نے حملہ آوروں کو کہا کہ میرے والد کو مار دیا تو مجھے اور میری ماں کو بھی مار ڈالو‘سرجیکل سٹرائیک، میزائل حملہ یا کچھ اور: پہلگام حملے کے بعد کیا انڈیا پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے؟سندھ طاس معاہدے کی معطلی کیا پانی کی کمی کا شکار پاکستان کی مشکلات بڑھا سکتی ہے؟’یہ ہمارا سات اکتوبر ہے‘: پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ’جنگ کے نعرے‘، پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کی گونج

کسی کا کوئی سپاہی ایک دوسرے کی گولی سے نہیں مرا البتہ غیر جنگی وجوہات کے سبب سینکڑوں فوجی ہلاک ہوئے جبکہ ڈیڑھ لاکھ انڈین اور تقریباً 50 ہزار پاکستانی شہریوں کو عارضی طور پر گھر بار چھوڑنا پڑا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ 2001 میں جنگ ہو جاتی مگر ایٹمی انشورنس کام آ گئی۔ کچھ کہتے ہیں جنگ ہو جاتی مگردوستوں کی عقل کام آ گئی۔

اس بار بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں ممالک کی عسکری و سیاسی اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے لوگوں کو ’امپریس‘ کرنے کے لیے تھوڑی بہت ٹھوں ٹھاں کر لے۔ لائن آف کنٹرول بھی چند ماہ تپی رہے مگر 2025 میں کسی بھرپور جنگ کے لیے کسی بھی پایہ تخت پر کم ازکم ایک فاتر العقل کا براجمان ہونا ضروری ہے۔

دنیا ویسے ہی روس یوکرین لڑائی، غزہ کے المیے اور تجارتی جنگ سے تنگ ہے۔ ایک نیا توتا پالنا فی الحال کسی کے وارے میں نہیں آ رہا۔

رہی بات ویزہ بند کرنے کی تو کل سے پہلے بھی کون سا ویزہ آسانی سے مل جاتا تھا؟ دونوں ممالک اپنے اپنے ہائی کمیشن میں 55 اہلکار رکھیں یا 30 عام لوگوں کی بلا سے۔ کون سی ایسی تجارت ہو رہی تھی کہ جس کے بند ہو جانے سے دونوں میں سے کسی کو بھی معاشی جھٹکا لگے گا۔ کون سی آلو پیاز کی بین العلاقائی راہداری کھلی ہوئی تھی؟ کون سی کرکٹ ایک دوسرے کے میدانوں میں کھیلی جا رہی تھی؟ کتنے شاعر، ادیب، گویے اور اداکار آ جا رہے تھے؟ ایک دوسرے کے کتنے رسائل اور کتابیں سرحد پار کر رہے تھے؟

Reuters

ٹارگٹ کلنگ پہلے بھی ہو رہی تھی سو اب بھی جاری رہے گی۔ ایک دوسرے کے ہمسایوں کو ایک دوسرے سے پہلے بھی بدظن رکھنے کی کوشش جاری تھی اب شاید زیادہ ہو جائے۔ پراکسی جنگ کبھی رکی ہی نہیں، انٹیلیجنس آپریشنز کبھی تھمے ہی نہیں۔

پاک انڈیا تعلقات کی ابتری کبھی ہوتی ہو گی ایک تاریخی زخم ، اب تو عرصے سے یہ ایک منافع بخش انڈسٹری ہے۔ اس میں عسکریت پسند نظریہ بازوں اور ان کے طفیلیوں، اسلحے کے تاجروں اور کمیشن ایجنٹوں، ایک دوسرے کو ہر اعتبار سے نیچا دکھانے والی بین الاقوامی طاقتوں اور ان کی سہولت کار ریاستوں کے شئیرز لگے ہوئے ہیں۔

اتنی بڑی منڈی میں ’طے شدہ سوچی سمجھی افراتفری‘ دراصل اس انڈسٹری کا مارکیٹنگ ڈویژن ہے۔ اپنے پیٹ پر کوئی کیوں پوری لات مارنے لگا۔

پہلگام حملے کے بعد کشمیر میں ہڑتال اور سیاحوں کی واپسیانڈیا کا سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد معطل کرنے سمیت متعدد اقدامات کا اعلان، ’انڈیا کو ترکی بہ ترکی جواب دیں گے‘: پاکستانسندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کی انڈین خواہش نظرِثانی کے مطالبے میں کیسے تبدیل ہوئیسرجیکل سٹرائیک، میزائل حملہ یا کچھ اور: پہلگام حملے کے بعد کیا انڈیا پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More