82 سال کی عمر میں انسان کے اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں لیکن اس عمر میں بھی اگر کوئی نہ صرف مارشل آرٹس کرے بلکہ اس کو سکھانے سے دستبردار ہونے کو بھی تیار نہ ہو تو یہ کتنی متاثر کن بات ہے۔
قدیم انڈین مارشل آرٹ کلاری پیاٹو کی 82 سالہ استاد میناکشی راگھون کہتی ہیں کہ ’میں شاید اپنی موت کے دن تک کلاری کی مشق کرتی رہوں گی۔‘
میناکشی راگھون کو اس قدیم انڈین مارشل آرٹ کی مشق کرنے والی دنیا کی سب سے معمر خاتون سمجھا جاتا ہے۔
کلاری پیاٹو کے دو حصے ہیں: ایک کلاری، جس کا مطلب میدان جنگ ہے اور پیاٹو کا مطلب لڑائی یا معرکہ ہے۔
مارشل آرٹ کی اس قسم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا کم از کم تین ہزار سال قبل انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں ہوئی تھی اور اسے انڈیا کے قدیم ترین مارشل آرٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔
یہ صرف لڑنے یا جنگ کے لیے نہیں بلکہ یہ نظم و ضبط پیدا کرنے، جسم میں قوت پیدا کرنے اور اپنے دفاع کی مہارتوں کو فروغ دینے کے لیے بھی اہم ہے۔
میناکشی راگھون کو عرف عام میں ’میناکشی اماں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امّاں کا مطلب ملیالم زبان میں ماں ہے۔ وہ انڈین ریاست کیرالہ میں رہتی ہیں۔
میناکشی اماں کبھی کبھار دوسرے شہروں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ اپنا کلاری سکول چلاتی ہیں، جسے ان کے شوہر نے سنہ 1950 میں قائم کیا تھا۔ ان کے دن کافی مصروف گزرتے ہیں، وہ صبح پانچ بجے سے دوپہر تک کلاسز لیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں روزانہ تقریباً 50 طلبا کو تربیت دیتی ہوں۔ اپنے چار بچوں کو بھی میں نے اور میرے شوہر نے (اس آرٹ فارم میں) تربیت دی تھی۔ انھوں نے چھ سال کی عمر سے سیکھنا شروع کر دیا تھا۔‘
کلاری پیاٹو کے چار مراحل ہوتے ہیں اور اسے سیکھنے کے لیے صبر آزما مشق کے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔
تربیت میپٹو سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح سے تیل کی مالش ہے جس کے بعد جسم کو متحرک کرنے کے لیے مشقیں کی جاتی ہیں۔
تقریباً دو سال کے بعد طلبا کولتھری (لاٹھی چلانا)، پھر انگاتھاری (ہتھیاروں سے لڑائی) اور آخر میں ویرومکائی تک جاتے ہیں۔ ویرومکائی اس مارشل آرٹ کی اعلیٰ ترین سطح ہے۔
کلاری پیاٹو میں مہارت حاصل کرنے میں عام طور پر پانچ سال لگ جاتے ہیں۔
کلاری کے ایک دوسرے استاد ونود کڈنگل کے مطابق کنگ فو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں کلاری پیاٹو سے سانس لینے کی تکنیک اور مارماشاسٹرا (توانائی کے بہاؤ کو بہتر بنانا) جیسے اصولوں کو اپناتے ہیں۔
میناکشی اماں کو آج بھی یاد ہے کہ انھوں نے 75 سال قبل پہلی بار ایک کلاری میں قدم رکھا تھا۔ لال مٹی کے اکھاڑے میں اس کی مشق کی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس وقت سات سال کی تھی اور ڈانس کرنے میں کافی اچھی تھی۔ اس لیے میرے گرو نے میرے والد سے رابطہ کیا اور مشورہ دیا کہ میں کلاری پیاٹو سیکھوں کیونکہ بالکل ڈانس کی طرح ہی اس فن میں آپ کو لچکدار ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
کیرالہ کی تھییا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے میناکشی اماں کے گرو کی عمر اس وقت 15 سال تھی جب انھوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر کلاری پیاٹو کا سکول شروع کیا تھا کیونکہ انھیں ان کی ذات کے سبب کہیں داخلہ نہیں دیا گيا تھا۔
کراٹے کمبیٹ میں پاکستانی فائٹر شاہ زیب رند کی انڈیا کے خلاف فتح: ’کیا 20، 20 سیکنڈ میں ناک آؤٹ کر دیتے ہو‘’وہ جنگ کے لیے اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور شاید کبھی واپس نہ آئیں‘جارج فورمین کی وفات: چیمپیئن باکسر جنھیں یقین تھا کہ وہ محمد علی کو پہلے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر دیں گےپاکستان میں مکسڈ مارشل آرٹس کا رجحان: ’جب منھ پر ایک مُکا پڑتا ہے آپ سب پریشانیاں بھول جاتے ہیں‘
وہ کہتی ہیں کہ ’کلاری کا فن سیکھنے کے لیے لڑکیوں کے معاملے میں کوئی تعصب نہیں تھا۔ درحقیقت، اس وقت کیرالہ کے تمام سکولوں میں جسمانی تعلیم لازمی تھی لیکن بلوغت کو پہنچنے کے بعد ہم سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ ہم رک جائیں۔‘
دوسروں کے برعکس میناکشی اماں کے والد نے میناکشی کی نوعمری کے آخری دنوں میں ان کی تربیت کی حوصلہ افزائی کی۔ 17 سال کی عمر میں وہ اپنے گرو راگھون سے پیار کرنے لگیں اور ان کی جلد ہی شادی ہو گئی اور پھر دونوں ایک ساتھ مل کر سینکڑوں طلبا کو تربیت دینے لگے، اکثر مفت میں بھی تربیت دیتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ عطیات نے ان کے سکول کو برقرار رکھا جبکہ راگھون نے بعد میں اضافی آمدن کے لیے شعبہ تدریس میں ملازمت اختیار کی۔
سنہ 2007 میں ان کی موت کے بعد میناکشی اماں نے اس سکول کا باقاعدہ چارج سنبھال لیا۔
اگرچہ فی الحال ان کا ریٹائر ہونے کا کوئی منصوبہ نہیں لیکن وہ ایک دن سکول کو اپنے بڑے بیٹے سنجیو کے حوالے کرنے کی امید کرتی ہیں۔
62 سالہ سنجیو بھی اس سکول میں تربیت دیتے ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ماں سے بہترین ہنر سیکھا۔
میناکشی اماں مقامی سطح پر ایک مشہور شخصیت ہیں۔ ہمارے انٹرویو کے دوران تین سیاست دان انھیں ایک ایوارڈ تقریب میں مدعو کرنے کے لیے آئے۔
ان میں سے ایک نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ’اماں، آپ ہمارے یہاں تشریف لا کر ہمیں نوازیں‘ اور وہ جواب دیتی ہیں کہ ’میرا نام غور کرنے کے لیے آپ کا شکریہ، میں شرکت کروں گی۔‘
ان کے طالب علم ان کے لیے ’بہت تعریفی کلمات‘ کہتے ہیں۔ ان میں سے کئی نے ریاست بھر میں اپنے اپنے کلاری سکول کھولے ہیں، جو میناکشی اماں کے لیے بڑے فخر کا باعث ہیں۔
میناکشی اماں کے ایک سابق شاگرد کے ایف تھامس کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ ’وہ ایک نادر شخصیت ہیں جو اپنے شاگردوں سے پیار اور شفقت سے پیش آتی ہیں لیکن جب کلاری کی بات آتی ہے تو وہ سخت نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتی ہیں۔‘
پاکستان میں مکسڈ مارشل آرٹس کا رجحان: ’جب منھ پر ایک مُکا پڑتا ہے آپ سب پریشانیاں بھول جاتے ہیں‘ایشیا کا قدیم طریقہ ورزش ’تائی چی‘ ہانگ کانگ میں کیوں بے حد مقبول ہے؟جاپانی پہلوان انوکی سے ایسا مقابلہ جو محمد علی کے ہسپتال جانے پر ختم ہواکراٹے کمبیٹ میں پاکستانی فائٹر شاہ زیب رند کی انڈیا کے خلاف فتح: ’کیا 20، 20 سیکنڈ میں ناک آؤٹ کر دیتے ہو‘غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے