انڈیا میں سرِعام پیار کے اظہار پر اعتراض، فحش رویّے کے حد بندی کہاں تک

بی بی سی اردو  |  May 17, 2023

Getty Images

دہلی میٹرو نیٹ ورک نہ صرف جدید انڈیا میں ایئر کنڈیشنڈ ٹرین کے سفر کی علامت ہے، بلکہ اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ محبت کے سرِ عام اظہار کے لیے ایک ہاٹ سپاٹ بن گیا ہے۔

گذشتہ ہفتے دارالحکومت میں ایک نوجوان جوڑے کی ٹرین میں بوسہ لینے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ایک بحث شروع ہو گئی ہے۔

ویڈیو، جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک عورت ایک مرد کی گود میں لیٹی ہے اور وہ بوسہ لے رہے ہیں، دہلی میٹرو ریل کارپوریشن نے مسافروں سے کہا کہ وہ کسی بھی ’قابل اعتراض رویّے‘ کی اطلاع دیں۔

کارپوریشن نے ایسے واقعات کی نگرانی کے لیے ’فلائنگ سکواڈز کی تعداد کو تیز کرنے‘ کا بھی وعدہ کیا۔

ویڈیو اور اس پر ہونے والے آن لائن تنقید نے ملک میں اخلاقی پولیسنگ اور سرِ عام فحاشی کے بارے میں ایک شدید بحث کو جنم دیا ہے۔

لیکن ’قابل اعتراض رویّے‘ کی تعریف سیدھی نہیں ہے۔

مثال کے طور پر، سوشل میڈیا پر آنے والے ردِ عمل میں کے مطابق کچھ چیزیں معیار کے مطابق کافی حد تک درست ہیں جیسے ایک نوجوان جوڑا بیٹھا ہے اور عورت نے مرد کے شانے پر سر ٹکایا ہوا ہے۔

سنہ 2018میں، مشرقی انڈین شہر کولکتہ میں مشتعل مسافروں نے ایک دوسرے کو گلے لگانے پر ایک جوڑے کی پٹائی کی۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر غم و غصے کا باعث بنا، بہت سے لوگوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ نوجوان جوڑوں کی ’اخلاقی پولیسنگ بند کریں‘۔

سنہ 2019میں، دہلی کے ایک میٹرو سٹیشن پر ’قابلِ اعتراض حالت‘ میں ایک جوڑے کی سی سی ٹی وی ویڈیو ایک فحش سائٹ تک پہنچ گئی۔

Getty Imagesٹرین میں جوڑے کے گلے لگنے اور بوسہ لینے کی ویڈیوز وائرل ہوئی

سرِ عام محبت کے اظہار کی انڈیا میں ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ ہے، ایک ایسا ملک جس نے دنیا کو ’کاما سوترا‘ شہوت انگیز محبت پر ایک قدیم کتاب دی وہاںآن سکرین بوسوں پرلوگوں کے ماتھے پر بل آ جاتے ہیں۔

سنہ 1981 میں، جب اس وقت پرنس چارلس انڈیا میں ایک فلم کے سیٹ پر گئے تو اداکارہ پدمنی کولہاپورے نے ان کا استقبال کرتے ہوئے ان کے گلے میں ہار ڈالتے ہوئے گال پر ایک غیر رسمی بوسہ دیا۔ اس عمل نے انھیں ’پرنس چارلس کو بوسہ دینے والی خاتون‘ کے طور پر مشہور کر دیا، حالانکہ انھوں نے برسوں بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔‘

لیکن یہ بڑی بات ہو بھی سکتی ہے۔ جیسے 2007میں جب ہالی وڈ کے سپر سٹار رچرڈ گیئر نے بالی وڈ اداکارہ شلپا شیٹی کو ایڈز سے متعلق آگاہی کی ایک تقریب میں گال پر بوسہ دیا تو ان پر انڈین ثقافت کی توہین کا الزام لگایا گیا۔

گیئر نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ بوسہ لینا محفوظ ہے، لیکن شلپاکے خلاف عوام میں ’جارحانہ فعل‘ کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

جب شلپا کو آخر کار 2022 میں الزامات سے بری کر دیا گیا تو عدالت نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ گیئر کی ’مبینہ حرکتوں کا شکار‘ ہوئی ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں انڈین فلموں اور ویب شوز میں سکرین پر بوسے اور قربت کے مناظر زیادہ عام ہو گئے ہیں۔

لیکن انڈیا جیسی آبادی والے ملک میں جہاں زیادہ تر نوجوان اب بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں رازداری ہمیشہ ایک مسئلہ ہوتا ہے۔

جوڑے باغات، پارکوں اور یہاں تک کہ قدیم یادگاروں میں بھی رومانوی قربت کے لمحات تلاش کرتے ہیں۔

کولکتہ میں، ملکہ وکٹوریہ کے لیے سنگ مرمر کی عظیم عمارت کا میدان روایتی طور پر جوڑوں کے لیے ایک پناہ گاہ رہا ہے۔ اندھیرے کے بعد، پولیس معمول کے مطابق جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھے جوڑوں کو منتشر کرنے کے لیے سیٹی بجاتی ہے۔

Getty Imagesہم جنس پرست جوڑوں کو ہوٹل کا کمرہ کرایہ پر لینے میں اکثر ویسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا

لیکن قربت کے متلاشی جوڑوں کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک کے کچھ ہوٹل یہاں تک کہ جوڑوں کو کمرے کرائے پر دینے سے پہلے نکاح نامہ دیکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو ہوٹل کا کمرہ کرایہ پر لینے میں اکثر ویسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو ایک مرد و عورت کے جوڑے کوکرنا پڑ سکتا ہے۔

تعزیرات ہند کی دفع 294 کسی بھی ایسے شخص کو سزا دیتی ہے جو کسی عوامی مقام پر فحش حرکات کے ذریعے دوسروں کو پریشان کرتا ہے، بشمول فحش گانوں سے۔

لیکن مسئلہ خود فحاشی کی تعریف میں ہے۔

اردو کے ادیب سعادت حسن منٹو پر برطانوی اور آزاد انڈیا دونوں میں چھ بار فحاشی کا الزام لگایا گیا۔ سنہ 2017میں اداکار ملند سومن پر دفعہ 294 کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا جب انھوں نے اپنی 55 ویں سالگرہ کے موقع پر ساحل سمندر پر برہنہ دوڑتے ہوئے اپنی تصویر پوسٹ کی تھی۔

اس سال کے شروع میں انڈیا میں فحاشی کا موضوع ایک مشہور ڈرامے، ’پبلک اوبسینٹیز‘ کا مرکزی خیال بن گیا، جس میں کولکتہ میں عجیب و غریب رشتوں کو دکھایا گیا ہے۔

اس کے ڈرامہ نگار شیوک میشا چودھری نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ متجسس تھے کہ یہ قانون کس چیز کو فحاشی سے تعبیر کرتا ہے۔ ’اس میں کس چیز کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے اور کس چیز کو شہوت انگیز اور ’کیا نجی ہے اور کیا عوامی ہے۔‘

جہاں ایک طرف ویلنٹائن ڈے کے دوران نگرانی بڑھائی ہے وہیں اخلاقی پولیسنگ کی مخالفت کرنے کے لیے چنئی شہر کے انجینئرنگ انسٹیٹیوٹ میں طلبا نے ’محبت کا جشن‘ جیسے مظاہروں کا مقابلہ بھی منعقد کیا۔

کئی عدالتی فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ عوامی سطح پر بوسہ لینا کوئی فحش فعل نہیں ہے۔ سنہ 2008میں ایک شادی شدہ جوڑے کا دفاع کرنے والے ایک وکیل نے کہا کہ یہ صرف اس صورت میں فحش ہو سکتا ہے جب اس سے ’بدکاری کی حوصلہ افزائی ہو یا عوام کو ناراض کیا جائے۔‘

لیکن قانونی طور پریہ حد بندی مشکل ہے۔ جیسا کہ وکیل سوربھ کرپال کہتے ہیں ’قانون معاشرے سے تشکیل پاتا ہے اور بدلے میں اسے تشکیل دیتا ہے۔۔۔ قانون کو تبدیل کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ قانون وہی لوگ بناتے ہیں جو معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘

یہ ہمیں واپس دہلی میٹرو کی طرف لے جاتا ہے، جہاں ایک شخص کا سرِعام اظہارِ محبت دوسرے کے لیے سرِ عام فحاشی ہو سکتا ہے۔

سندیپ رائے کولکتہ میں مقیم پوڈ کاسٹر اور مصنف ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More