اگر آپ طیارے سے سفر کر رہے ہیں تو کراچی سے لاہور یا اسلام آباد پہنچنے میں آپ کو تقریباً دو ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور اگر یہی سفر ٹرین کے ذریعے ہو تو آپ کو کم سے کم 18 سے 20 گھنٹے لگتے ہیں۔
لیکن دنیا میں ایسے بھی ممالک ہیں جہاں یہ طویل فاصلے ٹرین کے ذریعے تین، چار گھنٹوں میں طے ہو رہے ہیں۔ اس معاملے میں جاپان اور فرانس سرفہرست رہے ہیں جہاں سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔
لیکن گذشتہ دنوں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقدہ ایک نمائش میں ایک ایسی ٹرین کی رونمائی کی گئی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 600 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، یعنی آپ اس کے ذریعے کراچی سے لاہور بس دو سوا دو گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
چینی سرکاری میڈیا سی سی ٹی وی نے ایک ایسی ٹرین کو دکھایا ہے جس کی رونمائی گذشتہ دنوں چائنہ انٹرنیشنل ماڈرن ریلوے ٹیکنالوجی اینڈ ایکیوپمنٹ کی 17ویں نمائش کے دوران کی گئی۔
چینی اخبار دی پرنٹ کے مطابق اس میگلیو (یعنی مقناطیسی لیویٹیشن والی) ٹرین کو چائنا ریلوے رولنگ سٹاک کارپوریشن (سی آر آر سی) نے تیار کیا ہے۔ ٹرین ایک سلیک، ایروڈائنامک شکل کی ہے جس کی نوکیلی ناک ہے تاکہ ہوا کی رکاوٹ کو کم کیا جا سکے۔
سرکاری نشریاتی ادارے سے جاری ویڈیو میں مستقبل کی اس ٹرین کے اندرونی حصے کو دکھایا گيا ہے جس میں ایک بڑی ویڈیو سکرین نظر آتی ہے۔
رونمائی کے موقع پر اس کمپنی کے نمائندوں نے بتایا کہ انجینئرنگ کا پہلا مرحلہ گذشتہ سال جولائی میں مکمل ہوا تھا۔ ٹرین کے کمرشل سروس میں جانے سے پہلے مزید روٹ، سیفٹی ٹیسٹ اور انجینئرنگ کے قابل عمل ہونے کے جائزے لیے جائیں گے۔
شنگھائی میں واقع نیوز سائٹ دی پیپر کے مطابق یہ ٹرین موجودہ ریلوے نیٹ ورک میں بڑے شہروں کے درمیان ’ایک مرکز سے دوسرے مرکز تک رابطے‘ کے طور پر کام کرے گی۔
مثال کے طور پر ابھی بیجنگ سے شنگھائی کے درمیان کا 1200 کلومیٹر کا فاصلہ ساڑھے پانچ گھنٹے میں طے کیا جاتا ہے، جو اس نئی ٹرین کے متعارف ہونے کے بعد صرف ڈھائی گھنٹے میں طے کیا جا سکے گا۔
سی آر آر سی کے سینیئر انجینئر شاو نن کا کہنا ہے کہ سپر کنڈکٹنگ الیکٹرک ہائی سپیڈ مقناطیسی لیویٹیشن ٹیکنالوجی زیادہ ماحول دوست ٹرانسپورٹ ہے اور یہ ایندھن کی بچت کا وعدہ بھی کرتی ہے۔
’تیز رفتار اور ڈرائیور کا خرچہ بھی صفر‘: چین میں بغیر ڈرائیور چلنے والے ٹرک جو انقلاب برپا کر سکتے ہیںپاکستان سمیت دنیا بھر میں چین کے ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہری نشانہ کیوں بن رہے ہیں؟ٹرمپ، الیکٹرک گاڑیاں اور ٹیکنالوجی وار: 2025 میں چین کو پانچ بڑے چیلنجز کا سامناچینی کارخانوں میں سستی مصنوعات کے بڑے ڈھیر، مگر چین کی کمپنیاں پریشان: ’امریکی بڑے چالاک ہیں‘
اس کے فوائد میں تیز رفتاری، کم شور اور کاربن کا صفر اخراج شامل ہیں۔ اس کے علاوہ طویل مدتی لحاظ سے اس کی دیکھ بھال کا خرچ بھی کم ہے۔
مقناطیسی لیویٹیشن سُپر کنڈکٹنگ مقناطیس ریل اور ٹریک کے درمیان برقی مقناطیسی انڈکشن کا استعمال کرتا ہے، جس سے ٹرین پٹریوں سے اوپر اٹھ کر چل سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ٹرین میں نصب ربڑ کے پہیے اسے اڑائے لیے جا رہے ہیں۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق شاؤ نے بتایا کہ ففتھ جنریشن نیٹ ورک کمیونیکیشن، مصنوعی ذہانت کے ذریعے ویڈیو بنانے کی صلاحیت اور ایکوسٹک سینسنگ کے انضمام جیسی مختلف ٹیکنالوجیوں کی وجہ سے یہ نئی ٹرین مکمل طور پر خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیتوں سے لیس ہے۔
اس سے قبل 20 اکتوبر 2022 کی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیلی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چینی انجینیئروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ایک ایسا تجرباتی نظام تیار کیا ہے جس میں کسی ٹیوب کے اندر ایک ٹرین کی رفتار کو فی گھنٹہ 1000 کلومیٹر تک بڑھایا جا سکتا ہے جو کہ موجودہ میگلیو ٹرین سے بھی کہیں زیادہ تیز ہوگی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی ٹرین بنا رہے ہیں جو زمین پر ہی اڑ رہی ہو گی اور اس کی رفتار طیارے کی رفتار کے برابر ہوگی۔
سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر چینی ٹک ٹاکر ژانگ میئیفانگ نے اس کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ریل گاڑی کے آرام کے ساتھ ساتھ زمین پر اڑنے والی سواری ہوگی۔‘
مصنف، یوٹیوبر اور بلاگر ایلیکس نے اسے ’الٹرا ہائی سپیڈ ٹرین‘ قرار دیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اسے بعض کمرشل فلائٹوں سے بھی زیادہ تیز قرار دیا ہے۔
ماسیمو نامی ایک انجینیئر نے ایکس پر لکھا کہ یہ سائنس فکشن نہیں ہے، یہ انتہائی تیز رفتار سفر کا اگلا مرحلہ ہے۔ مقناطیسی لیویٹیشن ٹیکنالوجی اور پٹریوں کے ساتھ صفر جسمانی رابطے کے ساتھ، نقل و حمل کا مستقبل صرف تیز نہیں ہے بلکہ بغیر فرکشن کے ہے۔
Getty Imagesچین میں سب سے زیادہ رفتار سے چلنے والی ٹرینیں ہیں
سب سے پہلے یعنی سنہ 1964 میں جاپان نے ہائی سپیڈ ٹرین (ایچ ایس آر) چلائی تھی جسے حرف عام میں ’بلٹ ٹرین‘ کہا گیا اور یہ ٹوکیو سے اوساکا کے درمیان چلی تھی۔
اس کے بعد سنہ 1977 میں اٹلی میں ایسی ہی ہائی سپید ٹرین متعارف کروائی گئی۔ پھر کیا تھا دیکھتے ہیں دیکھتے فرانس، جرمنی، سپین، برطانیہ، جنوبی کوریا اور تائیوان میں بھی ہائی سپیڈ ٹرینیں نظر آئیں۔
چین میں پہلی ہائی سپیڈ ٹرین سنہ 2008 میں پہلی بار نظر آئی لیکن اس کے بعد سے وہاں تیز رفتار ٹرین پر بہت کام ہوا لیکن آج تین تیز ترین ریل گاڑیاں چین کے پاس ہی ہیں۔
اس کی ٹرین شنگھائی میگلیو پہلی مقناطیسی لیویٹیشن پر مبنی ٹرین ہے جو کہ 460 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے بعد اس کی سی آر 450 ہے جو کہ ابھی تیاری کے مرحلے میں ہے۔ لیکن وہاں سی آر 400 سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 350 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔
اس کے علاوہ فرانس کی ٹی وی جی ٹرین 320 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی پہلی ٹرین تھی۔ جاپان کی شنکانسین ریل گاڑی جاپان میں ہائی سپیڈ ٹرین کی موجد سمجھی جاتی ہے جو 320 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتارسے چلتی ہے۔
یہ تمام ریل گاڑیاں بلٹ ٹرین کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ انڈیا میں بھی اسے لانے کی کوشش جاری ہے لیکن ابھی اس پر کام ہو رہا ہے۔
’تیز رفتار اور ڈرائیور کا خرچہ بھی صفر‘: چین میں بغیر ڈرائیور چلنے والے ٹرک جو انقلاب برپا کر سکتے ہیںٹرمپ، الیکٹرک گاڑیاں اور ٹیکنالوجی وار: 2025 میں چین کو پانچ بڑے چیلنجز کا سامناڈیپ سیک: امریکہ میں کھلبلی مچانے والی چینی اے آئی ایپ جسے ’سائبر حملوں‘ کا سامنا ہےچینی کارخانوں میں سستی مصنوعات کے بڑے ڈھیر، مگر چین کی کمپنیاں پریشان: ’امریکی بڑے چالاک ہیں‘’تیز رفتار اور ڈرائیور کا خرچہ بھی صفر‘: چین میں بغیر ڈرائیور چلنے والے ٹرک جو انقلاب برپا کر سکتے ہیں’چین کا تحفہ‘: سیٹلائٹ ٹی وی کے ذریعے افریقیوں کا دل جیتنے کا منصوبہ کتنا کامیاب ہوا؟