بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کے حلف اٹھانے کی مخالفت کیوں کی تھی؟ عامر خاکوانی کا کالم

اردو نیوز  |  Jul 14, 2025

سابق بیوروکریٹ اور سیکریٹری طارق محمود کی خودنوشت ’دام خیال‘ کے حوالے سے چند واقعات پچھلے ماہ اردو نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیے تھے۔

طارق محمود نے پنجاب کے چار گورنروں کے ساتھ بطور سیکریٹری ٹو گورنر کام کیا۔ ان میں مخدوم سجاد حسین قریشی کا تذکرہ کر دیا تھا۔ 1988 کے الیکشن کے بعد مخدوم سجاد قریشی کو رخصت ہونا پڑا، ان کی جگہ پیپلز پارٹی نے جنرل ریٹائر ٹکا خان کو گورنر مقرر کیا۔ طارق محمود نے ان کے ساتھ بھی کام کیا۔ اس سے پہلے مگر اچھا خاصا سیاسی ڈرامہ ہوا۔

مرکزمیں بے نظیر بھٹو کو زیادہ نشستیں ملیں، پنجاب میں اینٹی پیپلز پارٹی اتحاد ’آئی جی آئی‘ کی پوزیشن نسبتاً بہتر تھی۔ مرکز میں بے نظیر بھٹو اور پنجاب میں میاں نوازشریف قائد ایوان منتخب ہو گئے۔ اب حلف لینے کا معاملہ درپیش تھا۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو خطرہ تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو پہلے وزیراعظم کا حلف لے لیں تو وہ کسی نہ کسی طرح جوڑ توڑ کر کے نواز شریف کو وزیراعلیٰ بننے سے روک دیں گی۔

صدر غلام اسحاق خان نے طے کیا کہ دونوں کا حلف ایک ہی دن اور ایک ہی وقت ہوگا۔ کسی ممکنہ رکاوٹ سے بچنے کے لیے نواز شریف اپنے ساتھیوں چودھری عبدالغفور، سردار نصراللہ دریشک اور ریٹائر ڈی جی آئی اصغر خان (ہلاکو خان) کے ساتھ گورنر مخدوم سجاد قریشی کے پاس آ گئے، ان کا اصرار تھا کہ کسی طرح وزیراعلیٰ کا حلف پہلے لے لیا جائے، قانونی ماہرین سے مشاورت ہو گئی ہے، اس میں کوئی قانونی رکاوٹ موجود نہیں۔

گورنر مخدوم سجاد قریشی صدر اسحاق خان کی ہدایت پر عمل کا ذہن بنا چکے تھے۔ انہوں نے ان کے سامنے صدر اسحاق خان کو یہ بات پہنچائی۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ نہیں، ایک ہی وقت میں حلف برداری ہوگی، نواز شریف اور ان کے ساتھی ناخوش ہو کر واپس گئے۔

اُدھر وزیراعلیٰ کے حلف سے چند گھنٹے پہلے سیکریٹری گورنر طارق محمود کو گورنر کے پرسنل سیکریٹری نے بتایا کہ اسلام آباد سے اٹارنی جنرل کا فون آیا ہے۔ طارق محمود نے کہا کہ ابھی حکومت تو بنی نہیں، اٹارنی جنرل کہاں سے آ گئے؟ انہوں نے فون سننے سے گریز کیا تو اسلام آباد سے بار بار رابطہ ہوتا رہا، پھر آخر پیغام ملا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر افتخار گیلانی نے خود کو متوقع اٹارنی جنرل کے طور پر پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گورنر پنجاب وزیراعلیٰ پنجاب کی حلف برداری کے لیے پرائم منسٹر آف پاکستان بے نظیر بھٹو سے حتمی اشارے کا انتظار کریں۔

یعنی وہ وزیراعلیٰ کا حلف مقررہ وقت میں نہ لیں۔ یہ بات گورنر تک پہنچائی گئی۔ اتنے میں نواز شریف بھی اسمبلی سے ووٹ لے کر خوش خوش گورنر ہاؤس پہنچ گئے۔ گورنر مخدوم سجاد قریشی نے پیغام والی چٹ ان کے آگے رکھ دی۔ نواز شریف کے چہرے پر سنجیدگی کی لکیریں ابھر آئیں۔ یہ بھی کنفرم ہو چکا تھا کہ پیغام وزیراعظم ہاؤس ہی سے آیا ہے۔ چیف سیکریٹری بھی وہاں پہنچ گئے۔ طرح طرح کے خدشات کی بات ہو رہی تھی۔ ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ اب کیا کریں؟

میاں نواز شریف کریم کلر کی شلوارقمیص اور براؤن واسکٹ میں ملبوس پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر خوش آئے تھے۔ وزیراعظم ہاؤس سے اس پیغام نے انہیں پریشان کر دیا کہ وزیراعلیٰ کی حلف برداری وزیراعظم کے حلف لینے کے بعد ان کی جانب سے حکم ملنے پر کی جائے۔

میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب جبکہ جنرل ریٹائر ٹکا خان کو بے نظیر بھٹو نے گورنر پنجاب بنا دیا (فوٹو: فلکر)ہر ایک کو خطرہ تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں تو پھر وہ اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف میاں نواز شریف کو پنجاب جیسے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ نہیں بننے دیں گی۔ پریشانی اور کنفیوژن کی یہ کیفیت جاری تھی کہ چیف سیکریٹری انور زاہد نے جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ بڑے پُراعتماد لہجے میں بولے، اس کاغذ اور پیغام کو سامنے آتش دان میں پھینک دیں، حلف برداری طے شدہ وقت پر ہی ہوگی، جب وزیراعظم اسلام آباد میں حلف لے رہی ہوں گی۔

انور زاہد کی پُراعتماد لہجے میں کہی بات سے غیر یقینی صورتحال ختم ہوگئی۔ میاں نواز شریف کو ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ وہ ماڈل ٹاؤن نہ جائیں۔ حلف کے موقع پر باضابطہ لباس شیروانی کا استعمال ضروری تھا، طے پایا کہ گورنر کی شیروانی استعمال کی جائے۔ حلف برداری کے موقع پر میاں نواز شریف گورنر کی ڈھیلی سیاہ شیروانی میں ملبوس تھے۔

میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب جبکہ جنرل ریٹائر ٹکا خان کو بے نظیر بھٹو نے گورنر پنجاب بنا دیا۔ طارق محمود بدستور سیکریٹری ٹو گورنر تھے۔ وہ ٹکا خان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ کم گو انسان تھے لیکن لطف حس سے بھی معمور تھے۔ تناؤ کی صورتحال میں مسکراتے اور کھلکھلا کر ہنسنے لگتے۔

انہیں صبح دفتر بلا کر اہم خبروں کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے۔ ایک روز وزیراعلیٰ نواز شریف کا بیان چھپا کہ وہ پیپلزپارٹی کو بحیرہ عرب میں پھینک دیں گے۔ گورنر نے حسب معمول دفتر بلایا اور اہم خبروں کے بارے میں پوچھا۔ اس روز کی اہم خبر تو یہی بیان تھا۔ طارق محمود نے عمومی طور پرکہہ دیا کہ وزیراعلیٰ نے پیپلزپارٹی پر تنقید کی۔ گورنر کا سوال تھا، اس نے کیا کہا؟ طارق محمود نے بیان دہرایا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں پیپلز پارٹی کو بحیرہ عرب میں پھینک دوں گا۔

جنرل ٹکا خان نے کرسی پر ٹیک لگا کر زوردار قہقہہ لگایا اور پھر برجستگی سے بولے، کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہ بہت سارے ہیں۔ ٹکا خان ہمیشہ اردو یا انگریزی میں بات کیا کرتے، دو برس کی تعیناتی کے دوران انہیں ان کے اہل خانہ، ذاتی ملازمین کے ساتھ بھی کبھی پنجابی یا پوٹھوہاری میں بات کرتے نہیں سنا۔ الفاظ کا ذخیرہ کم پڑ جاتا لیکن وہ اردو کا دامن کبھی نہ چھوڑتے۔

ایک بار وہ فیصل آباد گئے، زرعی یونیورسٹی کی سینٹ کمیٹی کی میٹنگ تھی۔ میٹنگ کے بعد سرکٹ ہاؤس گئے، وہاں درخواست گزاروں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ ایک شخص بار بار چلائے جا رہا تھا، گیس کا تقاضا کرتا اور کہتا کہ ضیا دور میں میں نے کوڑے کھائے ہیں۔

جنرل (ر) ٹکا خان  نے بطور آرمی چیف جنرل ضیا کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی (فوٹو: اے ایف پی)گورنر نے اس کے ہاتھ سے درخواست لی اور اپنے سیکریٹری کو کہا کہ یہ درخواست گیس کنکشن کے لیے بھجوا دی جائے۔ وہ شخص چلا کر بولا جنرل صاحب مجھے گیس کا کنکشن نہیں، گیس کی ایجنسی چاہیے۔ میں نے کوڑے کھائے ہیں۔ گورنر ٹکا خان نے اس کی طرف سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کہا، تم کوڑوں کی بہت زیادہ قیمت مانگ رہے ہو۔

گورنر بلحاظ عہدہ صوبائی سکاؤٹس کے منتظم اعلیٰ تھے۔ صوبائی کونسل تنازعات کا شکار تھی اور 17 برس سے اس کا اجلاس نہیں ہوا تھا۔ گورنر نے دن رات محنت کر کے تنظیم کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا اور گورنر ہاؤس اجلاس کا انعقاد کیا۔ سیکریٹری پنجاب سکاؤٹ بہت خوش تھے۔ وہ گورنر کو مبارکباد دیتے ہوئے بولے، سر آپ نے تو جمود توڑ دیا ہے۔ جنرل ٹکا خان نے اس کی طرف دیکھا اور بولے ’ٹھہرو ٹھہرو، ہم نے کوئی جمود نہیں توڑا، ہم توڑنے والے نہیں، جوڑنے والے کام کرتے ہیں۔‘ سیکریٹری نے بادل نخواستہ ہاں میں ہاں ملائی، مگر جملہ محظوظ کن تھا۔

گورنر جنرل ٹکا کے ساتھ سفر کے بہت سے مواقع تھے، سفر کے دوران کئی موضوعات پر گفتگو کا موقع ملتا۔ انہوں نے بطور آرمی چیف جنرل ضیا کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی۔ بتانے لگے کہ میں نے بھٹو صاحب کو بولا تھا کہ جس شخص کو یونیفارم میں اپنی قمیص کا بٹن بند کرنے کا خیال نہ آئے، وہ اتنی بڑی آرمی کیسے چلائے گا؟ ہوا یوں کہ جنرل ضیا ایک بار کار سرکار کے حوالے سے جنرل ٹکا خان کو ملنے آئے تو ان کی نظر جنرل ضیا کی شرٹ کے کھلے بٹن پر پڑ گئی۔ جنرل ٹکا روایتی سپاہی تھے، اس بات کا نوٹس لیا اور دل میں بٹھا لی۔

طارق محمود نے پوچھا کہ بھٹو صاحب نے آپ کی بات کا کیا جواب دیا تھا؟ جنرل ٹکا بولے، انہوں نے کہا تھا، ’بس‘ یہ کہہ کر ہنس دیے۔ یہ جملہ دہرا کر جنرل ٹکا خان خاموش ہوگئے۔ طارق محمود سوچتے رہے کہ جس شخص کے بارے میں پیپلز پارٹی کے رہنما کا تاثر تھا کہ وہ اپنی قمیص کے بٹن بند کرنے سے غافل ہے، وقت آنے پر اس نے سب سے بڑی جماعت کے کِس طرح کَس بل نکال دیے۔

1990، اگست کا مہینہ اور معمول کا دن تھا۔ چیف سیکریٹری نے شام گئے فون کرکے طارق محمود سیکریٹری ٹو گورنر کو بتایا کہ اسمبلیاں تحلیل کر دی گئی ہیں اور فیکس پر صدارتی حکم نامہ آ رہا ہے جس کے تحت میاں اظہر پنجاب کے نئے گورنر ہوں گے۔ طارق محمود نے ٹکا خان کو اطلاع دی۔ انہوں نے تحمل سے خبر سنی اور کرسی سے اٹھ کر بولے تو پھر چلیں۔

1990 میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد میاں محمد اظہر گورنر پنجاب بنے (فوٹو: حماد اظہر ایکس)عملے کو ہدایت کی کہ ضروری سامان تیار کیا جائے، وہ فوری طور پر گورنر ہاؤس سے منتقل ہونا چاہتے تھے، طے پایا کہ ان کی صاحبزادی جو سی ایم ایچ میں ڈاکٹر تھیں، ان کے ہاں منتقل ہو جائیں۔ کچھ ہی دیر میں گورنر ہاؤس میں مسلم لیگی کارکنوں کا ایک ہجوم خوشی سے نعرے لگاتا ہوا داخل ہوا۔ ان پرجوش حضرات میں چودھری سردار ایڈیشنل آئی جی پولیس اور سراج منیر پیش پیش تھے۔

 طارق محمود سراج منیر کو بطور دانشور اور ادیب جانتے تھے، ان کا یہ نیا پہلو سامنے آیا۔ معلوم ہوا کہ پنجاب حکومت نے جو میڈیا سیل قائم کر رکھا تھا، وہ اس میں بڑے تواتر سے اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ کچھ ہی دیر میں میاں اظہر اپنے حمایتیوں سمیت گورنر ہاؤس پہنچ گئے۔ ادھر سابق گورنر ٹکا خان گورنر ہاؤس کے نشیبی راستے سے نکلے اور دو اٹیچی کیسوں میں اہلیہ کے ہمراہ خاموشی سے رخصت ہوگئے۔ یہ زمانے کے تغیرات تھے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More