Social Media
پاکستانی فوج نے نو مئی کو عسکری تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث مظاہرین کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
مسلح افواج کی کور کمانڈر کانفرنس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ شرپسندی میں ملوث افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
یاد رہے 9 مئی کو پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد مشتعل مظاہرین کی جانب سے کور کمانڈر ہاؤس لاہور، راولپنڈی میں فوج کے ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو جبکہ پشاور سمیت کئی دیگر مقامات میں عسکری تنصیات پر جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔
جہاں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے ان حملہ آوروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی منظوری دی ہے وہیں بعض حلقے عام شہریوں یعنی سویلینز کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ جیسے سخت قوانین کے تحت کارروائی کی مذمت کر رہے ہیں اور وہ اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔
صحافی، انسانی حقوق سے وابستہ کارکنان اور وکلا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کو عالمی سطح پر ظالم حکومتیں خوف اور جبر کے آلات کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
اس تحریر میں ہم نے ماہرین سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ عام شہریوں پر کیسے لاگو ہوتے ہیں اور کارروائی کی صورت میں کیا سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
Social Mediaآرمی ایکٹ کیا ہے اور اس کے تحت عام شہریوں کے خلاف کارروائی کیسے کی جاتی ہے؟
پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ان جرائم کا حوالہ دیا گیا ہے جن کا ٹرائل اس ایکٹ کے تحت اس صورت میں ہوتا ہے جب ان جرائم کا ارتکاب فوجی اہلکار کریں۔ تاہم اسی ایکٹ کے اطلاق کے حوالے سے کچھ شقوں میں یہ قانون بعض صورتوں میں عام شہریوں پر بھی نافذ ہوتا ہے۔
فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی صورت میں ملزم کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہا جاتا ہے اور یہ فوجی عدالت جی ایچ کیو ایجوٹنٹ جنرل (جیگ) برانچ کے زیر نگرانی کام کرتی ہے۔
اس عدالت کا صدر ایک حاضر سروس (عموماً لفٹیننٹ کرنل رینک) فوجی افسر ہوتا ہے، استغاثہ کے وکیل بھی فوجی افسر ہوتے ہیں۔ یہاں ملزمان کو وکیل رکھنے کا حق دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی ملزم پرائیویٹ وکیل رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو فوجی افسر ان کی وکالت کرتے ہیں، انھیں ’فرینڈ آف دی ایکیوزڈ‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں ہونے والی کارروائی کے بعد ملزم اپیل کا حق رکھتا ہے۔
سنہ 2015 میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ نے21 ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی متفقہ منظوری دی تھی۔
ان ترامیم کے تحت مندرجہ ذیل جرائم میں ملوث افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جا سکے گی:
پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والےفوج اور قانون نافذ کرنے والےاداروں پر حملہ کرنے والےاغوا برائے تاوان کے مجرمغیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت فراہم کرنے والےمذہب اور فرقے کے نام پر ہتھیار اٹھانے والےکسی دہشت گرد تنظیم کے اراکینسول اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والےدھماکہ خیز مواد رکھنے یا کہیں لانے لے جانے میں ملوث افراددہشت اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے والےبیرونِ ملک سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والےSocial Media
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کرنل انعام الرحیم نے کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی میں دو ایسی شقیں موجود ہیں جن کے تحت سویلینز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے جن میں پہلی، سیکرٹ انفارمیشن اور دوسری کسی کو فوج کا آرڈر نہ ماننا اور فوج کے خلاف اکسانا شامل ہے۔ ’خاص کر جب فوج کو سویلین حکومت کی مدد کے لیے بلایا جائے، ان حالات میں فوج کو یہ اختیارات حاصل ہیں۔‘
ماضی میں فوج کی جیگ برانچ سے منسلک رہنے والے کرنل انعام کا کہنا تھا کہ پہلی شق کے مطابق اگر کوئی سویلین دشمن کو کوئی سیکرٹ انفارمیشن پاس آن کرتا ہے اور اس کے ثبوت موجود ہیں تو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اسے گرفتار اور فوج میں اس کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔
دوسری شق کے مطابق اگر کوئی شخص کسی کو فوجی کمانڈ کے خلاف بغاوت، فساد برپا کرنے کے لیے اشتعال دلانے، اُکسانے یا ترغیب یا تحریک دینے کا سبب بنے تو اس صورت میں بھی فوج اس کا ٹرائل ٹو وی ڈی کے تحت کر سکتی ہے ’چاہے ایسا کسی تقریر کے ذریعے ہی کیا گیا ہو، اگر اس سے فوج کے خلاف اکسانے کا تاثر بھی ملے تو اس صورت میں بھی اس شخص کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔‘
کرنل انعام رحیم کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی شخص تقریر میں کہتا ہے کہ فوج یا اپنی کمانڈ کا حکم نہ مانیں تو اس پر بھی یہ چارج لگے گا۔‘
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت اگر کسی شخص پر مسلح افواج کے کسی اہلکار کو بغاوت پر اُکسانے کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کی سزا موت ہے اور اس صورت میں بھی کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون کے تحت مجرم کو عمر قید یا دس سال قید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا ہے اور اس کے تحت کیا سزائیں دی جاسکتی ہیں؟
انعام الرحیم کے مطابق آرمی ایکٹ میں شامل آفیشل سیکرٹ ایکٹ برطانوی دورِ حکومت (سنہ 1923 ) میں بنایا گیا تھا اور تب سے چلتا آ رہا ہے۔
اس کے مطابق اگر کوئی دشمن یا کسی بھی شخص کو فوج سے متعلق کوئی خفیہ معلومات فراہم کرے تو اس ایکٹ کے تحت اس ملزم کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔
چند برس قبل انھیں خود بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا تاہم بعد میں ہائی کورٹ نے (احمد فراز والے فیصلے کی نظیر دیتے ہوئے) ان کے ٹرائل کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
کرنل انعام کا کہنا ہے چونکہ اس معاملے میں فوج کو سویلین حکومت کی مدد کے لیے بلایا گیا تھا اور جب فوج سویلین حکومت کی مدد کو آئے اس صورت میں فوج کو لا اینڈ آرڈر کے لیے کچھ اضافی اختیارات بھی مل جاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ سیکرٹ ایکٹ میں سیکشن 2 ون ڈی میں کسی سویلین کے ٹرائل کا پورا طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت: سب سے پہلے اس شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے پھر اسے سیشن جج کے پاس پیش کیا جاتا ہے جس کے بعد مقدمے کو ملٹری کورٹ میں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔
کرنل انعام کے مطابق اس میں سزاؤں کا انحصار جرم کی نوعیت پر ہے اور اس میں تین سال سے لے کر عمر قید اور سزائے موت تک کی سزائیں ہوسکتی ہیں۔
عسکری تنصیبات پر حملوں کے تناظر میں کرنل انعام نے بتایا کہ ان افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر ان مقامات پر حملے کا منصوبہ بنایا یا اس کی ہدایت جاری کی۔ ’اس صورت میں فوج کو ان سویلینز کے خلاف ٹو ون ڈی کے تحت ٹرائل کا اختیار حاصل ہے۔‘
کرنل انعام الرحیم مزید کہتے ہیں کہ یہاں سیکشن 59 اور 60 لگائے گئے ہیں اور سیکشن 60 کا مطلب ہے سہولت کاری یعنی اگر کوئی شخص جائے وقوعہ، اس شہر میں یا پاکستان میں موجود بھی نہیں ہے اور ملک سے باہر ہے لیکن وہ فوج کے خلاف اکسانے میں مدد کا باعث بنا ہے تو اس پر بھی ٹو ون ڈی کا اطلاق ہو گا۔
اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار کی بھٹو کو بھی اسی سہولت کاری کے جرم میں سزائے موت دی گئی تھی۔
BBCکیا سیکشن ٹو ون ڈی کے تحت دی گئی سزاؤں کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟
کرنل انعام کا کہنا ہے سیکشن ٹو ون ڈی میں پروسیجر فالو کرنا لازم ہو گا، یعنی ایف آر درج کرنے سے لے کر ثبوتوں کی موجودگی اور آرٹیکل 10 (اے) کے تحت ملزمان کو فیئر ٹرائل کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے اور اگر پروسیجر فالو نہیں ہوتا تو اسے ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ اگر ملک میں جوڈیشل سسٹم چل رہا ہو تو سویلینز کے مقدمات کو سول کورٹ میں بھیجے جانے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
کرنل انعام کہتے ہیں کہ یہاں یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے کہ ٹرائل ملٹری کورٹس کے ذریعے ہو گا یا سویلین عدالت کے ذریعے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ جوڈیشل سسٹم صحیح طرح کام نہیں کر رہا تو وہ مقدمات ملٹری کورٹس کو بھجوا سکتی ہے۔
ایسے مقدمات کو چیلنج کرنے کے حوالے سے مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جن تین سویلنز کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے دور میں سزائے موت دی گئی تھی انھیں ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا کیونکہ ان کے خلاف نہ تو ایف آئی آر درج تھی نہ انھیں کونسل تک رسائی دی گئی اور آرٹیکل 10 (اے) کے تحت یہ دونوں لازم ہیں۔
ماضی میں کن سویلینز کو ایسے مقدمات میں فوجی ٹرائل کے بعد سزائیں ہوئیں؟
ماضی میں ایسے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کرنل انعام کہتے ہیں کہ بے شمار سویلینز پر ایسے مقدمات درج کیے گئے جن میں سے کچھ کے کیسز ابھی تک ہائیکورٹ میں زیِرالتوا ہیں۔
اس کی حالیہ مثال میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری ہیں جنھیں جولائی 2021 میں پانچ برس قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی جسے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
حسن عسکری پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 2020 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔ انھوں نے اس خط کی نقول پاکستانی فوج کے متعدد جرنیلوں کو بھی بھیجی تھیں۔
حسن عسکری کے والد کی جانب سےلاہور ہائیکورٹ پنڈی بینچ میں دی گئی درخواست میں بتایا گیا تھا کہ ان پر مقدمہ گوجرانوالہ چھاؤنی میں چلا جہاں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے انھیں مجرم گردانتے ہوئے پانچ سال قید کی سزا سنائی۔
کرنل انعام بتاتے ہیں کہ حال ہی میں جنرل (ر) باجوہ کے دور میں 25 سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہوا اور ان میں سے تین کو سزائے موت جبکہ دیگر کو 10-14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
سنہ 2021 میں ایک فوجی عدالت نے سماجی کارکن ادریس خٹک کو جاسوسی کے الزام میں 14 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ادریس خٹک: سماجی کارکن کو 14 برس قید کی سزا
https://twitter.com/reema_omer/status/1658078174641799170?s=20
پاکستان میںسوشل میڈیا پرہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے سویلینز کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور اسے انسانی حقوق و بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزی اور غلط سمت میں ایک قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
وکیل ریما عمر کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کے فوجی ٹرائلز چاہے ان کے خلاف الزامات کتنے ہی خوفناک کیوں نہ ہوں، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کو عالمی سطح پر ظالم حکومتیں خوف اور جبر کے آلات کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
سماجی کارکن عمار علی جان نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم شہریوں کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی مزاحمت کریں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ جرنیل خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا چھوڑ دیں۔‘
ندا کرمانی کا کہنا ہے کہ مسلح افواج کے لیے بنائے گئے قوانین کا اطلاق کسی صورت میں بھی عام شہریوں پر نہیں ہونا چاہیے۔ ’ان قوانین کے ادریس خٹک اور دیگر کارکنوں کے خلاف استعمال ہونے پر ہم میں سے بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت کی، اور ہمیں اب اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ سیاسی وابستگی سے قطع نظر، یہ ایک خطرناک نظیر ہے اور اس کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔‘
https://twitter.com/BenazirJatoi/status/1658184702300127232?s=20
بیرسٹر بتول جتوئی کہتی ہیں کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو کبھی بھی عام شہریوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ سویلین عدالتوں کو کمزور کرے گا اور نہ صرف عدلیہ بلکہ تمام اداروں کے لیے خطرہ ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک خطرناک مثال قائم ہو گی۔ جو لوگ اس کی مزاحمت نہیں کریں گے وہ تاریخ کی غلط سائیڈ پر کھڑے ہوں گے۔‘
جبکہ صحافی شاہد اسلم کا کہنا ہے کہ فوجی تنصیبات اور گھروں پر حملے سنگین معاملہ ہے لیکن سویلین کو اس طرح آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کرنا کسی طور پر جائز نہیں۔ ’آپ کیسز بنائیں اور میرٹ پہ قصوروار لوگوں کو سزائیں دیں۔‘
’جمہوریت میں ہر شہری کو فیئر ٹرائل کا حق حاصل ہوتا ہے‘
اس حوالے سے بی بی سی بات کرتے ہوئے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں اسسٹنٹ پروفیسر آف لا مدیحہ طلعت اسے پاکستان کی تاریخ کا تاریک باب قرار دیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ فوجی ٹرائل سے سویلین افراد کا احتجاج کا حق کم سے کم ہوتا جائے گا۔ ’ہر شہری کو یہی ڈر لگا رہے گا کہ میرے کچھ کہنے یا کرنے سے مجھ پر ایک انتہائی جابرانہ قانون کا اطلاق ہو جائے گا۔۔۔ اور کسی جمہوری معاشرے میں ایک ملزم کو جو فئیر ٹرائل کے حقوق حاصل ہوتے ہیں، مجھے وہ بھی نہیں ملیں گے تو اس سے ایک ڈر اور ڈپریشن والا ماحول بنے گا۔‘
مدیحہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں فوجی قوانین کا ماضی بہت تاریک ہے۔ وہ کہتی ہیں کہفوجی قوانین بہت سنگین ہیں اور اس کی کئی وجوہات ہیں کہ یہ سویلینز پر لاگو نہیں ہوتے اور اگر فوجی قوانین میں ہر وہ خوبی موجود ہوتی جو سویلین قوانین کسی ملزم کو فراہم کرتے ہیں تو باقی ہر صورتحال میں بھی سویلینز پر ان کا اطلاق کیا جاتا۔
وہ سوال کرتی ہیں کہ ’ملک میں سویلین سائیڈ پر ہر قسم کے کریمینل قوانین موجود ہیں اور اس صورت میں مظاہرین کے خلاف انھیں استعمال نہ کرنے اور فوجی عدالتوں کے ذریعے ٹرائل کا کیا جواز ہے؟‘