’دی پاکستان وے‘: وہ جارحانہ حکمتِ عملی جو پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کے لیے اپنائی ہے

بی بی سی اردو  |  May 16, 2023

Getty Images

یہ ریال میڈرڈ اور مانچسٹر سٹی کے درمیان میچ کے آخری مراحل تھے جب چیمپئنز لیگ میں بہترین کارکردگی دکھانے والی ریال میڈرڈ کے مداحوں کو سنہ 2022 میں فائنل تک رسائی ناممکن دکھائی دے رہی تھی۔

اس وقت نوے منٹ کا کھیل ہو چکا تھا اور مانچسٹر سٹی کو میڈرڈ پر اس میچ میں ایک صفر، اور ایگریگیٹ سکور میں پانچ تین سے برتری حاصل تھی۔

تاہم ریال میڈرڈ کی ٹیم کو ’ٹیم آف ڈریمز‘ اور ’معجزے کرنے والی ٹیم‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے کوچ اینکلوٹی انھیں اس میچ سے قبل صرف اسی سیزن میں سات مرتبہ دوسری ٹیم کی برتری حاصل کرنے کے بعد کم بیک کر کے جیتنے کی ویڈیوز دکھا چکے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ اب بھی ٹیم میں یقین موجود تھا۔

اگلے 88 سیکنڈز میں جو ہوا، اس نے فٹبال کی دنیا کا سر چکرا دیا۔ ریال میڈرڈ کی جانب سے اتنے کم وقت میں لگاتار تین گول کیے گئے اور یوں یہ ٹیم ایک اور چیمپیئنز لیگ فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی اور بعد میں اس میں 14ویں دفعہ چیمپیئن بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔

کرکٹ کی دنیا میں ایسی ہی ’معجزے‘ اور ناقابلِ یقین پوزیشنز سے کم بیک کرنے والی ٹیم پاکستان کی ہے جس کی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ہے جب ایک موقع پر پاکستان کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات صرف چار فیصد تھے، تاہم پھر پاکستان نے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلا۔ اس کی سب سے مقبول مثال 1992 کے ورلڈ کپ کی دی جاتی ہے جب پاکستان نے ایک ناقابلِ یقین صورتحال سے کم بیک کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا تھا۔

Getty Images

تاہم یہ وہ واحد ون ڈے ورلڈ کپ ہے جو پاکستان اب تک جیت سکا ہے اور ون ڈے کرکٹ میں گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستانی ٹیم صرف ایک مرتبہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم مینجمینٹ نے ’دی پاکستان وے‘ کے نام سے ایک جارحانہ حکمت عملی اور کلچر میں تبدیلی متعارف کروائی ہے جو پاکستانی ٹیم اب سے اپنائے گی اور اس کے تحت ہی ورلڈ کپ 2023 میں کھیلے گی۔

یہ حکمتِ عملی پاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے گرانٹ بریڈبرن کو بطور کوچ تعینات کرنے کے اعلان کے ساتھ کی گئی ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مینیجر ریحان الحق پاکستان کرکٹ ٹیم اور ریال میڈرڈ کے درمیان مماثلت دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’چیمپیئنز لیگ فٹبال میں جیسے ریال میڈر ایک نئے لیول پر آ جاتی ہے کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ہم نے یہ پہلے بھی کیا ہے اور اب ہم یہ دوبارہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔

’اسی طرح پاکستانی ٹیم کی بھی یہ خاصیت ہے کہ انھیں جب بھی کارنر کیا جاتا ہے تو وہ بار بار اس میں سے نکل کر فتح حاصل کرتے ہیں، یہی چیز کھلاڑیوں کو باور کروانے کے لیے اور ان کی ذہنیت میں تبدیلی کے لیے ہم نے ’دی پاکستان وے‘ کی حکمتِ عملی متعارف کروائی ہے۔‘

ٹیم کلچر میں تبدیلی یا اس حوالے سے حکمتِ عملی کے لیے کوئی نئی اصطلاح کا سامنے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے متعدد سپورٹس ٹیمز اس طرح کی حکمتِ عملیاں اپنا چکی ہیں۔

اس بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ’دی پاکستان وے‘ ہے کیا اور اسے متعارف کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

Getty Imagesدی پاکستان وے کیوں متعارف کروائی جا رہی ہے؟

اس حوالے سے ہم نے پاکستان ٹیم ٹیم مینیجر ریحان الحق سے تفصیل سے بات کی ہے۔ ریحان الحق کو نیوزی لینڈ کے حالیہ دورہ پاکستان سے قبل پاکستان ٹیم کے ساتھ بطور ٹیم مینیجر تعینات کیا گیا ہے۔

تاہم ماضی کے ٹیم مینیجرز کے برعکس ریحان الحق کا ٹیم مینجمنٹ میں رول مختلف ہے۔ وہ ٹیم ڈائریکٹر مکی آرتھر، کوچ گرانٹ بریڈبرن کپتان بابر اعظم کے ساتھ مل کر حکمتِ عملیاں بنانے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ ریحان الحق پاکستان سپر لیگ کی ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ کے ٹیم مینیجر بھی جو اب تک دو پی ایس ایل ٹائٹل اپنے نام کر چکی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان کے ٹیم ڈائریکٹر مکی آرتھر ہیں جو اس وقت پاکستان ٹیم کے ساتھ ’پارٹ ٹائم‘ رول میں منسلک ہیں کیونکہ وہ ڈاربی شائر کے فُل ٹائم کوچ ہیں۔

پاکستان ٹیم کے اکثر موجودہ کھلاڑی سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کا بھی حصہ تھے اور اس وقت پاکستان ٹیم کے کوچ مکی آرتھر ہی تھے اور ان میں سے متعدد کھلاڑیوں نے اپنے کیریئرز کا آغاز مکھی آرتھر کی کوچنگ میں ہی کیا۔

اسی طرح کوچ بریڈبرن پاکستان ٹیم کے ساتھ مختلف رولز میں گذشتہ چند برسوں سے منسلک ہیں جبکہ ریحان الحق بھی پاکستان سپر لیگ کے ساتھ منسلک ہونے کے باعث ’کھلاڑیوں کی سوچ اور ٹیم کلچر‘ کے بارے میں جانتے ہیں۔

ریحان الحق کہتے ہیں کہ ’مکی آرتھر کا بہت واضح ہدف یہ ہے کہ اگر میچ صرف جیتنے کے لیے کھیلتے ہیں تو آپ تھوڑے وقت کے لیے تو میچ جیت سکیں گے، لیکن اس کا طویل مدتی فائدہ نہیں ہو گا۔

’آئیڈیا یہ ہے کہ ایک ایسی شناخت بنائی جائے جس سے ٹیم کو طویل مدتی فائدہ بھی ہو اور آج سے دو سال بعد اگر کوئی کھلاڑی ٹیم میں آئے تو اسے پتا ہو کو ان سے کیا چیز درکار ہو گی۔‘

Getty Images’کارنرڈ ٹائیگرز‘ سے کیا کتنا مختلف؟

ریحان کے مطابق ’دی پاکستان وے کا مطلب یہ ہے کہ کیونکہ پاکستانی قوم مشکل وقت کے باوجود ابھر کر سامنے آنے والی قوم ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب میں مشکل وقت میں کم بیک کرنے کی صلاحیت پہلے سے موجود ہے۔

’لیکن اس حکمتِ عملی کے تحت ہم چاہتے ہیں کہ ہم کارنر ہونے سے پہلے ہی جارحانہ انداز اپنائیں تاکہ ہم بڑے ٹورنامنٹس میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ یعنی جو جارحانہ انداز اور صلاحیت ہم کارنر ہونے کے بعد دکھاتے ہیں وہ ہم شروع سے ہی کیوں نہیں دکھا سکتے؟‘

خیال رہے کہ ’کارنرڈ ٹائیگرز‘ کی اصطلاح پاکستانی کرکٹ میں سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں سامنے آئی تھی جو پاکستان کے اس وقت کے کپتان عمران خان نے متعارف کی تھی۔ وہ ٹاس کے موقع پر ایک سفید شرٹ پہننے لگے تھے جس پر ٹائیگر بنا ہوا تھا۔

جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تھا تو انھوں نے بتایا تھا کہ ’ٹائیگر کو جب کارنر کیا جاتا ہے تو وہ مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ ہماری ٹیم کی مثال بھی ایک کارنرڈ ٹائیگر جیسی ہے کیونکہ ہمارے پاس اس وقت ہارنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘

بعد میں عاقب جاوید، وسیم اکرم اور رمیز راجہ سمیت دیگر کرکٹرز کی جانب سے دیے گئے انٹرویوز میں بھی اس اصطلاح کا استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس یقین کا بھی جو اس کے باعث ٹیم میں پیدا ہوا تھا۔

Getty Images’بابر اعظم جانتے ہیں کہ ٹیم سے کہاں اور کس موقع پر غلطیاں ہوئیں اور ان سب کو اس بات کا بھی علم ہے کہ یہ ٹیم پاکستان کی وائٹ بال کی سب سے عظیم ٹیم کے طور پر جانی جا سکتی ہے۔‘

تاہم ریحان کے مطابق یہ حکمتِ عملی دراصل اس کارنرڈ ٹائیگرز والی شناخت میں ارتقا کا عمل ہے۔ ’ہمیں معلوم ہے کہ ہم کارنر ہونے کے بعد اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں لیکن کیوں نہ ہم شروع سے ہی کارنر ہوں ہی نہ۔

’ہم کارنر اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ کھلاڑیوں میں ہارنے کا خوف ہوتا ہے یا ان کے ذہن میں حکمتِ عملی واضح نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ دفاعی انداز اپنا لیتے ہیں۔‘

ریحان الحق کا کہنا تھا کہ جب ہم جارحانہ حکمتِ عملی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے ہر گیند پر چھکا لگانا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو واضح ہو کہ اگر میں کوئی گیند کو چھوڑ رہا ہوں تو میں اس بارے میں واضح ہوں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حکمتِ عملی کے راتوں رات نتائج نہیں آئیں گے، اس میں وقت لگے گا۔

ریحان الحق کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند برسوں میں اس ٹیم کی بڑے ٹورنامنٹس میں ناک آؤٹ سٹیجز میں ہارنے کے زخم نے بھی اس شناخت کو جنم دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’بابر اعظم جانتے ہیں کہ ٹیم سے کہاں اور کس موقع پر غلطیاں ہوئیں اور ان سب کو اس بات کا بھی علم ہے کہ یہ ٹیم پاکستان کی وائٹ بال کی سب سے عظیم ٹیم کے طور پر جانی جا سکتی ہے۔

’سب کھلاڑیوں اور ٹیم مینجمینٹ نے بیٹھ کر وہ تمام اہداف بتائے جو ہمیں لگتا ہے کہ ہم حاصل کر سکتے ہیں اور اس حکمتِ عملی میں تمام افراد آن بورڈ ہیں۔ ہمارے پاس چیمپیئن پلیئرز موجود ہیں، ہمیشہ سے ہیں، ہمارا مقصد انھیں ایک چیمپیئن ٹیم بنانا ہے۔‘

Getty Imagesبوسٹن سیلٹکس کی ’اوبنٹو‘، امریکی باسکٹ بال کی ’دی ریڈیم ٹیم‘

خیال رہے کہ ٹیموں کی شناخت اور ان کے کلچر اور اقدار بنانے کے لیے دنیا بھر میں کوچنگ سٹاف اور ٹیم مینجمینٹ ہر سال کسی نئی حکمتِ کے ساتھ سامنے آتی ہے۔

ایسی حکمتِ عملی کی خاص طور پر اس وقت ضرورت پیش آتی ہے جب کوئی ٹیم ایک طویل عرصے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ ایسی ہی ایک ٹیم امریکہ کی مشہور باسکٹ بال لیگ این بی اے کی بوسٹن سیلٹکس تھی سنہ 2008 سے قبل 20 برس سے کوئی بھی این بی اے ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔

ان کے کوچ گلین ’ڈاک‘ رورز اس ٹیم کے لیے ایک ایسی حکمتِ عملی لے کر آئے جو جنوبی افریقہ میں نسل امتیاز کے عروج پر نیلسن منڈیلا نے اپنایا تھا جس کے بعد سے وہاں امن آیا تھا۔ اسے ’اوبنٹو‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے تحت تمام افراد کو یکجہتی دکھانے اور ایک دوسرے کا کسی بھی مشکل صورتحال میں ساتھ نہ چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔

یوں اوبنٹو اس ٹیم کی سنہ 2008 کی مہم کا حصہ بنا اور کھلاڑی ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگے اور یوں فائنل میں ایک موقع پر جب مخالف ٹیم لیکرز کو کم بیک کے نتیجے میں ہرانے میں کامیاب اور 20 سالوں میں پہلی مرتبہ ٹائٹل جیت سکے۔

اسی طرح باسکٹ بال کی امریکی ٹیم نے اولمپکس میں سنہ 2008 میں اپنی ریڈیم ٹیم اتاری تھی۔ اس ٹیم کو ماضی میں شکست کھانے کے بعد امریکی باسکٹ بال ٹیم کا کھویا ہوا وقار واپس لانے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس وقت بھی ٹیم میں ایسی ہی شناخت اور جارحانہ حکمتِ عملی اپنائئ گئی تھی۔

کرکٹ کی بات کی جائے تو آسٹریلوی ٹیم کی جانب سے سنہ 2018 میں بال ٹیمپرنگ سکینڈل جسے بعد میں ’سینڈ پیپر گیٹ‘ کا نام دیا گیا تھا کے بعد ’ایلیٹ آنیسٹی‘(دیانت داری) کی شناخت یا اقدار سامنے آیا تھا جو اس وقت کے کوچ جسٹن لینگر کی جانب سے سامنے آیا تھا۔

اس تنازع کے نتیجے میں تین آسٹریلوی کھلاڑیوں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم اس اصطلاح پر میڈیا میں خاصی تنقید دیکھنے میں آئی تھی۔

اسی طرح انگلینڈ کی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ گذشتہ برس متعارف کروائی گئی جارحانہ حکمتِ عملی نے ٹیسٹ کرکٹ کے کھیل کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اسے ٹیم کی جانب سے تو کوئی نام نہیں دیا گیا تھا، تاہم میڈیا میں اسے کوچ برینڈن مکلم کے نک نیم پر ’بیز بال‘ کا نام دیا گیا۔

’دی پاکستان وے‘ کس حد تک پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھیل میں تبدیلی لائے گی، یہ جاننے کے لیے فی الحال کچھ انتظار کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان کی مستقبل قریب میں کوئی وائٹ بال سیریز نہیں ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More