جاسوسی کے الزام میں قید آٹھ سابق انڈین نیوی افسران کا معاملہ انڈیا اور قطر کے تعلقات کو کیسے چیلنج کر رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  May 12, 2023

Getty Imagesقطر کی جیل میں قید انڈین شہری قطری بحریہ کے لیے کام کرنے والی کمپنی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے

یہ 30 اگست 2022 کی رات کی بات ہے جبقطر میں کام کرنے والے انڈین بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو وہاں کی انٹیلیجنس کے افسران نے گرفتار کیا۔ گرفتاری کے اِس ڈرامائی واقعہ کے بعد انھیں دوحہ کی جیل میں باقی قیدیوں سے الگ رکھا گیا۔

جیل میں بند یہ انڈین شہری قطر کی بحریہ کے لیے کام کرنے والی ایک کمپنی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ان میں انڈین نیوی کے تین ریٹائرڈ کپتان، چار کمانڈر اور ایک ملاح (سیلر) شامل ہے۔

جیسا کہ انڈیا کے ایک سابق سفارتکار کا کہنا ہے’ان لوگوں کو گذشتہ نو ماہ سے خونخوار مجرموں کی طرح قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔‘

حیرت کی بات یہ ہے کہ قطر کی حکومت نے سرکاری طور پر انھیں حراست میں لینے کی کوئی وجہ اب تک نہیں بتائی ہے لیکن مقامی اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق گرفتار انڈین شہریوں پر الزام ہے کہ انھوں نے قطر کے انتہائی حساس اور خفیہ آبدوز منصوبے سے متعلق حساس معلومات اسرائیل کے ساتھ شیئر کی ہیں۔

قطر میں اس نوعیت کے جاسوسی کے الزامات ثابت ہونے پر سزائے موت سُنائی جاتی ہے۔ جیل میں بند یہ انڈین شہری ’داہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنگ سروسز‘ نامی قطری کمپنی میں کام کرتے تھے۔

یہ کمپنی آبدوز پروگرام پر عملدرآمد کے لیے قطر نیوی کے لیے کام کر رہی تھی۔ اس پروگرام کا مقصد ایسی ہائی ٹیک اطالوی ٹیکنالوجی پر مبنی آبدوزوں کا حصول تھا جو ریڈار پر نہیں آتیں۔

گذشتہ ہفتے قطر نے اس کمپنی کو بند کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کے تقریباً 70 ملازمین کو مئی کے آخر تک ملک چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان ملازمین میں سے زیادہ تر انڈین بحریہ کے سابق افسران اور اہلکار تھے۔

انڈین شہریوں کی گرفتاری سے نہ صرف انڈیا اور قطر کے تعلقات میں تلخی آئی ہے بلکہ اپنے گرفتار شہریوں کو بحفاظت وطن واپس لانا بھی مودی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

Getty Imagesانڈین نیوی کے سابق افسران کی گرفتاری سے انڈیااور قطر کے تعلقات میں تلخی آئی ہے انڈین شہریوں کو واپس لانا کتنا بڑا چیلنج ہے

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ویسٹ ایشیئن سٹڈیز کے پروفیسر اے کے پاشا کہتے ہیں کہ ’یہ معاملہ انڈیا کی حکومت کے لیے ایک بڑا درد سر اور ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔‘

اٹلی اور رومانیہ میں انڈیا کے سفیر رہنے والے راجیو ڈوگرا نے اعتراف کیا کہ ’انڈینشہریوں کے خلاف مقدمات ختم کروانا اور ان کی وطن واپسی یقینی بنانا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔‘

راجیو ڈوگرہ 1980 کی دہائی کے آخر میں قطر میں انڈین سفارت خانے میں سفارتکار تعینات رہ چکے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’گرفتار کیے گئے انڈین شہری اہم لوگ ہیں۔ انھوں نے ساری زندگی انڈین بحریہ میں خدمات سرانجام دیں۔ ان کے اہلخانہ کو امید ہے کہ انڈین حکومت انھیں وطن واپس لائے گی۔‘

جارجیا اور آرمینیا میں سفارتکاری کے فرائض سرانجام دینے والے انڈیا کے سابق سفیر اچل ملہوترا کا کہنا ہے کہ انڈین شہریوں کی رہائی کو یقینی بنانا اور انھیں وطن واپس لانا حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔

اچل ملہوترا کا کہنا ہے کہ ’یہ حکومت ہند کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ انھیں سفارتخانے سے مناسب قانونی اور دیگر مدد ملے۔‘ آصف شجاع نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں سینیئر ریسرچ فیلو ہیں اور وہ اس معاملے کو حکومت ہند کے لیے کوئی چیلنج نہیں سمجھتے۔

وہ قید انڈین شہریوں کے مستقبل کے بارے میں بھی فکر مند نہیں ہے کیونکہ انھیں یقین ہے کہ ان لوگوں کو رہا کر دیا جائے گا۔

ایک جانب اگر قطر کی حکومت اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے تو دوسری جانب حکومت ہند نے بھی کُھل کر کچھ نہیں کہہ رہی ہے۔

حال ہی میں جب وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے صرف اتنا کہا کہ ’میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم سفارت خانےکے ذریعے ان زیر حراست انڈین شہریوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ہم قطری حکام سے بھی رابطے میں ہیں اور دوحہ میں ہمارا سفارتخانہ گرفتار افراد کے اہلخانہ سے رابطے میں ہے۔ قطر حکومت کی جانب سے الزامات کا انکشاف نہ کرنے کی وجہ سے قید میں رہنے والے انڈین شہریوں کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، جس سے اُن کے گھر والوں کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔

مارچ کے آخر میں پہلی عدالتی سماعت کے بعد 3 مئی کو ہونے والی دوسری سماعت میں استغاثہ کو ان الزامات کو پیش کرنا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انڈیا کے سفارتخانے کی جانب سے مقرر کردہ وکیل نے استغاثہ سے کہا کہ وہ الزامات کی دستاویزات اور تفصیلات شیئر کریں تاکہ گرفتار افراد کے دفاع کے لیے تیاری کی جا سکے۔ قطر کی عدالت نے اس معاملے میں سماعت کے لیے کوئی نئی تاریخ نہیں دی ہے۔

Getty Imagesایسے بین الاقوامی معاملات میں پہلے کیا ہوا؟

کلبھوشن جادھو کیس: کلبھوشن کو پاکستان نے دہشت گردی اور جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور انھیں 2017 میں پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔

انڈیا کلبھوشن جادھو کی جانب سے انڈیا کے لیے پاکستان میں جاسوسی کرنے کے الزام کی تردید کرتا ہے۔ انڈیا نے پاکستان پر الزام لگایا کہ کلبھوشن جادھو کو ایران سے اغوا کیا گیا تھا جہاں وہ کاروباری دورے پر تھے۔

اس معاملے پر انڈیا نے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جس پر عالمی عدالت نے پاکستان سے کہا کہ وہ کلبھوشن جادھو کو قانونی مدد اور ملاقات کے مواقع فراہم کرے۔

راجیو ڈوگرا، جو کراچی میں انڈین سفارتکار رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان کو اب تک جادھو کو رہا کر دینا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک کلبھوشن جادھو کی وطن واپسی کا تعلق ہے، پاکستان کو بین الاقوامی عدالت کی بھی پروا نہیں، ورنہ وہ اس فیصلے کے فوراً بعد جادھو کو رہا کر دیتا۔‘

عراق میں یرغمال بنائے گئے دو انڈین شہریوں کی رہائی: راجیو ڈوگرہ ایک ایسے کیس کے بارے میں جانتے ہیں جو 1990 کی دہائی کا ہے۔ اس وقت عراق میں دو انڈین شہریوں کو اغوا کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے یاد ہے جب عراق میں دو انڈین شہریوں کو اغوا کیا گیا تو قطر کی شرعی عدالت کے سربراہ نے مداخلت کی اور دونوں کو رہا کر دیا گیا۔‘

برطانوی نرسوں کی واپسی: سنہ 1997 میں دو برطانوی نرسوں کو سعودی عرب میں ایک آسٹریلوی نرس کے مبینہ قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ پھر سعودی حکومت نے برطانوی حکومت کے دباؤ میں آکر بالآخر نرسوں کو رہا کر دیا اور انھیں واپس برطانیہ بھیج دیا گیا۔

جنگ زدہ ممالک میں پھنسے شہریوں کی وطن واپسی : مصیبت کے وقت اپنے شہریوں کو وطن واپس لانے کا انڈیا کا ٹریک ریکارڈ قابل ستائش رہا ہے۔

سنہ 1990-91 میں کویت پر عراقی حملے کے دوران وہاں پھنسے ہوئے انڈین شہری ہوں یا یوکرین میں پھنسے ہوئے طلبا ہوں یا پھر حال ہی میں سوڈان میں پھنسے ہوئے لوگ ہوں، انڈیا ہمیشہ ان کو وطن واپس لانے میں کامیاب رہا ہے۔

کیا قانونی امداد اور قونصل خانے کی مدد کافی ہے؟

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جیلوں میں بند شہریوں کو عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اچھے وکیل فراہم کرے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہو گا۔

27 لاکھ سے کم آبادی والا ملک قطر انڈیا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن یہ کمزور اور طاقتور کے درمیان مقابلہ نہیں ہے۔ ماضی میں قطر نے سعودی عرب جیسے بڑے اور طاقتور ملک کو کانٹے کی ٹکر دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قطر امریکہ کے بہت قریب ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنے طاقتور دوست سے نہیں ڈرتا۔

سنہ 2001 میں افغانستان پر حملے کے دوران اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے قطری امیر (قطر کے سربراہ) سے عربی چینل ’الجزیرہ‘ کے بارے میں شکایت کی تھی، جسے قطری حکومت کی حمایت یافتہ کنسورشیم چلاتا ہے۔

جس پر قطر کے امیر نے جواب دیاتھا کہ جس طرح امریکی صدر سی این این نیوز کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے اسی طرح وہ الجزیرہ چینل کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔

ابھی حال ہی میں قطر کا امیج اس وقت مزید مضبوط ہوا جب اس نے گذشتہ سال فیفا ورلڈ کپ کا کامیاب انعقاد کیا۔

حال ہی میں بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں بیان پر انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنانے والی قطر حکومت کی آواز خلیجی ممالک کی سب سے بڑی آوازوں میں سے ایک تھی۔

پروفیسر اے کے پاشا کہتے ہیں، ’تعلقات میں دراڑ آ گئی ہےاور نوپور شرما کیس کے بعد دراڑیں نظر آنا بھی شروع ہو گئی ہیں۔ نوپور شرما کیس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی اعلیٰ سطح کا دورہ نہیں ہوا ہے۔‘

کیا انڈیا قطر تعلقات میں تبدیلی آئی ہے؟

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’حالیہ برسوں میں خلیجی ممالک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات پہلے سے بہتر ہوئے ہیں، خاص طور پر قطر کے ساتھ۔ پہلے تعلقات اتنے گہرے نہیں تھے جتنے کہ حال ہی میں قائم ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر اور انڈین مسلمانوں پر وہاں اتار چڑھاؤ آئے ہیں، کشیدگی بھی رہی ہے۔‘

سنہ 2023 میں انڈیا اور قطر کے دو طرفہ تعلقات کے 50 سال مکمل ہونے پر جشن ہونے والا تھا، اس کے بجائے، دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بے چین خاموشی اور ظاہری کشیدگی ہے۔

انڈیا اور قطر اب بھی گہرے دوست ہیں۔ گذشتہ سال ان کی باہمی تجارت 15 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔ انڈیا اپنی گیس کی ضرورت کا 40 فیصد قطر سے درآمد کرتا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی 2016 میں قطر کے سرکاری دورے پر گئے تھے اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کئی بار قطر کا دورہ کر چکے ہیں۔ لیکن تعلقات میں جو گرمجوشی تھی وہ فی الحال غائب ہے۔

حال ہی میں صرف مبارکبادوں کا تبادلہ ہوا تھا جب پی ایم مودی نے فیفا ورلڈ کپ کے بعد قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو فون کیا اور بات کی۔اس کے بعد امیر قطر نے انڈین وزیراعظم کو دیوالی کی مبارکباد بھیجی تھی۔

اس وقت وہ 2023 میں دوطرفہ تعلقات کے 50 سال مشترکہ طور پر منانے پر متفق ہوئے تھے۔

انڈیا کے پاس اور کیا متبادل ہے؟

سابق سفارتکار اچل ملہوترا کا مشورہ ہے کہ حکومت ہند کو دو جہتی حکمت عملی پر عمل درآمد کرنا چاہیے، پہلا قانونی اور دوسرا سیاسی، اور دونوں پر ایک ساتھ عمل کرنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں، ’پہلا مرحلہ قانونی عمل ہے۔ اس مرحلے میں ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم انہیں بہترین قانونی مدد فراہم کریں اور ان کی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کریں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ کیا ہم قطر کی کسی معاملے میں مدد کر سکتے ہیں، کیا ہم کسی چیز کے لیے ان کی حمایت کر سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں اس آپشن پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ اگر ہم انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیں تو وہ انڈینز کو رہا کر سکتے ہیں۔

’دوسرے لفظوں میں، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم انڈینز کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں‘۔

سابق سفارت کار راجیو ڈوگرا چاہتے ہیں کہ قطر اپنی بڑے پیمانے پر ترقی میں انڈیا کے تعاون کی تعریف کرے اور قید انڈینز کے معاملے میں مزید لچک دکھائے۔

وہ کہتے ہیں، ’میں قطر کے لیڈروں کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ بڑی تصویر دیکھیں، انڈیا-قطر تعلقات، قطر کی کامیابی میں انڈیا کا تعاون۔ کیا قطر ان چیزوں کو نظر انداز کر سکتا ہے۔‘

راجیو ڈوگرا کو شبہ ہے کہ یہ پورا واقعہ انڈیا اور قطر کے مضبوط باہمی تعلقات کو خراب کرنے کی سازش ہے۔

وہ کہتے ہیں ’دیکھو، میں قطر میں اس وقت انڈیا کا سفارت کار تھا جب وہ ملک گمنامی سے باہر آ رہا تھا وہ 80 کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ شرعی عدالت کے سربراہ سے لے کر ملک کے امیر تک میری رسائی تھی۔ اسی لیے سوچتا ہوں کہ تعلقات اس حد تک کیسے کمزور ہو گئے ہیں، کیا کسی نے انڈیا کے خلاف امیر قطر کے کان نہیں بھرے؟‘

Getty Imagesکیا قطر کو انڈیا پر جاسوسی کا شبہ ہے

وہ مزید کہتے ہیں، ’ایسے لوگ ہیں جو نہیں چاہیں گے کہ انڈینز قطر میں کسی حساس پراجیکٹ پر کام کریں۔ آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ انڈینز کو پھنسایا گیا ہے۔‘

آصف شجاع نے قطر کو بڑی تصویر دیکھنے کا مشورہ بھی دیا۔ وہ کہتے ہیں، ’بڑی تصویر جغرافیائی سیاست کی ہے۔ قطر اور ایران قریب ہیں۔ ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ انڈیا اور اسرائیل قریب ہیں، لیکن انڈیا کے ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ اسرائیل پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ اگر اسرائیل کچھ کر رہا ہے تو اس میں انڈیا کا کوئی ہاتھ نہیں ہو سکتا۔‘

پروفیسر پاشا قطر کے اس سخت موقف کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’قطر کو جاسوسی میں انڈیا کا ہاتھ ہونے کا شبہ ہے۔¬

ان کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل اس آبدوز کے منصوبے میں بہت دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ قطر ایران کا اچھا دوست ہے اور اسرائیل کو شبہ ہے کہ ایران اس آبدوز میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اسرائیل براہ راست جاسوسی نہیں کر سکتا، اس لیے قطر کا خیال ہے کہ اس کام کے لیے انڈین اہلکار استعمال کیے گئے تھے۔یہ افسران قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے بعد اس منصوبے سے منسلک ہوئے تھے، اس لیے قطر کو انڈین حکومت پر شک ہے‘۔

لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کمپنی کو چلانے والے عمان کے ایک شہری نے آٹھ سال قبل بحریہ کے افسران کو نوکریاں دی تھیں۔ اس عمانی شہری کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ عمان کا یہ شہری آبدوز کا منصوبہ چلا رہا تھا۔ تاہم بعد میں اسے رہا کر کے عمان واپس بھیج دیا گیا۔

اچل ملہوترا کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اس معاملے میں حکومت ہند کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ان کے مطابق گرفتار انڈین شہری نہ تو حکومت ہند کے ملازم تھے اور نہ ہی دوحہ میں انڈین سفارت خانے سے منسلک تھے۔

انہوں نے کہا، ’ان کی ذمہ داری حکومت ہند کی نہیں ہے۔ لیکن وہ انڈین شہری ہیں، اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں ویانا کنونشن کے تحت تمام سہولیات فراہم کریں اور انہیں انڈیا واپس لانے کی کوشش کریں‘۔

Getty Imagesیہ اہلکار آبدوز کے منصوبے پر کام کر رہے تھےکیا پی ایم مودی کو مداخلت کرنی چاہیے؟

آصف شجاع مثبت نتائج کے بارے میں پر امید ہیں اور کہتے ہیں کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی براہ راست مداخلت سامنے نہیں آئے گی۔ ان کا خیال ہے تاریخ میں کہ قطر نے ہمیشہ انڈیا کا ساتھ دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب نریندر مودی نے 2016 میں قطر کا دورہ کیا تھا، تو قطر نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر جیل میں بند 23 انڈینز کو رہا کیا تھا۔ پی ایم مودی نے اس کے بارے میں ٹوئٹ بھی کیا تھا۔ تو ہمارے پاس اس کی مثال موجود ہے‘۔

سابق سفارت کار راجیو ڈوگرا کا بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کی جانب سے مداخلت کرنے کا یہ صحیح وقت نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’مجھے نہیں لگتا کہ وزیر اعظم سے مداخلت کی توقع کی جانی چاہیے، ہمیں ہر چیز میں وزیر اعظم کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے سفارتی چینل، وزارتی چینل کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ جب آپ کسی ملک سے مدد مانگنے پر مجبور ہوں تو ہمیں وزیر اعظم کے پاس جانے سے پہلے تمام راستے تلاش کرنے چاہئیں‘۔

اچل ملہوترا کے مطابق اس معاملے میں وزیر اعظم کی مداخلت کے لیے جلد بازی نہیں کی جانی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، قانونی عمل ابھی شروع ہوا ہے۔ اب کوئی جلدی نہیں ہے‘۔ ساتھ ہی وہ محسوس کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کی مدد لینا ایک مشکل معاملہ ہو سکتا ہے۔

اچل ملہوترا کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بڑا سوال ہے کہ کیا وزیر اعظم قطر سے مدد مانگیں گے؟ اگر قطر نے جواب نہیں دیا تو اس سے ان کی عالمی گرو کی شبیہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘۔

مقدمے کی سست رفتاری کا مطلب جیل میں بند انڈینز کے لواحقین کا طویل انتظار ہے اور یہ حکومت ہند کے صبر کا امتحان بھی ہے۔ اگر مودی حکومت انہیں ملک واپس لانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More