روس کے ’جاسوس جہاز‘ جو کشیدگی کی صورت میں بحیرہ شمالی میں ’تخریبی کارروائیاں کر سکتے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Apr 20, 2023

حال ہی میں منظر عام پر آنے والے کچھ نئے الزامات کے مطابق روس نارتھ سی، یعنی بحیرۂ شمالی میں مغربی ممالک کے ’وِنڈ فارمز‘ اور زیر سمندر مواصلاتی نظامکو درہم برہم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

ان الزامات کی تفصیلات ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور فن لینڈ کے سرکاری ریڈیو کی مشترکہ تحقیقات میں سامنے آئی ہیں۔

ان ذرائع ابلاغ کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس کے پاس بحیرۂ شمالی میں ماہی گیری کرنے والے ٹرالرز اور سائنسی تحقیق کرنے والے بحریجہازوں کا ایک بیڑا موجود ہے۔

روس ان ٹرالرز اور جہازوں کے ذریعے ایسے آلات استعمال کر رہا ہے جن سے زیر آب نگرانی کی جاتی ہے۔ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق روس بحیرۂ شمالی میں ان مقامات کے نقشے بنا رہا ہے جہاں وہ تخریب کاری کر کے یورپی ممالک کے مواصلاتی نظام کو تباہ کر سکتا ہے۔

بی بی سی کے خیال میں برطانوی حکام اس بات سے باخبر ہیں کہ روسی بحری جہاز برطانیہ کے پانیوں میں گھوم رہے ہیں۔

یورپی نشریاتی اداروں کی مشترکہ تحقیق پر مبنی رپورٹوں کی پہلی قسط بدھ 19 اپریل کو ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور فن لینڈ کے سرکاری سٹیشنوں سے نشر کی گئی ہے۔

ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ اگر روس اور مغربی ممالک کے درمیان براہ راست تصادم شروع ہو جاتا ہے تو روس بحیرۂ شمالی میں تخریب کاری کر سکتا ہے اور وہ اس حوالے سے تیاری کر رہا ہے۔ ناروے کی انٹیلیجنس سروس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ روس کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے اور اسے براہ راست ماسکو سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔

Getty Imagesذرائع کے مطابق کشیدگی میں اضافے کی صورت میں روس مغربی ممالک کے توانائی کے ذرائع کو درہم برہم کر سکتا ہے

یورپی نشریاتی اداروں کا کہنا ہے کہ اپنی تحقیق میں انھوں نے روسی مواصلات کا تجزیہ کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف روسی بحری جہاز بحیرۂ شمالی کے پانیوں میں گھوم رہے ہیں لیکن انھوں نے اپنے ٹرانسمیٹرز یا پیغام رسانی کے آلات بند کیے ہوئے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مغربی ممالک کو معلوم نہ ہو کہ روسی بحری جہاز کہاں پر ہیں۔

اس رپورٹ میں خاص طور ’ایڈمرل ولادیمیرسکی‘نامی روسی بحری جہاز پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ یہ جہاز ایک تحقیقی مہم پر نکلا ہوا ہے ، لیکن رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ دراصل وہ جہاز ہے جو اس علاقے میں جاسوسی کر رہا ہے۔

ذرائع ابلاغ نے اپنی خفیہ تحقیقکے لیے برطانوی بحریہ کے ایک سابق افسر کی خدمات حاصل کی تھیں جس نے برطانیہ اور نیدرلینڈز کے ساحلوں کے قریب وِنڈ فارمز کے آس پاس ایڈمرل ولادیمیرسکی کی نقل و حرکت کا سراغ لگایا ہے۔

تحقیق کے مطابق بحیرۂ شمالی میں چکر لگاتے ہوئے جب یہ روسی جہاز ان علاقوں کے قریب پہنچتا ہے جہاں وِنڈ ٹربائنز موجود ہیں تو اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ ریٹائرڈ افسرکا کہنا ہے کہ جہاز ایک ماہ تک اپنا ٹرانسمیٹر بند کر کے ان علاقوں میں گھومتا رہا۔

تحقیق کے مطابق جب ایک چھوٹی کشتی پر سوار رپورٹر جہاز کے قریب پہنچا تو اس کا سامنا ایک نقاب پوش شخص سے ہوا جس کے پاس فوجی بندوق تھی۔

اسی جہاز کو مبینہ طور پر گذشتہ سال سکاٹ لینڈ کے ساحل پر بھی دیکھا گیا تھا۔ اسے 10 نومبر کو مورے فرتھ کے سمندری راستے میں داخل ہوتے اور پھر اسے لوسی ماؤتھ سے تقریبا 30 ناٹیکل میل مشرق میں دیکھا گیا تھا۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ برطانوی حکام روس کے اس ارادے سے آگاہ ہیں کہ وہ زیر سمندر نقشہ سازی کرنا چاہتا ہے، جس میں برطانیہ کے پانیوں میں گھومنے والی روسی کشتیاںبھی استعمال کی جا رہی ہیں۔

برطانوی حکام کا کہنا تھا کہ اگر برطانیہ کو روسی جہازوں کی نقل وحمل سے کوئی خطرہ ہوتا ہے تو برطانیہ اس کا کھوج لگائے گا ، تاہم ذرائع نے یہ بتانے سے انکار کردیا کہ اب تک روسی جہازوں کی کس قسم کی سرگرمی کو دیکھا گیا ہے۔

دوسری جانب نیدرلینڈز کے خفیہ ادارے نے فروری میں روسی جہازوں کی غیرمعمولی سرگرمی کے حوالے سے خبردار کیا تھا اور اس نقل وحمل کو بین الاقوامی سمندی حدود میں ممکنہ خلل اندازی یا کسی تخریبی کاری کی تیاری کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ اس وقت ملک کی ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ نے کہاتھا کہ ایک وِنڈ فارم کے قریب ایک روسی بحری جہاز کا سراغ لگایا گیا ہے جو کچھ مقامات کی نقشہ سازی کر رہا ہے۔

جنرل جان سولیز نے کہا تھا کہ ’ہم نے حالیہ مہینوں میں دیکھا ہے کہ روسی جہاز یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ بحیرۂ شمالی میں سمندری ہواؤں سے توانائی پیدا کرنے والا نظام کس طرح کام کرتا ہے۔ یہ چیز ہم نے پہلی مرتبہ دیکھی ہے۔‘

کسی بھی ملک کے حساس مقامات کی جاسوسی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اور مغربی ممالک بھی ممکنہ طور پر روس کے خلاف اسی قسم کی کارروائیاں کرتے ہیں۔لگتا ہے کہ دونوں فریق چاہتے ہیں کہ اگر روس اور مغرب کے درمیان حالات خراب ہو جاتے ہیں ان کے پاساس کا کوئی توڑ ہونا چاہیے۔

تنازعہبڑھنے کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ روسمغربی ممالک کے مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچائے یا افراتفری پھیلانے کے لیے ان ممالک کے بجلی کے نظام کو تباہ کر دے۔

لیکن ابھی تک مغربی ممالک کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ روس عملی طور کوئی تخریب کاری کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس 13 اپریل کو ناروے نے جاسوسی کے الزام میں 15 روسی حکام کو ملک بدر کر دیا تھا۔ فروری 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے یورپ سے روسی حکام کی بے دخلی کا یہ پہلا واقعہ تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More