Getty Imagesایئر انڈیا کا بوئنگ ڈریم لائنر787 طیارہ 12 جون کو احمد آباد سے لندن کے گیٹوک ہوائی اڈے کے لیے اڑا تھا
ایئر انڈیا طیارے کے احمد آباد میں حادثے کے پورے ایک ماہ بعد اس کی ابتدائی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔
12 جون کو ہونے والے حادثے میں حکام کے مطابق کم از کم 260 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور یہ انڈیا میں کئی دہائیوں کے بدترین ہوابازی کے حادثے میں سے ایک ہے۔
اس حادثے کی تحقیقات کرنے والے انڈین ادارے ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹیگیشن بیورو (اے اے آئی بی) کی ابتدائی رپورٹ میں طیارے کے حادثے کی اصل وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن ابھی بھی بہت سے سوالات کے جواب طلب ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طیارے کے دونوں فیول کنٹرول سوئچز، جو انجنوں کو بند کر دیتے ہیں، طیارے کے ٹیک آف کرتے ہی ’کٹ آف‘ پوزیشن میں رکھ دیے گئے تھے۔
کاک پٹ کی آواز کی ریکارڈنگ میں ایک پائلٹ دوسرے سے پوچھتا ہے کہ اس نے کیوں کٹ آف کیا؟
جواب میں دوسرے پائلٹ نے کہا کہ اس نے ایسا نہیں کیا۔ رپورٹ میں یہ واضح نہیں کہ آواز کس پائلٹ کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دوران پرواز شریک پائلٹ طیارہ اڑا رہے تھے جبکہ کپتان نگرانی کر رہے تھے۔
ایئر انڈیا کے ترجمان نے کہا ہے کہ کمپنی تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔
جہاز پر سوار 242 افراد میں صرف ایک مسافر یعنی برطانوی شہری وشواس کمار رمیش طیارے میں بنے ایک کھلے حصے سے کرشمائی طور پر باہر نکل کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے باقی تمام 241 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ مزید مرنے والے افراد اس عمارت میں تھے جس سے طیارہ ٹکرایا تھا۔
اس رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ جب ایئر انڈیا کی پرواز 171 مغربی انڈین شہر احمد آباد میں ایک گنجان آباد رہائشی علاقے سے ٹکرا گئی تو اس میں کم از کم پانچ عمارتیں تباہ ہو گئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’طیارہ زمین پر عمارتوں کے ساتھ ٹکرانے اور بعد میں آگ لگنے کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔‘
بی بی سی نے پہلے اطلاع دی تھی کہ احمد آباد میں ہوائی اڈے کے باہر میڈیکل طلباء کے ہاسٹل میں طیارہ گرنے اور گر کر تباہ ہونے کے بعد زمین پر موجود تقریباً 30 افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔
Reutersرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طیارہ حادثے میں پانچ عمارتیں بھی تباہ ہوئی ہیںحادثہ سے پہلے کیا ہوا؟
15 صفحات پر مشتمل ابتدائی رپورٹ کے مطابق ’طیارے (ایغر انڈیا فلائٹ 171) نے دوپہر 1:38:42 پر 180 ناٹ کی زیادہ سے زیادہ ریکارڈ شدہ رفتار حاصل کی اور اس کے فوراً بعد، انجن 1 اور انجن 2 کے فیول کٹ آف سوئچ ایک ایک کرکے رن سے کٹ آف پوزیشن پر چلے گئے، ان کے درمیان 1 سیکنڈ کا وقفہ تھا۔‘
اس کے بعد ’کاک پٹ کی ساؤنڈ ریکارڈنگ میں ایک پائلٹ کو دوسرے سے پوچھتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ اس نے کیوں کٹ آف کیا، دوسرے پائلٹ نے جواب دیا کہ اس نے نہیں کیا۔‘
تقریباً 10 سیکنڈ بعد انجن 1 کا فیول سوئچ ’کٹ آف‘ سے ’رن‘ موڈ میں چلا گیا۔ پھر چار سیکنڈ بعد انجن 2 کا بھی فیول سوئچ ’کٹ آف‘ سے ’رن` موڈ میں چلا گیا۔ اس وقت صرف 14 سیکنڈ بیتے تھے اور وقت 1:38:56 ہو رہا تھا۔
لیکن انڈین وقت کے مطابق 01:39:05 پر یعنی اس کے نو سیکنڈ بعد ایک پائلٹ نے زمین پر موجود فضائی ٹریفک کنٹرول کے اہلکاروں کو ’مے ڈے مے ڈے مے ڈے‘ کا پیغام بھیجا تھا۔ اسے کوئی جواب نہیں ملا اور اس کے فوراً بعد طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔
جب انجنوں نے کام کرنا بند کر دیا تو ریم ایئر ٹربائن (ایک چھوٹا پروپیلر جیسا آلہ) چلنے لگا یہ ہنگامی صورت حال میں ہائیڈرولک پاور فراہم کرنے کے لیے خود بخود چلنے لگتا ہے۔
ایئرپورٹ کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا ہے کہ ریم ایئر ٹربائن (آر اے ٹی) ٹیک آف کے فوراً بعد چلنے لگا تھا۔
رپورٹ مین پرواز کے راستے میں پرندوں کی کوئی بڑی سرگرمی کی اطلاع نہیں دی گئی تاہم کہا گیا کہ ’ایئرپورٹ کے رن وے کی حد عبور کرنے سے پہلے ہی طیارہ اپنی بلندی کھونے لگا تھا۔‘
Reutersطیارے پر سوار 242 میں سے 241 افراد کی موت ہو گئی جبکہ ایک شخص کرشمائی طور پر بچنے میں کامیاب رہا’پائلٹ اور عملہ اڑنے کے اہل تھے‘
ایئر انڈیا کی پرواز میں سوار ہونے سے پہلے، پائلٹوں اور عملے کا ٹیسٹ کیا گیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ طیارے کی پرواز کے لیے فٹ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دونوں پائلٹ ممبئی کے رہنے والے تھے اور پرواز سے ایک دن پہلے احمد آباد پہنچے تھے۔ انھیں مناسب آرام مل گیا تھا۔
تمام پائلٹس اور عملے کا مقامی وقت کے مطابق 06:25 پر بریتھ اینالائزر ٹیسٹ بھی کیا گیا، جس میں وہ ’فلائٹ چلانے کے لیے موزوں‘ پائے گئے۔
'طیارے سے لیے گئے ایندھن کے نمونے تسلی بخش تھے'
رپورٹ کے مطابق ایئر انڈیا کے طیارے میں ایندھن بھرنے کے لیے استعمال ہونے والے ٹینکوں سے لیے گئے ایندھن کے نمونے ’تسلی بخش‘ پائے گئے ہیں۔
ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘ایئر انڈیا کے طیارے میں ہلاک ہونے والا خاندان جو برسوں بعد ایک ساتھ رہنے کا خواب لیے لندن جا رہا تھاایئر انڈیا کے طیارے کو بیت الخلا کے بند ہونے کی وجہ سے سفر ادھورا چھوڑنا پڑاایئر انڈیا کے طیارے کی ٹیک آف کے 30 سیکنڈز میں گِر کر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
ہوا بازی کے ماہرین نے پہلے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حادثے کی ممکنہ وجہ ایندھن کی آلودگی ہو سکتی ہے۔ ایندھن کی آلودگی یا رکاوٹ دونوں انجنوں کے ناکام ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
طیارے کے انجن کے ایک ٹینک میں نقصان پہنچا۔ ایئر انڈیا کا انحصار ایندھن کی پیمائش کے درست نظام پر ہے۔ اگر یہ سسٹم بلاک ہو جائے تو ایندھن کی سپلائی بند ہو سکتی ہے اور انجن بند ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے پی یو فلٹر اور بائیں بازو کے ایندھن/جیٹیسن والو سے ’بہت کم مقدار میں ایندھن کے نمونے‘ اکٹھے کیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’ان نمونوں کا تجربہ ایک ایسی لیب میں کیا جائے گا جو اتنی کم مقدار میں بھی ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘
Getty Imagesايئر انڈیا کی فلیٹ میں بوئنگ کے درجنوں ڈریم لائنر طیارے ہیںتحقیقات میں مکمل تعاون: ایئر انڈیا
اس رپورٹ پر ایئر انڈیا نے ایک بیان جاری کیا ہے۔ کمپنی نے کہا ہے کہ وہ ’حادثے سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہے‘ اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔
بیان میں رپورٹ کی کسی خاص تفصیلات پر تبصرہ نہیں کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایئر انڈیا 171 اے حادثے سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہے۔ ہم اس دکھ کی گھڑی میں سوگوار ہیں اور ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم 12 جولائی 2025 کو ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو (AAIB) کی طرف سے جاری کردہ ابتدائی رپورٹ ملنے کی تصدیق کرتے ہیں۔‘
اس نے مزید کہا: ’ایئر انڈیا تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، بشمول ریگولیٹر۔ ہم تحقیقات میں اے اے آئی بی اور دیگر حکام کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھیں گے۔ چونکہ تفتیش ابھی جاری ہے، ہم کسی خاص تفصیلات پر تبصرہ نہیں کر سکتے اور ایسے تمام سوالات کو اے اے آئی بی کو بھیجنے کی اپیل کر سکتے ہیں۔‘
بوئنگ طیارے یا انجن کے بارے میں کوئی ایڈوائزری نہیں۔
اس رپورٹ میں جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ بوئنگ ڈریم لائنر 787 یا اس طیارے میں استعمال ہونے والے GE GEnx-1B انجنوں کے آپریٹرز کے لیے ابھی تک کوئی ایڈوائزری جاری نہیں کی گئی ہے۔
فی الحال تکنیکی خرابی کے امکان کو مسترد کردیا گیا ہے تاہم ہمیں مزید معلومات کے لیے انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ یہ صرف ابتدائی رپورٹ ہے۔
تاہم رپورٹ میں کچھ چیزیں حیران کن ہیں۔ خاص طور پر یہ حقیقت کہ دونوں فیول کنٹرول سوئچز کو 'رن' پوزیشن سے 'کٹ آف' پوزیشن پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
BBCحادثے کا شکار ہونے والے ایک شخص کی اہلیہ شویتا نے بتایا کہ ان کا بیٹا ایئر انڈیا کو اپنے باپ کا قاتل مانتا ہے'ایئر انڈیا سے کبھی پرواز نہیں کریں گے'
لیکن بہت سے سوالات اب بھی باقی ہیں تاہم امریکہ کے نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر پیٹر گوئلز کہتے ہیں کہ وہ ابتدائی رپورٹ سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔
بی بی سی کے نمائند سوتک بسواس کے مطابق گوئلز نے اس سے قبل کئی حادثات کی تحقیقات کی قیادت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اے اے آئی بی کی 'ایسی تفصیلی ابتدائی رپورٹ کی تیاری کے لیے تعریف کی جانی چاہیے۔'
دہلی سے بی بی سی نمائندہ سمیرہ حسین بتاتی ہیں کہ دو دن پہلے ان کی 41 سالہ شویتا پریہار سے ملاقات ہوئی جنھوں نے اپنے شوہر ابھینو پریہار کو حادثے میں کھو دیا ہے۔ وہ لندن واپس اپنے گھر جا رہے تھے جہاں شویتا اور ان کا 11 سالہ بیٹا ابھینو کے منتظر تھے۔
این ایچ ایس کی سابق کارکن شویتا پریہار نے کہا کہ جاری تحقیقات سے انھیں کوئی سکون نہیں ملا۔ وہ آنسو روکتے ہوئے کہتی ہیں: ’ہم عام لوگ ہیں، ہم نے ایئر لائن پر بھروسہ کیا، اب تحقیقات کا کیا فائدہ؟ ہم تو ختم ہو گئے ہیں۔‘
ان کے بیٹے کا سوال تھا کہ ان کے والد کو ’مرتے وقت تکلیف ہوئی؟ کتنی تکلیف تھی؟ کیا وہ جل گئے؟‘
شویتا پریہار کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا کبھی بھی ایئر انڈیا سے پرواز نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس پر اپنے والد کے قتل کا الزام لگاتا ہے۔
ایئر انڈیا کے طیارے کی ٹیک آف کے 30 سیکنڈز میں گِر کر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟احمد آباد میں تباہ ہونے والے ایئر انڈیا کے طیارے کا بلیک باکس مل گیا: پولیس حکام ائیر انڈیا طیارہ حادثے کی تحقیقات کس طرح کی جائیں گی؟ایئر انڈیا کے470 نئے جہاز خریدنے کا سودا کیا ’دوسرے قومی ایئر لائنز والے ممالک کے لیےایک سبق ہے‘ایئرانڈیا کے تباہ ہونے والے طیارے کی 21 سالہ ایئرہوسٹس: ’وہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا‘ایئر انڈیا کی پرواز کے واحد زندہ مسافر: ’مجھے خود بھی یقین نہیں ہوتا کہ میں طیارے سے باہر کیسے نکلا‘