Getty Images
سندس کی شادی 30 سال کی عمر میں ہوئی تو اُن کے لیے یہ موقع اس لیے بھی زیادہ خوشی کا باعث تھا کیونکہ قدرتی طور پر اُن میں ’ہائی سیکس ڈرائیو‘ تھی یعنی جنسی عمل سے تسکین حاصل کرنے کی خواہش (لیبیڈو) کا زیادہ ہونا۔
سندس پیشے کے لحاظ سے این ایل پی پریکٹیشنر ہیں اور اُن کو لگتا تھا کہ ان کے ساتھ شاید ایسا قدرتی طور پر تھا۔
شادی کے رشتے میں مرد اور عورت کے کئی جذبات پوشیدہ ہوتے ہیں جس میں کچھ کے بارے میں پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں عموماً کُھل کر بات نہیں کی جاتی۔ اُن میں سے ایک جذبہ جنسی تعلق کا بھی ہے۔
سندس کا کہنا ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں شادی شدہ جوڑوں میں بھی سیکس کے بارے میں بات کرنا نامناسب اور بعض اوقات غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے اور آگاہی نہ ہونے کے باعث کئی رشتے شادی کے ابتدائی عرصے میں ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔‘
’سیکس لیس‘ میرج کے موضوع نے گذشتہ دنوں پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ ’سیکس لیس میرج‘ سے مرادایسی شادی شدہ زندگی ہے جس میں شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی تعلق موجود نہ ہو، یا نہ ہونے کے برابر ہو۔
ممکن ہے کہ یہ موضوع کچھ لوگوں کے لیے غیر متعلقہ ہو مگر سندس ان سینکڑوں خواتین میں سے ایک ہیں جن کی زندگی اس سے متاثر ہوئی ہیں کیونکہ اُن کے مطابق اُن کی اپنے شوہر سے طلاق اُن کی سیکس میں عدم دلچسپی کی وجہ سے ہوئی۔
جنسی صحت کی ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ شوہر اور بیوی کی سیکس لائف کو لے کر انفرادی توقعات ہوتی ہیں اور جب دونوں میں سے کسی ایک کی توقعات پوری نہ ہوں تو جوڑوں میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جو ان کی شادی شدہ زندگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔
’شوہر نے کہا میں ان کو خوبصورت نہیں لگتی‘
سندس اپنی شادی کر کے بے حد خوش تھیں مگر شادی شدہ زندگی میں سیکس لائف سے وہ اتنی ہی مایوس ہوئیں۔
’ہماری باقی زندگی اچھی تھی۔ میرے شوہر مجھ سے گھنٹوں باتیں کرتے اور مجھے لانگ ڈرائیو پر لے کر جاتے، مگر جب سیکس کی باری آتی توصورتحال مختلف ہوتی۔‘
انھوں نے بتایا کہ اُن کے رشتے میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب وہ اپنے شوہر سے اصرار کرتی تھیں کہ اُن کو بھی سیکس میں وہی تسکین چاہیے جو وہ اپنے لیے چاہتے ہیں مگر انھیں اس کے جواب میں انتہائی نامناسب القابات سننے کو ملے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم نے ڈھائی ماہ کی شادی میں صرف چار سے پانچ بار انٹر کورس کیا ہو گا اور وہ بھی میرے اصرار کرنے پر۔‘
سندس کے مطابق جب انھوں نے بار بار اپنے شوہر سے اس سلسلے میں بات کرنے کی کوشش کی تو بلآخر ’میرے شوہر نے بتایا کہ میں اُن کو خوبصورت نہیں لگتی، اُن کو مجھ سے بچے بھی نہیں چاہییں، (انھوں نے کہا) اُنھیں میرے ساتھ کچھ بھی کرنا پسند نہیں۔‘
کئی عرصہ تک ذہنی تکلیف اور کشکمش میں مبتلا رہنے کے بعد سندس نے بالآخر طلاق لے لی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’طلاق کو نو سال گزرنے کے بعد، اب میں اکیلے بہت خوش ہوں اور جنسی تعلق کی خواہش سے بہت آگے نکل آئی ہوں۔ میں اس ذہنی تکلیف میں دوبارہ نہیں جا سکتی۔‘
’تین کمرے ہیں اور جوائنٹ فیملی‘BBC
مگر کیا سیکس لیس میرج کی واحد وجہ وہی ہے جو سندس کو برداشت کرنی پڑی؟
جواب ہے نہیں۔ سیکس لیس میرج کا شکار اکثر وہ جوڑے بھیہوتے ہیں جنھیں جوائنٹ فیملی ہونے کی وجہ سے ایک ہی کمرہ کئی افراد کے ساتھ شیئر کرنا پڑتا ہے اور ایسے میں میاں بیوی میں قربت کم ہوتے ہوتے بلآخر لگ بھگ ختم ہو جاتی ہے۔ جس کی مثال ارسلان پرویز ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ارسلان نے بتایا کہ اُن کی شادی کو دو سال ہو چکے ہیں، اور وہ اپنے تین بھائیوں اور ان کے بچوں کے ہمراہ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔
’میرا ایک منزلہ گھر ہے جس میں کل ملا کر تین کمرے ہیں ، میرے والدین بھی حیات ہیں۔ عمومی طور پر ایک کمرے میں بھابیاں اور میری بیگم سوتی ہیں، جبکہ دوسرے کمرے میں سب بھائی جبکہ ایک کمرے میں والدین سوتے ہیں۔ نوبیاہتا جوڑا ہونے کے باعث شادی کے ابتدائی کچھ عرصے کے لیے تو مجھے علیحدہ کمرہ دیا گیا مگر پھر صورتحال مختلف ہو گئی۔‘
ارسلان بتاتے ہیں کہ اتنے افراد کی ایک ہی چھت تلے موجودگی کے باعث وہ بس موقع کی تلاش میں ہی رہتے ہیں جو کم ہی ملتا ہے جو ان کے جنسی تعلق پر منفی اثرات کا باعث بنا ہے۔
ارسلان کا کہنا ہے کہ جنسی تعلق کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی بیوی سے وہ تعلق قائم نہیں رکھ پا رہے جو عام طور پر نئے شادی شدہ جوڑے کے درمیان ہوتا ہے اور اب وہ اپنے رشتے کے مستقبل کے حوالے تھوڑا پریشان ہیں۔
’شادی کے بعد میرے بیٹے کی شکل دیکھی ہے، کمزور ہو گیا ہے‘
ماہر نفسیات کا ماننا ہے کہ طلاق ہونے کی بڑی وجہ میاں بیوی میں ہم آہنگی کا نہ ہونا ہے، مگر پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں جوائنٹ فیملی سسٹم مضبوط ہے وہاں چند حلقوں کی جانب سے طلاق کی بڑی وجہ سسرال والوں کی میاں بیوی کے معالات میں مداخلت بھی بتاتی جاتی ہے۔
افشاں فاروق کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے اور ان کے مطابق سسرال والوں کی مسلسل اُن کی شادی شدہ زندگی میں مداخلت ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی کی وجہ بنی۔ افشان کا کہنا ہے کہ اُن کے شوہر اپنے کمرے میں کم اور اپنی والدہ کے پاس زیادہ وقت گزارتے تھے۔
’شادی کے بعد کے ابتدائی دنوں میں میرے شوہر جب بھی کمرے میں آتے تو اُن کے گھر والے فون کالز آنے لگتیں یا پھر بار بار دروازہ کھٹکھٹا کر اُن کو کبھی ایک بہانے تو کبھی دوسرے بہانے باہر بلا لیا جاتا۔ کبھی اُن کی بہن آ کر ہمارے کمرے میں گھنٹوں بیٹھی رہتیں۔ اور یہی وجوہات ہماری شادی میں مسائل کا باعث بنیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
سہاگ رات:’جنسی تعلق اہم ہے، جلدی یا دیر اہم نہیں‘
خواتین کی صحت: کیا عورت کا جسم جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوتا ہے؟
جنسی تعلق قائم کرنے سے قبل اور اس کے بعد مردوں اور خواتین کو حفظان صحت کی کون سی آٹھ عادات اپنانی چاہییں؟
افشاں کا ماننا ہے کہ ’جب سیکس لیس میرج کی بات ہوتی ہے تو لوگ اس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جنسی تعلق تب ہی مضبوط ہو گا جب میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع دیا جائے۔ جب میں نے ان مسائل پر اپنی ساس سے بات کی تو اُنھوں نے مجھے طعنہ دیتے ہوئے میرے منہ پر کہہ دیا کہ ’شادی کے بعد میرے بیٹے کی شکل دیکھی ہے، اتنا کمزور ہو گیا ہے۔۔۔ تم تھوڑا کم نہایا کرؤ۔‘
افشاں کے مطابق اسی نوعیت کے طعنوں کے باعث ان کی سیکس لائف متاثر ہونے لگی اور دیگر مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ ’میں نے نوٹس کیا کہ وہ اپنی والدہ کا کہنا زیادہ مانتے تھے جس کے باعث ناصرف ہماری عام تعلقات بلکہ جنسی تعلق بھی متاثر ہوا اور جلد ہی مجھے سمجھ آ گیا کہ اب ا س رشتے میں کچھ نہیں بچا۔‘
سیکس لیس میرج پر بحث کیوں؟
سندس ہوں، ارسلان یا افشاں کئی لوگ اب سوشل میڈیا پر کُھل کر سیکس لیس میرج کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان میں شادی سے قبل سیکس ایجوکیشن پر زور دیا جانا چاہیے۔
خواتین کو درپیش چیلنجز پر بات چیت کے لیے معروف فیس بک گروپ ’سول سسٹرز‘ کی ایڈمن کنول احمد نے اپنے ٹوئٹر پر گذشتہ دنوں بتایا کہ اُن کے پیج پر ایک خاتون نے بتایا تھا کہ کیسے سیکس نہ ہونے کے باعث ان کی شادی شدہ زندگی متاثر ہوئی تھی۔
اُس پوسٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ یہ ایسی خاتون کی کہانی تھی جو بائیس سال سے اپنے شوہر کے ساتھ ایک بستر پر نہیں سوئی تھیں۔ کنول کی اس پوسٹ کے بعد ٹوئٹر پر بھی بہت سی دیگر خواتین اور مردوں نے بھی اپنے ذاتی اور قریبی حلقوں سے جڑے تجربات شیئر کرنا شروع کر دیے۔
کنول نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ایسی کئی خواتین ہیں جن کو دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ وہ کتنی اچھی زندگی گزار رہی ہیں مگر حقیقت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ صحت مند اور نارمل رشتوں کے گرد ہمارے کلچر میں بدنامی اور خاموشی کے تصورات پائے جاتے ہیں اور جنسی تعلق کے بارے میں بات کرنے پر ’غیرت‘ آڑے آ جاتی ہے۔
سوشل میڈیا صارف رِز صدیق نے لکھا کہ سیکس کے موضوع پر بات کرنا پاکستان میں ممنوع سمجھا جاتا ہے اور خواتین اس کے بارے میں بات کرنے سے کتراتی ہیں۔
رز صدیق نے بتایا کہ وہ خود بھی 13 سال سیکس لیس میرج میں رہیں اور اس کے نتیجے میں اُن کے رشتے میں دوریاں پیدا ہو گئیں اور بلآخر یہ شادی ٹوٹنے کی وجہ بنی۔
وہ چیزیں جو نئے شادی شدہ جوڑوں میں غلط فہمیوں اور دیگر مسائل کا باعث بن سکتی ہیںBBC
اینڈرولوجسٹ ڈاکٹر ثمرہ امین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیکس لیس میرج ایک ایسا موضوع ہے جو کہ اس قدر وسیع ہے کہ اس پر بات کرنے کے لیے کئی دن چاہییں۔
شادی شدہ جوڑے کی سیکس لائف کو لے کر انفرادی توقعات ہوتی ہیں اور جب دونوں میں سے کسی ایک کی بھی توقعات پوری نہیں ہو پاتیں تو جوڑوں میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جو بعد میں طلاق کی وجہ بنتے ہیں۔‘
ڈاکٹر ثمرہ کے مطابق ’شادی شدہ زندگی میں جب جنسی لذت کی بات ہوتی ہے تو مرد خواتین کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ خواتین خوف کی وجہ سے مرد کو قریب آنے نہیں دیتیں اور وہ اپنے جذبات دبا لیتی ہیں۔‘
ڈاکٹر ثمرہ کا کہنا ہے کہ شادی کے ابتدائی ایام میں خواتین انٹر کورس سے ہونے والے درد سے ڈرتی ہیں جس وجہ سے وہ سیکس کے دوران وہ مردوں کو خود سے دور کر رہی ہوتی ہیں اور اُنھیں پاس نہیں آنے دیتیں اور یہ سب انجانے خوف کے باعث ہو رہا ہوتا ہے۔
’مرد کو اگر سیکس کے دوران روک دیا جائے تو مرد کی ایریکشن (عضو تناسل کی ایستادگی) ختم ہو جاتی ہے، اور پھر دوبارہ ایریکشن پیدا کرنا عموماً مردوں کے لیے آسان نہیں ہوتا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو یہ نئے شادی شدہ جوڑوں میں بے بنیاد غلط فہمیوں اور دیگر مسائل کا باعث بنتا ہے۔‘
ڈاکڑ ثمرہ نے کہا ہے کہ ’اُن کے پاس اب اتنے کیسز آتے ہیں جہاں کبھی لڑکے یہ شکایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے جنسی تعلق سے مطمئن نہیں تو کبھی لڑکیاں اُن کو بولتی ہیں کہ اُن کے شوہر اُنھیں مطمئن نہیں کر پا رہے۔‘
ڈاکڑ ثمرہ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اُن کے پاس ایسے کیس بھی آتے ہیں جن میں لڑکیوں کو یہ شکایت ہوتی تھی کہ اُن کے شوہر بند کمرے میں بھی اس خوف سے جنسی تعلق قائم نہیں کر پاتے کہ جوائنٹ فیملی کی وجہ سے کوئی اُن کی آواز نہ سُن لے۔
مزید پڑھیے
کنوار پن سے جڑا صدیوں پرانا افسانہ جو لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کر رہا ہے
جنسی تعلق کے بغیر نبھائی جانے والی شادیاں، مگر اس کا حل کیا ہے؟
'سیکس سے بچنے کے لیے مجھے بہانے بنانے پڑتے تھے'
’اکثر خواتین آ کر کہتی ہیں کہ اُن کے شوہر کو یہ خوف رہتا ہے کہ کوئی دروازے پر کان لگا کر سُن رہا ہو گا۔ میں ایسے میں اُن کو کہتی ہوں کہ وہ یا تو ٹی وی لگا لیں یا پھر میوزک لگا لیں۔‘
خواتین کی اگر بات کی جائے تو وہ اکثر اس بات سے بھی پریشان ہوتی ہیں کہ اُن کے شوہر خاندان والوں کے سامنے اُن کے ساتھ بیٹھنے یا پھر ہاتھ پکڑنے بھی نہیں دیتے۔ اس پر ڈاکٹر ثمرہ نے کہا کہ مرد اور عورت دونوں کو رشتوں کی حساسیت کو سمجھنا چاہیے اور توازن بنا کر آگے چلنا چاہیے۔
سیکس ایجوکیشن: شادی سے قبل جنسی تعلق سے متعلق کیا کچھ پتا ہونا چاہیے؟Getty Images
ڈاکٹر ثمرہ کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جب سیکس کی بات کی جاتی ہے تو ایسا گمان کیا جاتا ہے یہ کوئی انتہائی غیرمناسب موضوع ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ شادی سے پہلے جوڑے کو سیکس لائف سے متعلق آگاہی ہونی چاہے اور اُن کو یہ بھی علم ہو کہ دونوں نے اپنے جنسی تعلق کو کیسے لے کر چلنا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میاں بیوی کو کم ہوتے جنسی تعلق کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے اور مل کر اس کا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اُن کا کہنا ہے دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی جنسی ضرورت کا خیال کریں۔
انھوں نے اس حوالے سے مندرجہ ذیل تجاویز دی ہیں:
شادی کے ابتدائی ’ہنی مون پیریڈ‘ میں نئے جوڑوں کو آہستہ آہستہ جنسی تعلق قائم کرنا چاہیے، اس سے دونوں کو ایک دوسرے کی جنسی ضروریات سمجھنے میں مدد ملتی ہےدونوں کو ایک دوسرے کے اخلاقی اور مذہبی تصورات کی آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور حساسیت کو مدنظر رکھ کر مشترکہ طور پر آگے چلنا چاہیے مرد کو چاہیے کہ وہ عورت کو اس معاملے میں سمجھنے کی کوشش کرے کیونکہ عورتوں کی جنسی تعلق سے متعلق کچھ امیدیں ہوتی ہیں جنھیں مردوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیےہفتے یا مہینے میں کتنی بار جنسی تعلق قائم کرنا ہے اُس کے بارے میں دونوں پہلے ہی مل کر طے کر لینا چاہیے تا کہ دونوں ذہنی طور پر تیار ہوں