Getty Imagesمحققین نے پرندوں اور دودھ دینے والے جانوروں کی 600 سے زیادہ اقسام کا مطالعہ کیا
ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ فطرت میں زوال کو روکنے کے بلند یا حوصلہ مند اہداف پہلے ہی ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جانوروں کی آبادی کے رہنے کے مقامات ختم ہونے اور آب و ہوا میں تبدیلیوں کے اثرات کو کم سمجھا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات کو واپس لانے یا پہلے جیسا کرنے میں توقع سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے اور اگر ہم ابھی کارروائی نہیں کریں گے تو عالمی حیاتیاتی تنوع کے اہداف پہنچ سے باہر ہو جائیں گے۔
دسمبر میں تقریباً 200 ممالک نے اس دہائی کے اختتام تک صورتِ حال کو بگڑنے سے روکنے پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو روکنے اور سنہ 2030 تک 30 فیصد زمینوں اور سمندروں کی حفاظت کے لیے پرجوش اہداف طے کیے ہیں۔
لندن میں انسٹی ٹیوٹ آف زولوجی کے ڈاکٹر رابن فری مین نے کہا، ’یہ تجزیہ جس چیز کو نمایاں کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ ان اہداف کو پورا کرنا ہماری سوچ سے بھی زیادہ مشکل ہے۔‘
Getty Imagesجنگلات اور قدرتی زمین کو صاف کرنا حیاتیاتی تنوع کے نقصان کا سب سے بڑا محرک ہے
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں فوری اور زیادہ تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے مزید چیزوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔‘
رائل سوسائٹی کے جریدے پروسیڈنگز بی میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں پرندوں اور دودھ دینے والے جانوروں کی 600 سے زیادہ مختلف اقسام کی آبادی کے رجحانات کا تجزیہ کیا گیا۔
سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ماضی کے کام نے بڑے پیمانے پر جانوروں کے رہنے کے مقامات پر آب و ہوا میں تبدیلیوں اور ان کے اثرات شروع ہونے سے پہلے کئی دہائیوں کے وقت کے وقفے کو نظر انداز کر دیا تھا۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم حیاتیاتی تنوع کے نقصان کے حوالے سے اس سے کہیں زیادہ مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں جتنا ہم نے سوچا تھا۔
ڈاکٹر فری مین نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم نے دودھ دینے والے بڑے جانوروں اور پرندوں کے لیے 40 سال تک کے تاخیری اثرات دیکھے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کارروائی کرنے کے لیے جتنا زیادہ انتظار کریں گے، کسی بھی قسم کے ردعمل کو دیکھنے میں اتنا ہی زیادہ وقت لگے گا۔‘
Getty Imagesکچھ پرندوں کی آبادی بحال ہو سکتی ہے
کچھ پرندوں کی آبادی، جیسے کہ گیز یا قاز، تو بحال ہو سکتی ہے جبکہ دوسروں کو تاریک مستقبل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ تحقیق شکار اور قدرتی وسائل کے بے تحاشہ استحصال جیسی چیزوں پر فوری کارروائی کی تجویز پیش کرتی ہے جس کے فوری اور دور رس فوائد ہوں گے۔
اس وقت پودے اور جانور انسانی تاریخ کے کسی بھی دوسرے دور سے کہیں زیادہ معدوم ہو رہے ہیں۔
دسمبر میں کئی ممالک نے حیاتیاتی تنوع کے نقصان سے نمٹنے کے لیے عالمی اہداف طے کرنے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
برطانیہ سمیت کل 188 حکومتیں سنہ 2030 تک عالمی اہداف کے لیے پرعزم ہیں جن میں عالمی خوراک کے فضلے کو نصف تک کم کرنے سے لے کر حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچانے والی سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرنے تک کے اہداف شامل ہیں۔