Getty Imagesانڈیا اور چین کی آبادی عالمی آبادی کا ایک تہائی حصے سے زیادہ ہے۔
عالمی آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ رواں برس انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کی عالمی آبادی سے متعلق رپورٹ میں بھارت کی آبادی کا تخمینہ ایک ارب 42 کروڑ 86 لاکھلگایا گیا ہے جبکہ چین کی آبادی ایک ارب 42 کروڑ 57 لاکھ رہنے کی توقع ہے۔
گزشتہ 70 برسوں سے انڈیا اور چین کی آبادی عالمی آبادی کا ایک تہائی حصے سے زیادہ ہے۔
گزشتہ برس چین کی آبادی میں 1961 کے بعد پہلی بار کمی واقع ہوئی ہے۔
چین میں حالیہ برسوں میں شرح پیدائش میں کمی آئی ہے اور گزشتہ برس پہلی بار 1961 کے بعد اس کی آبادی سکڑ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈکی رپورٹ میں انڈیا کی آبادی میں اضافے کا جو اندازہ لگایا گیا ہے وہ ایک تخمینہ ہے کیونکہ انڈیا میں 2011 کے بعد سے مردم شماری نہیں ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ چین کی آبادی میں اس کے دو انتظامی علاقے، ہانگ گانگ اور مکاوؤ کی آبادی شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ چین کی آ بادی میں تائیوان کی آبادی بھی شامل نہیں ہے جسے چین اپنا ایک صوبہ گردانتا ہے۔
تائیوان خود کو چین سےعلیحدہ ملک تصورکرتا ہے جس کا اپنا آئین ہےاور جس کے لیڈر جمہوری انداز میں منتخب ہوتے ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں کل عالمی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کرگئی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی آبادی میں اضافہ پہلے کی رفتار سے نہیں ہو رہا ہے اور سنہ 1950 کے بعد سب سے سست شرح ہے۔
انڈیا اور چین میں شرح پیدائش میں کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین میں آبادی اگلے سال کم ہونا شروع ہو جائے گی۔
چین نے 2016 میں ایک بچے کی متنازع پالیسی ترک کر دی تھی اور جوڑوں کو دو یا اس سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے مراعات کا اعلان کیا تھا۔
چین سمجھتا ہے کہ آبادی کی شرح میں سست روی کی وجوہات میں اخراجاتِ زندگی میں اضافہ اور خواتین کے افرادی قوت میں شامل ہونا ہے۔
انڈیا میںبھی حالیہ عشروں میں شرح پیدائش میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہےجو 1950 میں فی عورت 5.7 پیدائش سے گھٹ کر آج فی عورت 2.2 ہو گئی ہے۔
یو این ایف پی اے کے ذریعہ کرائے گئے ایک سروے میں بھارتیوں کی اکثریت نے کہا تھا کہ ان کی آبادی بہت زیادہ ہے اور زرخیزی کی شرح بہت زیادہ ہے۔
سروے میں حصہ لینے والوں میں ہر تین میں سے دو نے آبادی میں اضافے کے بارے میں سوچتے وقت معاشی مسائل کو سب سے زیادہ تشویش کے طور پر شناخت کیا۔
تاہم آبادی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی آبادی چین سے زیادہ ہونا قابل تشویش نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آبادی میں اضافے کے اندازے کی وجہ سے بے چینی یا خطرے کی گھنٹی نہیں بجنی چاہیے بلکہ اگر انفرادی حقوق اور انتخاب کو برقرار رکھا جا رہا ہو تو انہیں ترقی اور خواہشات کی علامت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔