اناپرنا سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر پھنس جانے والے پاکستانی کوہ پیماؤں کو ریسکیو کر لیا گیا

بی بی سی اردو  |  Apr 18, 2023

دنیا کی دسویں بلند ترین چوٹی اناپرنا سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر کے دوران خراب موسم کی وجہ سے پھنس جانے والے پاکستانی کوہ پیماؤں نائلہ کیانی اور شہروز کاشف کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔

گذشتہ چند دنوں کے دوران تین پاکستانی کوہ پیماؤں نے نیپال میں واقع یہ چوٹی سر کی ہے۔

ان میں سے بغیر آکسیجن اور پورٹر کے یہ پہاڑ سر کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر کوہ پیما ساجد سدپارہ بحفاظت واپس آ گئے تھے جبکہ یہ پہاڑ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون نائلہ کیانی اور 11 بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والے سب سے کم عمر کوہ پیما شہروز اترائی کے دوران پھنس گئے تھے۔

شہروز کاشف کے والد کاشف سلمان نے بی بی سی اردو کی منزہ انوار کو بتایا کہ یہ دونوں کوہ پیما کیمپ فور سے نیچے آتے ہوئے قریباً ساڑھے چھ ہزار میٹر کی بلندی پر ایک ایوالانچ کی وجہ سے پھنسے تھے۔

ان کے مطابق برفانی تودے گرنے کی وجہ سے شہروز اور نائلہ کے علاوہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیما بلجیت کور اور ارجن بھی مشکلات کا شکار ہوئے اور ان چاروں کو اب 6400 میٹر کی بلندی پر واقع کیمپ تھری سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے نکال کر بیس کیمپ پہنچا دیا گیا ہے۔

شہروز کے والد کا کہنا تھا کہ ان کی اپنے بیٹے سے مختصر بات ہوئی ہے جس میں اس کا کہنا تھا کہ چاروں کوہ پیما خیریت سے ہیں اور وہ خود اب بیس کیمپ سے پوکرا کے راستے کھٹمنڈو جا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ کوہ پیمائی کی دنیا میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑوں کو کرنا ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔

نائلہ کیانی آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند چار چوٹیوں کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بھی بن گئی ہیں۔ دوسری جانب ساجد علی سدپارہ دنیا کی تمام بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کے اپنے والد علی سدپارہ کے خواب کی تکمیل میں مصروف ہیں، جو کے ٹو سر کرنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے تھے۔

گذشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں کوہ پیمائی کو بطور پیشہ اپنانے والے افراد میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور اب پاکستان میں اس حوالے سے متعدد نجی کلب بھی موجود ہیں۔

آئیے جانتے ہیں کہ 8091 میٹر لمبی ماؤنٹ اناپرنا کو سر کرنے والے یہ تین پاکستانی کون ہیں۔

نائلہ کیانی: ’خاندان والے کبھی میرے شوق کی راہ میں حائل نہیں ہوئے‘

نائلہ کیانی کا تعلق صوبہ پنجاب میں راولپنڈی شہر کے علاقے گجر خان کے ایک قدامت پسند خاندان سے ہے۔ انھوں نے ایرو سپیس انجینیئرنگ کی تعلیم برطانیہ سے حاصل کر کے اپنے اس شعبے میں بھی کام کیا تاہم اب اس وقت وہ خاوند کے ہمراہ دبئی میں مقیم ہیں جہاں وہ بینکنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

نائلہ کیانی بتاتی ہیں کہ انھیں بچپن سے مہم جوئی کا شوق تھا۔ ’زمانہ طالب علمی اور اب بھی باکسنگ کرتی ہیں۔ دبئی میں قیام کے دوران راک کلائمبنگ اور آئس سکیٹنگ شروع کی۔‘

’قدامت پسند ہونے کے باوجود میرے خاندان والے کبھی میرے شوق کی راہ میں حائل نہیں ہوئے۔‘

شادی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ’ہماری پسند کی شادی تھی۔ میرے خاوند خالد راجہ کو میرے سارے شوق پتا تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’انھیں یہ بھی پتا تھا میرے شوق اور دلچسپیاں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔‘

شادی کی بڑی تقریبات کی مخالف نائلہ نے اپنی شادی کو یادگار بنانے کے لیے کے ٹو بیس کیمپ پر تقریب منعقد کی اور ان کی تصاویر وائرل بھی ہوئی تھیں۔

ان کے شوہر خالد راجہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے صرف نائلہ سے شادی نہیں کی بلکہ میں نے نائلہ کے خوابوں سے بھی شادی کی ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے خواب پورے کرنے میں بھی ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔‘

شہروز کاشف: 11 پہاڑیاں سر کرنے والے کم عمر ترین کوہ پیما

لاہور سے تعلق رکھنے والے شہروز جنھیں زیادہ تر لوگ ’براڈ بوائے‘ کے نام سے جاتے ہیں، دنیا کی 11 بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر کوہ پیما بن گئے ہیں۔

شہروز دنیا کی پہلی اور دوسری بلند ترین چوٹیوں ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو کو پہلے ہی سر کر چکے ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ برس جولائی میں شہروز کاشف اور اور ان کے گائیڈ فضل احمد نانگا پربت سر کرنے کے بعد موسم کی خرابی کے باعث رات کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور ہوئے تھے اور بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہونے کے باوجود اپنی مدد آپ کے تحت نیچے اترنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

انھوں نے اس کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس رات میں یہ سوچ کر سویا تھا کہ بس ختم، زندگی اب نہیں رہی۔۔۔ ہم اب بچ نہیں سکتے۔۔ کوئی چانس نہیں کہ کل ہم زندہ اٹھ پائیں گے مگر صبح اٹھے تو معجزہ ہو چکا تھا۔‘

https://twitter.com/Shehrozekashif2/status/1647785178952237057?s=20

والد کے خواب کی تکمیل میں مصروف ساجد سدپارہ

پاکستانی کوہ پیما ساجد سدپارہ اپنے والد محمد علی سدپارہ کے خواب کی تکمیل میں مصروف ہیں جو سنہ 2021 میں کے ٹو سر کرتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔

وہ ماؤنٹ اناپرنا کی مشکل چوٹی بغیر آکسیجن اور کسی بھی مدد کے سر کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین نوجوان بن گئے ہیں۔ اس سے قبل وہ کے ٹو بھی بغیر آکسیجن اور کسی مدد کے سر کر چکے ہیں۔

ساجد سدپارہ نیپال میں موجود ہیں جہاں وہ پہاڑی کنگچینجنگا (8586) اور دھاؤلاگری (8167) سر کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔

ساجد سدپاہر بغیر آکسیجن دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیاں سر کرنا چاہتے ہیں جن میں سے اب تک وہ پانچ سر کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

خیال رہے کہ ساجد سدپارہ کے والد محمد علی سدپارہ آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر پانچ فروری 2021 کو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر کے ٹو کی چوٹی کے قریب لاپتہ ہو گئے تھے۔ ان کی لاشیں جولائی میں ان کی ہلاکت کے پانچ ماہ بعد ملی تھیں۔

https://twitter.com/sajid_sadpara/status/1647616630132994048?s=20

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More