خواجہ سرا جنھیں اپنی آزادی کی قیمت سیکس ورکر کے روپ میں ادا کرنی پڑی

بی بی سی اردو  |  Mar 24, 2023

BBCعلیشا کا نام آشو تھا اور انھوں نے چھوٹی عمر میں ہی اپنا گھر چھوڑ دیا تھا

سج سنور کر رات کی تاریکی میں علیشا سڑک کے کنارے کھڑی ہو کر وہاں سے گزرتی گاڑیوں کو دیکھتی رہیں کہ شاید کوئی گاڑی رُکے اور انھیں اپنے پاس بلائے۔علیشا ایک سیکس ورکر ہیں اور وہ اکثر رات کو ریاست ہریانہ کے شہر گروگرام کی اس سڑک پر نظر آتی ہیں۔

ایک رپورٹر کے طور پر جب میں علیشا سے تھوڑی دور اسی سڑک پر کھڑی تھی تو میرے ذہن میں ایک خوف تھا۔ وہی خوف جو شاید کسی بھی لڑکی کو رات کے وقت ایسی جگہ کھڑے ہونے پر ہو گا لیکن کیا علیشا ہم سب سے مختلف ہیں؟ کیا علیشا کے ذہن میں کوئی خوف نہیں، بے خوف نظر آنے والی علیشا کے دل میں کیا کوئی ڈر نہیں؟

رات کے اندھیرے کے بعد صبح کی روشنی میں جب میں نے علیشا سے یہ سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ’ڈر لگتا ہے، جب ہم رات کو کسی کے ساتھ جاتے ہیں تو پتا نہیں ہوتا کہ زندہ واپس آئیں گے بھی یا نہیں‘۔

یہ سیکس ورکر علیشا کی زندگی کی الجھی ہوئی گتھی کا ایک پہلو ہے۔ وہ اس پر شرمندہ نہیں لیکن یہ ان کی پہلی پسند بھی نہیں۔

ریاست ہریانہ میں کئی سال سے رہنے والی علیشا ایک ٹرانس جینڈر ہیں۔ وہ آشو سے علیشا بن گئیں تاکہ کھل کر اپنی شناخت کے ساتھ رہ سکیں لیکن اس آزادی کی قیمت انھیں ایک سیکس ورکر کے روپ میں ادا کرنی پڑی۔

پٹنہ کی رہنے والی علیشا کو بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور تنہا رہ کر روزی کمانے کا یہی ذریعہ بن گیا۔

BBC’تم لڑکوں میں آتے ہو نہ لڑکیوں میں‘

گھر سے نکلنا بہت تکلیف دہ تھا۔ علیشا کو اب بھی یاد ہے کہ ’ممی کی ساڑھی پہننا، لپ سٹک لگانا، نیل پالش لگانا، چوڑیاں پہننا، لڑکیوں کے ساتھ کھیلنا اور ممی یہ سب ناپسند کرتی تھیں۔‘

ماں کی نظروں میں تو بیٹا پیدا ہوا تھا اور اس کا نام آشو رکھا گیا تھا اور اس سے ہمیشہ ایک لڑکے کی طرح برتاؤ کی توقع کی جاتی تھی لیکن علیشا کا کہنا ہے کہ وہ شروع سے ہی لڑکیوں کے جذبات رکھتی تھیں۔

ان کی ماں کو شاید اس کا احساس ہو گیا تھا لیکن ’وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کسی اور کو خبر ہو اور ہمیشہ مجھے کہتی تھیں کہ آشو، لڑکوں کی طرح رہا کرو۔‘

پھر ایک حادثہ ہوا جس نے سب کچھ ناقابل برداشت بنا دیا۔ علیشا تقریباً 13 سال کی ہوں گی جب ان کے ٹیوشن ٹیچر نے ان کے ساتھ زبردستی کی اور ان کا مذاق بھی اڑایا۔

علیشا کہتی ہیں کہ ’میرے ٹیچر نے کہا تھا کہ تم جانتے ہو کہ تم کیا ہو؟ تم لڑکوں میں آتے ہو نہ لڑکیوں میں، تم جیسے لوگوں کو معاشرے میں کوئی قبول نہیں کرتا۔‘

علیشا کے مطابق ٹیچر نے ان کے لیے بہت بُرے الفاظ استعمال کیے اور دھمکی دی کہ اگر انھوں نے اس بارے میں کسی کو بتایا تو ان کے گھر والے انھیں گھر سے نکال دیں گے۔

علیشا بہت تکلیف میں تھیں۔ انھوں نے ایک دو بار اپنی بہن یا والدہ کو بتانے کی کوشش کی مگر کھل کر کچھ نہ کہہ سکیں۔ آخر گھر چھوڑنے کے علاوہ کوئی راستہ سمجھ میں نہیں آیا۔

BBCآشو سے علیشا بننا

ایک لڑکے کے جسم میں قید، آشو اپنی نئی شناخت بنانا چاہتا تھا اور پہچان تھی علیشا لیکن اس کے لیے بہت زیادہ پیسوں کی ضرورت تھی۔

وہ ایک دوست کے بھروسے پر دہلی آئی تھیں۔ یہاں ان کی ملاقات اپنے ’گرو‘ سے ہوئی۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی میں اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر اکثر اکیلے لوگ گرو کی پناہ میں رہتے ہیں۔

علیشا کا کہنا ہے کہ ’ہم انھیں اپنے والدین کی طرح سمجھتے ہیں، ان کی وجہ سے ہی میں یہاں اپنے پیروں پر کھڑی ہوں، جب میں دلی آئی تو انھوں نے مجھے سیکس ورکر کے کام پر لگایا۔‘

علیشا کو جب پہلی بار اس کام کے لیے بھیجا گیا تو انھیں 4000 روپے ملے۔ علیشا کا کہنا ہے کہ ’میں نے اُس وقت پہلی بار اتنے پیسے دیکھے تھے اور مجھے صرف 10 منٹ کے کام کے اتنے پیسے ملے، میں بہت خوش تھی۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ زندگی مشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ انھیں ہر وقت خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

علیشا، جو اب 14-15 سال سے یہ کام کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ ’کئی بار گاہک ہمارے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں، ہمیں مارتے ہیں، گندے الفاظ بولتے ہیں اور بعض اوقات ہمارے بٹوے بھی چوری کر لیتے ہیں۔‘

اس کام میں آہستہ آہستہ اتنے پیسے بچ گئے کہ سرجری کروا کر انھیں لڑکی جیسا جسم مل گیا۔ تقریباً تین سال پہلے ایک طویل علاج سے آشو مکمل طور پر علیشا بن گئے۔ اب ان کی زندگی کا اگلا مرحلہ زندگی کو مزید معنی خیز بنانا اور ٹرانس جینڈر اور سیکس ورکر کی شناخت سے آگے بڑھنا تھا۔

BBCنئی شناخت کی تلاش

ایسا نہیں کہ علیشا نے کوئی اور کام ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ وہی دور تھا جب انڈیا میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو ایک شناخت اور بہت سے حقوق ملے تھے۔

سال 2014 میں ایک تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ خواجہ سراؤں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کریں اور انھیں پسماندہ طبقہ ہونے کی وجہ سے ریزرویشن دیا جائے۔

آئین کے آرٹیکل 14، 16 اور 21 بھی ملک کے ہر شہری کو تعلیم، ملازمت اور سماجی شناخت کا مساوی حق دیتے ہیں۔ پھر سنہ 2019 میں، انڈین پارلیمان نے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ نافذ کیا، جس سے خواجہ سراؤں کے ان حقوق کو قانون کی شکل دی گئی۔

لیکن زمینی حقیقت اب بھی نہیں بدلی۔ علیشا کے لیے نوکری ملنا ناممکن ہو گیا ہے۔ یہ بھی اس وقت جب علیشا نے چھوٹی عمر میں گھر چھوڑنے کے باوجود کافی جدوجہد کی اور دلی میں اپنی سکول کی تعلیم مکمل کی۔

علیشا کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کہیں بھی جائیں تو سب سے پہلے آپ سے ٹرانس جینڈر سرٹیفکیٹ طلب کیا جاتا ہے اور گارڈز آپ کو دیکھتے ہی سیڑھیوں سے نیچے اتار دیتے ہیں۔‘

علیشا اب اپنی کمیونٹی میں کسی لیڈر سے کم نہیں۔ اب وہ خواجہ سراؤں کی صحت اور ان کے جنسی مسائل پر کام کرنے والی ایک این جی او کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کی وہ ٹرانسجینڈر خاتون جن کی موت کی درخواست نے سب کو ہلا دیا

ٹرانس جینڈر ایکٹ: کسی عورت کا مرد بننا یا شناختی کارڈ میں جنس ’ایکس‘ لکھوانا کتنا مشکل

کشمیر کی ٹرانس جینڈر خاتون جنھوں نے لوگوں کو خوشیاں دینے کے لیے درد جھیلے

BBCاپنی برادری کی رہنما بنیں

ایک جگہ علیشا کو اس وقت موقع ملا جب ان کے سرپرست نے انھیں ایک پروگرام میں خواجہ سراؤں کی صحت اور جنسی مسائل پر کام کرنے والی ایک این جی او سے ملوایا۔

اب وہ ایک ہیلتھ ورکر کے طور پر اپنی کمیونٹی میں کسی لیڈر سے کم حیثیت نہیں رکھتیں۔

علیشا کہتی ہیں کہ ’ایک کہاوت ہے کہ جب تک آپ معاشرے میں خود کو اوپر نہیں اٹھائیں گے، تب تک آپ کو دبایا جاتارہے گا‘۔

اب وہ خواجہ سراؤں اور سیکس ورکرز کو ’ایڈز‘ اور بہت سی دوسری بیماریوں کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں، انھیں دوائیں دیتی ہیں اور ہسپتال میں ان کا علاج بھی کرواتی ہیں۔

اس این جی او علیشا کوایک خاندان کی طرح لگتی ہے۔ آئے دن یہاں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور اپنے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ تہوار اور خوشیاں بھی ساتھ مناتے ہیں۔

BBCمعاشرے کے لیے نامکمل، خدا کی نظر میں مکمل

ان سب باتوں کے باوجود علیشا کہتی ہیں کہ ’اتنے سال کے بعد بھی جو طعنے گاؤں میں سننے کو ملتے تھے، وہ یہاں شہر میں بھی ملتے ہیں، جب ہم سڑک پر چلتے ہیں تو لوگ ہمیں ہیجڑے اور چھکّا جیسے کئی ناموں سے پکارتے ہیں۔‘

جب میں علیشا کے ساتھ تھی اور ان کا انٹرویو کر رہی تھی تو میں نے بھی محسوس کیا کہ لوگوں کا انھیں دیکھنے کا طریقہ یا رویہ مختلف تھا۔

شاید اسی وجہ سے علیشا اپنی نظروں میں ادھوری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نہ ہم لڑکوں کی قطار میں لگ سکتے ہیں اور نہ ہی لڑکیوں کی، اللہ نے ہمیں بنایا لیکن مکمل نہیں کیا۔ ہم قدرت کے بنائے ہوئے پتلے ہیں۔‘

جینے کا حوصلہ برقرار رکھنے کے لیے، وہ بھگوان کی پوجا کرتی ہیں، خود کو بھگوان کرشنا کا دوست سمجھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ معاشرے نے انھیں جس ادھورے پن کا احساس دلایا، بھگوان نے اسے پورا کیا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More