Getty Images
پاکستان میں منگل کی شب 6.8 شدت کے زلزلے کے باعث صوبہ خیبرپختونخوا میں کم سے کم نو افراد ہلاک جبکہ 46 زخمی ہوئے ہیں۔ اس زلزلے کا مرکز افغانستان میں ہندوکش سلسلہ میں بتایا گیا ہے۔
ترجمان پی ڈی ایم اے (خیبرپختونخوا) نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کے علاقوں سوات، چترال، صوابی، خیبر، لوئر دیر اور مردان میں گھروں کی چھتیں گرنے کے باعث ہلاکتیں ہوئیں۔
قدرتی آفات کے قومی ادارے، این ڈی ایم اے، کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پنجاب، بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کسی خاص نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
این ڈی ایم اے کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں واقع کثیر المنزلہ رہائشی عمارت ’خداداد ہائیٹس‘ میں دراڑیں پڑی ہیں جس کے بعد اس عمارت سے رہائشیوں کا انخلا کر دیا گیا تھا۔
گذشتہ شب افغانستان، پاکستان اور انڈیا میں آنے والے زلزلے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے محقق فرینک ہوگریٹس کا تذکرہ ہوتا دکھائی دیا جنھوں نے ترکی اور شام میں آنے والے زلزلے سے تین روز قبل کہا تھا کہ کہ جلد یا بدیر 7.5 شدت کا ایک زلزلہ اس خطے (جنوبی و وسطی ترکی، اردن، شام، اور لبنان) میں تباہی مچائے گا۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ کے آغاز میں ترکی اور شام میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں 50 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
محقق فرینک ہوگریٹس کے ادارے کی جانب سے 30 جنوری کو ایک اور ٹویٹ کی گئی تھی جس میں اُنھوں نے بنگلہ دیش اور چین کے علاوہ پاکستان و افغانستان کے متعدد علاقوں میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافے کا امکان ظاہر کیا تھا۔
یہ کہا گیا تھا کہ ان جامنی پٹیوں والے علاقوں یا ان کے قریب اگلے ایک سے چھ دن تک شدید ارضیاتی سرگرمی کا امکان موجود ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ان پٹیوں سے باہر موجود علاقے اس امکان سے خارج نہیں ہیں۔
https://twitter.com/ssgeos/status/1619828792612257792
لہذا گذشتہ شب افغانستان پاکستان اور انڈیا میں چھ اعشاریہ آٹھ کے آنے والے زلزلے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے پیش گوئی کو حکومت کی جانب سے سنجیدہ نہ لینے کی بات کی گئی۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان لیاقت شہوانی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈچ سائنسدان نے ترکی، شام اور پاکستان میں زلزلے کی پیشگوئی کی تھی جو بدقسمتی سے درست ثابت ہوئی، لیکن اس پیشگوئی کو سنجیدہ لینے کی بجائے پاکستان کے کوہ پیما مرکز کے ڈائریکٹر نے مسترد کر دیا تھا اور آج مہینے بعد ڈچ سائنسدان درست ثابت ہوئے۔‘
https://twitter.com/liaquatshahwani/status/1638235396814282765?s=46&t=evoOzmcHfdfFLO0wJOVOqQ
اسی طرح انڈیا سے تعلق رکھنے والے صارف ابھیمنیو نے بھی ڈچ محقق کی ٹویٹ کا سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ سچ ثابت ہو گیا جس کی انھوں نے ڈیڑھ ماہ پہلے پیشگوئی کی تھی۔‘
https://twitter.com/AbhimanyuX_/status/1638227974133776385
چنانچہ اس خطے میں شدید نوعیت کا زلزلہ آنے کے بعد لوگ لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا زلزلوں کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے؟
یاد رہے کہ پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ان افواہوں اس وقت بھیمسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان میں زلزلوں کا امکان ہمیشہ رہتا ہے مگر ان کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔
محکمہ موسمیات نے کہا تھا کہ پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک میں کسی بڑے زلزلے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے مگر یہ کب اور کہاں آئیں گے، یہ بتانا موجودہ ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہے۔
اینڈرائڈ فون پر زلزلے سے متعلق گوگل الرٹ کیسے ممکن ہے؟
منگل کی شب افغانستان، پاکستان اور انڈیا میں چھ اعشاریہ آٹھ کی شدت سے آنے والے زلزلے کے وقت ان ممالک میں اینڈرائڈ فونز استعمال کرنے والے بیشتر صارفین کو زلزلے کے جھٹکوں سے چند سکینڈز قبل یا اس دوران ایک گوگل الرٹ موصول ہوا جس میں زلزلہ کی اطلاع دی گئی۔
موبائل فونز پر اس ہنگامی صورتحال کے متعلق اطلاع پر بہت سے افراد حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ گوگل کو زلزلہ کی پیشگی اطلاع موصول ہو گئی جبکہ زلزلے کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔
https://twitter.com/thesaadkaiser/status/1638239971839549441?s=46&t=X1ZoJ8HPqMIFSm3ya6QbZg
اس بارے میں سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین نے اس الرٹ کے متعلق اپنے تجربات بیان کیے ہیں۔
کوئی اسے جانیں بچانے کا اہم طریقہ قرار دے رہا ہے تو کوئی یہ پیغام موصول نہ ہونے کی وجوہات پوچھ رہا ہے۔
ایک صارف نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجھے زلزلے سے پانچ منٹ پہلے زلزلے سے متعلق الرٹ موصول ہوا اور میں نے یہ سوچتے ہوئے بند کر دیا کہ اس کو کیا پتا۔‘
https://twitter.com/AyeshaBayg/status/1638227309256646674
مگر گوگل نے یہ اینڈرائٹ الرٹ کیسے جاری کیا؟
گوگل کے کرائسز رسپانس سینٹر کی جانب سے زلزلے سے متعلق الرٹ جاری کرنے کے طریقہ کا کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ تمام سمارٹ فونز میں چھوٹے ایکسلرومیٹرز ہوتے ہیں جو رفتار اور تھرتھراہٹ محسوس کر سکتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ ممکنہ زلزلہ ہو سکتا ہے۔
جب ایک علاقے میں جہاں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں وہاں موجود صارفین کے فونز اگر کسی ایسی چیز کا پتہ لگاتے ہیں جس کے بارے میں اسے لگتا ہے کہ یہ زلزلہ ہو سکتا ہے، تو گوگل کے زلزلے کا پتہ لگانے والے سرور کو زلزلے کے اس مقام سے متعلق کے ایک سگنل بھیجتا ہے۔ اس کے بعد سرور کئی فونز کی معلومات کو یکجا کرتا ہے تاکہ یہ معلوم کر سکے کہ آیا زلزلہ آ رہا ہے۔ گوگل اس طریقہ کار کو دنیا کے سب سے بڑے زلزلے کا پتہ لگانے کے نیٹ ورک کو تشکیل دینے کا کام کرتا ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں لگ بھگ دو بلین اینڈرائیڈ فونز کو منی سیسمومیٹر کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ فونز زلزلے کے جھٹکوں کی شدت اور رفتار کا پتہ لگاتے ہیں اور اس کے مطابق متاثرہ قریبی علاقوں میں اینڈرائیڈ صارفین کو الرٹ کرتے ہیں۔
گوگل کے مطابق اینڈرائیڈ دو قسم کے نوٹیفیکیشنز یا الرٹ جاری کرتا ہے جو صارفین کو زلزلے سے آگاہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ الرٹ کے دونوں پیغامات صرف 4.5 یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلوں کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔
ایک پیغام جسے ’بی آویر الرٹ‘ کہا جاتا ہے زلزلے سے متعلق 15 سے 20 سیکنڈز پہلے اطلاع دینے کا کام کرتا ہے اور آپ کو ممکنہ جھٹکوں کے لیے تیار رہنے اور محفوط مقام پر منتقل ہونے کے موقع دیتا ہے۔
تاہم یہ پیغام 4.5 یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم اگر آپ کے فون پر رنگ ٹون کی آواز بند ہے یا ڈو ناٹ ڈسٹرب اور نوٹیفکیشن بند ہیں تو یہ صرف آپ کی سکرین پر نمودار ہو گا۔
جبکہ دوسری قسم کا پیغام آپ کو زلزلے سے چند سکینڈز قبل فوری طور پر حرکت میں آنے اور محفوظ مقام پر منتقل کرنے سے متعلق اطلاع دے گا۔ اس کو ’ٹیک ایکشن الرٹ‘ کہا جاتا ہے۔
یہ پیغام بھی صرف 4.5 یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلوں کے وقت صارفین کو بھیجا جاتا ہے۔ تاہم یہ پیغام آپ کے فون پر ڈو ناٹ ڈسٹرب کی سیٹنگز کو توڑتے ہوئے آپ کی فون سکرین پر نہ صرف نمودار ہوتا ہے بلکہ اونچی آواز میں رنگ ٹون بھی بجاتا ہے۔
تاہم یہ دونوں طرح کے پیغامات آپ کو صرف اس وقت محسوس ہو سکتے ہیں جب آپ کے موبائل فونز پر نہ صرف لوکیشن سیٹنگز آن ہو، بلکہ آپ کا فون وائی فائی یا موبائل ڈیٹا کے ذریعے انٹرنیٹ سے بھی منسلک ہو۔
کیا سیاروں کی گردش زلزلوں کا پتا دے سکتی ہے؟
فرینک ہوگربیٹس کا دعویٰ ہے کہ آسمان میں سیاروں کا محلِ وقوع زلزلوں کی وجہ بن سکتا ہے۔
تاہم سائنسی برادری میں اس حوالے سے اتفاق موجود ہے کہ زلزلوں کی پیش گوئی کرنے کا کوئی طریقہ فی الوقت سائنس کے پاس موجود نہیں اور نہ ہی ان کے مطابق ایسا کوئی طریقہ مستقبل میں تیار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
امریکی جیولوجیکل سروے دنیا میں زلزلوں پر نظر رکھنے اور تحقیق کرنے والے صفِ اول کے اداروں میں سے ایک ہے اور اس ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے اور نہ دیگر سائنسدانوں نے کبھی کسی بڑے زلزلے کی پیش گوئی کی ہے۔
ادارے کے مطابق ہم ابھی بھی نہیں جانتے کہ پیشگوئی کیسے کی جائے بلکہ اس کے صرف امکان کا حساب لگایا جا سکتا ہے کہ فلاں علاقے میں اتنے برس میں ایک بڑا زلزلہ آنے کا کتنا امکان ہے۔
جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی پیشگوئی میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے، یعنی وقت اور تاریخ، مقام، اور شدت۔ اگر کوئی ’پیشگوئی‘ ان میں سے تینوں چیزیں فراہم نہیں کرتی تو اسے ایک غلط پیشگوئی تصور کیا جائے گا۔
BBC
فرینک ہوگربیٹس جس ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے کے ساتھ وابستہ ہیں وہ باقاعدگی سے سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر کچھ امکانات ظاہر کرتا ہے کہ کس علاقے میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ترکی میں آنے والے اس زلزلے سے قبل جب اس ادارے نے اپنی ایک ویڈیو جاری کی تھی تو انھوں نے مغربی چین، پاکستان، افغانستان، انڈیا اور مشرقی چین کے درمیان کے علاقے میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافے کا کہا تھا مگر ترکی میں زلزلے کے امکان کے حوالے سے کوئی تاریخ نہیں دی گئی تھی، چنانچہ اسے امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ’پیشگوئی‘ نہیں کہا جا سکتا اور سائنسدان زلزلے کے ’امکان‘ اور ’پیشگوئی‘ میں فرق کرنے کے قائل ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
زلزلے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کتنے وقت تک زندہ رہ سکتے ہیں؟
جوہری پلانٹ دھماکے سے سونامی کی افواہوں تک، وہ مناظر جنھیں ترکی میں زلزلے سے جوڑا جا رہا ہے
ترکی کے سنسان شہروں کی خاموشی کو چیرتی آہیں: ’تم نے بہت دیر کر دی۔۔۔ کاش پہلے آ گئے ہوتے‘
امریکی جیولیوجیکل سروے کے مطابق حالیہ کئی تحقیقی مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چاند کی وجہ سے زمین کی سطح اور سمندر کی لہروں کے بلند ہونے اور کچھ طرح کے زلزلوں کے درمیان ایک تعلق موجود ہے مگر اس کے نتیجے میں جو امکان بڑھتا ہے، وہ تب بھی بے حد کم ہی رہتا ہے۔
اسی طرح امریکہ کی برکلے یونیورسٹی کے مطابق اِجرامِ فلکی کے محلِ وقوع کی وجہ سے زلزلوں کی شرح اور ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔
زلزلوں کی پیشگوئی کرنے کے لیے مختلف طریقوں پر کام جاری ہے جن میں زلزلے سے پہلے جانوروں کے رویے کا جائزہ لینا اور اس کی بنیاد پر زلزلے کی پیشگوئی کرنا شامل ہے۔ کچھ مطالعوں میں ان کے درمیان تعلق تو پایا گیا ہے مگر اب بھی اس حوالے سے سائنسی برادری کسی حتمی اور ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچی ہے، چنانچہ جانوروں کا پہلے ہی محفوظ ٹھکانے کی جانب چلے جانا اب بھی سائنسی طور پر ثابت شدہ نہیں ہے۔
کیا کوئی پیشگی اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
ایک صحافی الیا ٹوپر نے فرینک ہوگربیٹس کے جواب میں کہا کہ زلزلے سے نقصان روکنے کا واحد طریقہ محفوظ عمارتیں بنانا ہے، یہ نہیں کہ حکام روزانہ لوگوں کو مہینوں اور برسوں تک گھروں سے رات باہر گزارنے کا کہتے رہیں۔
واضح رہے کہ سنہ 2009 میں اٹلی کے شہر لا اقوئیلا میں آنے والے ایک خوفناک زلزلے میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد چھ سائنسدانوں اور ایک سرکاری عہدیدار پر مقدمہ چلایا گیا تھا کہ اُنھوں نے زلزلے کا خطرہ ہونے کے باوجود اسے گھٹا کر پیش کیا جس کی وجہ سے کئی لوگ ہلاک ہو گئے۔
یہ ٹرائل سات برس تک جاری رہا جس کے بعد ان تمام افراد کو رہا کر دیا گیا مگر اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زلزلوں کی پیشگوئی کرنا کتنا مشکل کام ہے، یا تو ایسی پیشگوئیاں افراتفری پھیلا سکتی ہیں یا پھر اگر ان میں کوئی غلطی ہو جائے تو لوگوں میں تحفظ کا ایک بے بنیاد احساس پیدا ہو سکتا ہے۔
اور اگر واقعی کوئی پیشگوئی درست ثابت ہو بھی جائے، تب بھی انخلا کے منصوبوں اور زلزلے سے محفوظ عمارتوں کی ضرورت بہرحال رہے گی۔
امریکی جیولوجیکل سروے کی سائنسدان سوزن ہو کہتی ہیں کہ ’اگر آپ زلزلے کے خلاف مزاحمت اور تحفظ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو خطرے اور زلزلے سے ہونے والی حرکت کا اندازہ لگا کر اس حساب سے عمارتیں تعمیر کرنی چاہییں، پیسے کا بہتر استعمال یہی ہو گا۔‘