’وارث پنجاب دے‘ کے سربراہ امرت پال سنگھ کون ہیں اور انڈیا کو دوبارہ اُبھرتی خالصتان تحریک سے کتنا خطرہ ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 21, 2023

Getty Images

انڈیا کی ریاست پنجاب میں پولیس نے گذشتہ سنیچر کو سکیورٹی فورسز کی مدد سے خالصتان حامی اُبھرتے ہوئے خودساختہ سکھ مبلغ امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے لیے بڑے پیمانے پر تیاریاں کر رکھی تھیں۔

پولیس نے ان کے کئی قریبی ساتھیوں کو گرفت میں لے لیا تھا لیکن امرت پال سنگھ پولیس کو چکما دے کر نکل گئے۔

دوسری جانب اُن کے گھر والوں کو اندیشہ ہے کہ پولیس نے انھیں بھی گرفتار کر لیا ہے لیکن اُن کی گرفتاری کو ظاہر نہیں کیا جا رہا۔ انھوں نے مقامی عدالت میں حبس بے جا کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل سکھ چین سنگھ نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ اس کارروائی کے دوران اب تک ’وارث پنجاب دے‘ نامی تنظیم کے 114 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے، چھ مختلف ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں اور دس ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔‘

آئی جی سکھ چین نے مزید بتایا کہ ’امرت پال سنگھ ابھی مفرور ہیں اور انھیں پکڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔‘

پولیس کی اس کارروائی سے پورے پنجاب میں گھبراہٹ پیدا ہو گئی ہے۔ امرتسر کے سینیئر صحافی رابن سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ریاست میں ایک طویل عرصے سے امن تھا لیکن صورتحال میں اچانک تبدیلی آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پنجاب میں خالصتان کا ایسا کوئی اثر باقی نہیں تھا۔ کچھ حلقوں میں اس کا تھوڑا بہت اثر باقی ہو سکتا ہے لیکن کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور پاکستان میں خالصتان حامی تنظیمیں اور کارکن پچھلےکچھ عرصے سے بہت سرگرم ہیں جن سے ریاست کے ماحول پر بھی اثر پڑتا ہے۔ امرت پال سنگھ کے آنے سے میڈیا میں خالصتان کا چرچا زیادہ ہونے لگا ہے۔‘

Getty Images

چندی گڑھ میں بی بی سی کے نامہ نگار اروند چھابڑہ کا کہنا ہے کہ ’پنجاب میں سکیورٹی فورسز ایک عرصے سے یہ محسوس کر رہی ہیں کہ انتہا پسندی کے نظریات کو فروغ مل رہا ہے۔

’ریاست میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی ہے اور عام تاثر یہ ہے ‏کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت اس ضمن میں کچھ مؤثر قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔‘

پنجاب سے کانگریس کے رکن پارلیمان امر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ریاست میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے بہت سی باتیں واضح نہیں ہیں۔ پنجاب میں امن و امان کا مسئلہ ہے، گینگسٹر کلچر پھل پھول رہا ہے۔ لوٹ مار، جبری وصولی کے معاملات زیادہ ہو رہے ہیں۔‘

پنجاب کے ایک اور رہنما اور بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان وجے سامپلا کے مطابق ’امر پال سنگھ نے پنجاب میں تھانے پر یلغار کی، یہاں فساد پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ریاست کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن پنجاب حکومت نے اچانک جس طرح کارروائی کی ہے اس سے لوگوں میں ڈر پیدا ہو گیا ہے۔‘

یاد رہے کہ 29 سالہ امرت پال سنگھ نے گذشتہ 23 فروری کو اپنے ایک ساتھی کو پولیس کی حراست سے چھڑانے کے لیے امرتسر کے نزدیکی قصبے اجنالہ میں اپنے سینکڑوں حامیوں کے ساتھ پولیس سٹیشن پر یلغار کر دی تھی۔

انھوں نے سکھوں کی مقدس مذہبی کتاب ’گروگرنتھ‘ صاحب کو شیلڈ بنا رکھا تھا۔ پولیس نے مقدس کتاب کی بے حرمتی کے خدشے کے پیش نظر امرت پال اور ان کے حامیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور ان کے زیر حراست ساتھی کو بھی رہا کر دیا تھا۔

اس واقعے کے بعد پولیس پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ اُن پر الزام لگایا گیا کہ کوئی کارروائی نہ کرنے کے سبب خالصتان حامی امرت پال سنگھ کا حوصلہ بہت بڑھ گیا ہے لیکن پولیس اس پسپائی کے بعد انھیں اور وارث پنجاب دے کے ارکان کو گرفت میں لینے کی تیاریاں کر رہی تھی۔

Getty Imagesامرت پال سنگھ کون ہیں؟

امرت پال سنگھ ایک کم گو 29 سالہ نوجوان ہیں جن کی پیدائش امرتسر ضلع کے ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔

سنہ 2012 میں وہ اپنے والدین کے ٹرانسپورٹ بزنس مییں ہاتھ بٹانے کے لیے دبئی منتقل ہو گئے تھے۔ سوشل میڈیا پر وہ اپنے پیغامات میں سکھوں کے اتحاد اور علیحدہ ریاست کی باتیں کرتے ہیں جن کے باعث انھیں مقبولیت حاصل ہونے لگی۔

کئی برس دبئی رہنے کے بعد وہ گذشتہ برس اگست میں کسانوں کی تحریک کے دوران انڈیا آئے۔

اس وقت ان کی داڑھی ترشی ہوئی تھی اور سر کے بال کٹے ہوئے تھے۔ ایک مہینے بعد اداکار اور سماجی کارکن دیپ سدھو کی ایک کار حادثے میں موت کے بعد قائم کی گئی تنظیم ’وارث پنجاب دے‘ کا انھیں سربراہ منتخب کیا گیا۔

یہ تقریب 1980 کے اوائل میں خالصتان تحریک کے بانی جرنیل سنگھ بھنڈرا والے کے گاؤں میں منعقد کی گئی۔ یاد رہے کہ جرنیل سنگھ بھنڈرا خالصتان کے زبردست حامی تھے اور ان کی موت گولڈن ٹیمپل میں متنازع آپریشن بلیو سٹار کے دوران ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

خالصتانی تحریک: مظاہرین کے انڈین سفارتخانے سے ترنگا اُتارنے پر مودی حکومت کا برطانیہ سے باضابطہ احتجاج

خالصتان حامی امرت پال سنگھ کی بڑھتی مقبولیت سے انڈین سکیورٹی ادارے پریشان کیوں ہیں؟

امرت پال جرنیل سنگھ بھنڈرا کو اپنی ترغیب کا محور قرار دیتے ہیں۔ وہ بارہا اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ سکھوں کی ایک علیحدہ مملکت ہونی چاہیے۔

انھوں نے نامہ نگاروں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا’اگر آر ایس ایس اور ہندو رہنما انڈیا میں ہندو راشٹر قائم کرنا چاہتے ہیں تو سکھ خالصتان کی تمنا کیوں نہیں کر سکتے؟‘

ان کی داڑھی اب مذہبی سکھوں کی طرح بڑھی ہوئی ہے۔ وہ اب پگڑی پہنتے ہیں اور مذہبی کرپان لٹکا کر چلتے ہیں۔ وہ لباس اور اپنے انداز میں علیحدگی پسند بھنڈرا والے کی تقلید کرتے ہیں اور جگہ جگہ جا کر تقاریر کرتے ہیں۔

Getty Imagesپنجاب میں ان کی مقبولیت میں اضافے کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ مہینوں میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن پنجاب کی سیاست اور پیچیدہ صورتحال میں ایک نوجوان ریڈیکل سکھ رہنما کے اچانک نمودار ہونے کے بارے میں کئی لوگ شک کا اظہار کرتے ہیں۔

انڈیا میں انگریزی جریدے ’کیریوان‘ کے مدیر ہرتوش سنگھ بل نے دعویٰ کیا کہ ’امرت پال کے آنے سے مرکز خوش ہے، ایجنسیاں خوش ہیں، بی جے پی خوش ہے۔ یہ تو عام آدمی پارٹی کی ریاستی حکومت ہے جو اپنی نا تجربہ کاری سے یہ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ ممکنہ طور پر امرت پال آیا نہیں بلکہ لایا گیا ہے۔‘

امرت پال سنگھ اپنے بیانات کے سبب تنازعات میں گھرے رہتے ہیں۔ وہ اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ پانی کا تنازع ہو، منشیات کی لت کا مسئلہ ہو یا پنجابی کلچر کے زوال کا سوال ہو، پنجاب کے مسئلے کا دائمی حل سکھوں کی ایک علیحدہ مملکت کا قیام ہے۔

وہ اپنے بیانات کے لیے ہی نہیں، دبئی سے ان کی وابستگی کے سبب بھی سوشل میڈیا پر اکثر توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔

وہ ایک مہنگے ماڈل کی مرسیڈیز میں سفر کرتے تھے اور ان کے ہمراہ کئی مسلح کارکن ان کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے۔

ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ امرت پال سنگھ اپنے متنازع بیانات سے پنجاب میں سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان تفرقہ پیدا کر رہے ہیں اور اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچ رہا ہے۔

انڈیا کی خفیہ ایجنسیاں کئی مہینے سے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔ امرت پال کی گرفتاری کے لیے گذشتہ 15 دنوں سے تیاریاں چل رہی تھیں۔

امرت پال کو سنیچر کو ایک تقریب میں شرکت کے لیے جاتے وقت راستے میں گرفتار کیا جانا تھا۔ اس کارروائی میں سینکڑوں پولیس افسر اور مرکزی فورسز کے اہلکار شامل تھے۔ اس کے باوجود پولیس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بچ نکلنے میں کامیابہو گئے۔ ان کے سبھی اعلیٰ مشیروں اور کئی قریبی رشتے داروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس واقعے کے بعد اتوار کو خالصتان کے حامیوں نے احتجاج میں لندن میں واقع انڈیا کے ہائی کمیشن کی بالکونی میں ٹنگے ہوۓ انڈیا کے پرچم کو اتار دیا اور وہاں خالصتان کا پرچم لہرانے کی کوشش کی۔

خالصتان کے حامیوں نے امریکہ میں سین فرانسسکو میں واقع انڈیا کے قونصل خانے کے باہر بھی ہنگامہ آرائی کی۔

انڈیا نے انگلینڈ اور امریکہ کی حکومتوں سے ان واقعات کے لیے شدید احتجاج کیا ہے۔

انڈیا نے مطالبہ کیا ہے کہ خالصتان حامی تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکا جائے۔ پنجاب میں سیاسیات کی پروفیسر ڈاکٹر کنول پریت کہتی ہیں کہ ’ریاستی حکومت نے امرت پال کے واقعے سے بہت سمجھداری سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پنجاب میں خالصتان کے تصور کو اب قبولیت حاصل نہیں ہے کیونکہ یہ 80 یا 90 کی دہائی نہیں ہے۔ آج نوجوان اچھی تعلیم حاصل کرنے، ملازمت حاصل کرنے یا اچھے مستقبل کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں نے دہشت گردی کے سائے میں پرورش پائی ہے۔ ہماری نسل نے تشدد اور خونریزی دیکھی ہے۔ ریاست کی ہر عورت یہی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر، بیٹا، بیٹی، بھائی سبھی شام میں بحفاظت گھر لوٹیں۔ پنجاب نے پہلے ہی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے اور اب جب وہ اپنے تلخ ماضی سے نکل رہا ہے، دوبارہ وہ دہشتگردی اور خونریزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More