پنکی سے بینظیر اور محترمہ شہید تک۔۔ بینظیر بھٹو کی زندگی سے جڑے کچھ اہم راز

ہماری ویب  |  Dec 28, 2022

برطانیہ سے باپ کی سیاست میں ہاتھ بٹانے کیلئے آنے والی پنکی کو خود معلوم نہیں تھا کہ حالات ایسا پلٹا کھائیں گے کہ نوجوان پنکی کو اچانک محترمہ بننا پڑے گا، پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم، بیواؤں اور یتیموں کے لیے ماہانہ وظیفہ، بیروزگاروں کو ہر دور میں روزگار دیا، بھارت کو پاکستان پر جوہری حملہ نہ کرنے کا پابند بنایا، جیل کاٹی اور جلا وطن بھی رہیں۔ پنکی سے بینظیر اور محترمہ شہید تک۔۔ بینظیر بھٹو کی زندگی سے جڑے وہ راز جن سے شائد آپ ناوقف ہوں۔

بے نظیربھٹو 21 جون 1953ء میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی بینظیر کو بچپن میں پنکی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول ا ور کونونٹ آف جیزز اینڈ میری کراچی میں حاصل کی۔ بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی سے 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کیا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ بینظیر اکسفورڈ یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے درمیان کافی مقبول رہیں۔ بے نظیر برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ ملک کے خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 میں پاکستان پیپلزپارٹی بنیاد رکھی۔ بھٹو پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر سڑکوں اور چوراہوں پر عام لوگوں کے درمیان لائے۔

1977 میں بھٹو کی حکومت برطرف کرکے مارشل لگانے کے بعد ملک میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ ضیاء الحق کے مارشل کے دوران لوگوں کی زبانوں پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔ 4 اپریل 1979 کو بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد پیپلزپارٹی میں ایک نئی جان آئی۔ہارورڈ اور آکسفورڈ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ پنکی نے بینظیر تک کے سفر کا آغاز کیا۔ اس پرخار راستے پر چلنے سے پہلے ہی بینظیر کو پابند سلاسل کردیا گیا۔

1984 میں جیل سے رہائی کے بعد جلاوطنی کا طوق بھی گلے میں ڈالا، بینظیر کی ثابت قدمی اور عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پیپلزپارٹی نے انہیں اپنا سربراہ بنالیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیا۔ 1984ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی جس کے بعد انھوں نے دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔

ملک سے مارشل لا اٹھائے جانے کے بعد جب اپریل 1986ء میں بے نظیر وطن واپس لوٹیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے لاہور میں مینار پاکستان کے میدان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ اس وقت اہل لاہور کا ایسا جم غفیر تھا کہ داتا دربار چوک سے مینارِ پاکستان کی محض ایک کلومیٹر سے بھی کم کا راستہ طے کرنے کیلئے ساڑھے تین گھنٹے کا وقت لگا۔

یہاں بینظیر نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کیا اور 1987ء میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ شادی کے بعد بھی بینظیر نے اپنی سیاسی جِدوجُہد کا دامن بھی نہیں چھوڑا۔

17 اگست 1988ء میں ضیاءالحق کی شہادت کے بعد 16 نومبر 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے اورپیپلزپارٹی کی بھرپور کامیابی کے بعد بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ اورخاتون وزیراعظم کے اقتدار سنبھالنے کے بعد لوگوں کو یہ امید تھی کہ اب روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے شائد حقیقت بن جائیں لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ بینظیر کی پہلی حکومت کوصرف 20 ماہ بعد ہی کرپشن کے الزامات کی وجہ سے برطرف کردیا گیا۔حکومت کی برطرفی کے باوجود عوامی مقبولیت کم نہ ہوئی اور بینظیر 1993 کو ایک بار پھر وزیراعظم بن گئیں

قسمت کی خرابی یا کرپشن کی زیادتی کی وجہ سے ان کی اپنی پارٹی کے صدر فاروق لغاری نے بینظیر کی حکومت کو چلتا کردیا۔دوستو یہاں اگر ہم آپ کو حالیہ سیاست کی مثال دیں تو تحریک عدم اعتماد کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک فرضی خط کی بنا پر اسمبلی توڑنے کیلئے اپنی جماعت کے صدر کو خط لکھا جس پر عارف علوی نے بنا سوچے سمجھے اسمبلیاں تحلیل کردیں۔

اگر ہم بینظیر کا معاملہ دیکھیں تو اپنی ہی پارٹی کے صدر کا اپنی کی وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانا عجیب سا لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بینظیر کے پہلے دور کے 20 ماہ میں ان پر سنگین کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے اور دوسرے دور میں بھی کرپشن میں کوئی کمی نہیں آئی۔بینظیر کے دور میں ہی بدامنی اتنی بڑھی کے ان کے اپنے سگے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

بینظیر کے ہر دور میں کرپشن کے الزامات عام رہے اور کرپشن کی ان داستانوں میں ہمیشہ ان کے شوہر آصف زرداری کا نام پیش پیش رہا۔بینظیر کے دور میں ہی آصف زرداری کو ہر منصوبے میں کمیشن اور کرپشن کی وجہ سے مسٹر 10 پرسنٹ کا خطاب ملا، بینظیر کو کرپشن کی وجہ سے کئی کیسز کا سامنا کرنا پڑا اور آصف زرداری نے کئی سال جیل بھی کاٹی۔

بینظیر پر سوئٹزرلینڈ میں مقدمہ چلا اور عدالت نے بے نظیر بھٹو پر جرمانہ بھی عائد کیا مگر بعد ازاں اس فیصلے کو معطل کردیا گیا۔اپنی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں قیام کیا۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن تقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو2007 وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔

بینظیر اپنے بچوں(بلاول، بختاور اور آصفہ) سے ملنے دوبارہ دوبئی گئیں تو جنرل مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر دی۔ یہ خبر سنتے ہی بے نظیر دبئی سے واپس وطن لوٹ آئیں۔ ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔

27 دسمبر کی ایک شام راولپنڈی میں جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد کبھی طالبان، کبھی بلیک واٹر اور کبھی امریکا پر الزام لگایا جاتا رہا لیکن 15 سال گزرنے کے بعد آج تک ان کے اصلی قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا۔

اس سے پہلے بے نظیر کے ادوار میں ہی چین کے ساتھ دوطرفہ معاہدے کے تحت نیوکلیئر پاور پلانٹ کا قیام،پاکستان میں مزید اسٹیل ملز کے لیے روس کے ساتھ معاہدے،کامن ویلتھ ممالک میں پاکستان کا دوبارہ داخلہ،پاکستان میں سارک کانفرنس کا انعقاد،بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی بحالی۔ غیر جوہری جارحیت کا معاہدہ جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہیں کر سکتے تھے، معاہدے 1988 میں دستخط کیے گئے۔

یہی نہیں بلکہ بینظیر کے ادوار میں روزگار ، بجلی گیس اور سڑکوں کے منصوبے بھی بنائے لیکن آج جہاں کرپشن اور بدانتظامی ہو وہاں پیپلزپارٹی کا نام لازمی لیا جاتا ہے۔عوامی جماعت پیپلزپارٹی اپنی کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے چاروں صوبوں سے سمٹ کر صرف سندھ اور وہ بھی چند اضلاع تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More