دونوں ہاتھ نہیں تو کیا ہوا میں پھر بھی آفیسر بنوں گا۔ یہ الفاظ اس باہمت بچے کے ہیں جو پیدائشی طور پر ہاتھوں کی نعمت سے محروم ہے۔ اس بچے کا نام ہے علی رضا جو کہ ملتان کا رہائشی ہے۔ اس کے 5 بہن بھائی اور بھی ہیں جبکہ یہ سب بہن بھائیوں میں چھوٹا ہے۔
علی رضا کا کہنا ہے کہ ہمارے مالی حالات اتنے ٹھیک نہیں ماں اور باپ دونوں مزدوری کرتے ہیں۔ لیکن مجھے پھر بھی پڑھنے کا شوق ہے تاکہ کچھ بن جاؤں اور میرے والد کو 800 دیہاڑی پر کام نہ کرنا پڑے۔
مزید یہ کہ تیسری کلاس کا یہ بچہ اپنے پیروں سے ہی اس قدر اپنا اسکول کام خوبصورتی سے کرتا ہے جتنا کوئی ہاتھوں والا بچہ بھی نہیں کر سکتا۔
صرف اسکول ہی نہیں بلکہ ٹیوشن اور مدرسے بھی تعلیم کیلئے جاتا ہے۔ یہ جس اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے اس کے پرنسپل کہتے ہیں کہ میں جب اس بچے کو جب دیکھا تو بہت متاثر ہوا کہ ہاتھ نہ ہونے کے باوجود بھی یہ اپنے پیروں سے لکھنے کی کوشش کر رہا ہے تو میں اسے اسکول لے آیا جہاں میں نے پہلے اس کی والدہ کو سمجھایا۔
اور پھر اس کا زہن بنایا کہ بیٹا آپ کے ہاتھ نہیں تو کئی بات نہیں دیکھو یہ انٹرنیٹ پر کتنے لوگ ایسے ہیں جن معذور ہیں پر وہ پھر بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں بس پھر کیا تھا اس نے بھی سوچ لیا کہ مجھے بھی تعلیم حاصل کرنی ہے کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے میں گھر والوں کاسہارا بن سکتا ہوں۔