انسان جب ٹھیک ہوتا ہے تو اسے یہ زندگی حسین نہیں لگتی پر جب اسے معمولی سی چوٹ لگ جائے تو وہ درد سے چیخ اٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم آپکے سامنے ایک ایسی عورت کی کہانی لے کر پیش ہوئے ہیں جو برسوں سے بیٹھی ہی ہوئی ہے۔
اس خاتون کا نام غزالہ پروین ہے جو کہ آج سے 20 سال پہلے سیڑھیوں سے گریں تو کمر میں چوٹ آگئی جو وقت کے ساتھ گہری ہوتی گئی۔ پیسے نہ ہونے کے باعث یہ کسی اچھے ڈاکٹر کو علاج کیلئے دکھا نہ سکیں یہی وجہ ہے کہ بیٹھے بیٹھے ان کا وزن 300 کلو ہو گیا جس کی وجہ سے دوسروں کی محتاج ہو گئیں۔
آج یہ کسی غمی خوشی میں شریک نہیں ہوتیں کیونکہ انہیں اٹھانے بٹھانے کیلئے 6 سے 7 لوگ درکار ہوتے ہیں اور تو اور غزالہ کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی کافی بڑا ذخم جسم پر موجود ہے جس کی تکلیف ان کی جان نکال دیتی ہے۔
اب ان کے شوہر کو بھی فالج ہو گیا ہے تو شوہر کی دوسری بیوی میں سے جو اولاد ہے وہ ان کا کچھ خیال رکھتے ہیں۔
ان کی بیٹیوں نے سوتیلی ماں کی آج کے اس مطلبی زمانے میں بھی خوب خدمت کی اور بہنوں نے اپنا ایک چھوٹا بھائی اس ماں کے پاس بھیج دیا تاکہ ان کا ہر وقت خیال رکھ سکے۔ یہ مزید کہتی ہیں کہ خواہشیں تو بہت تھیں زندگی میں پر اب چاہتی ہوں کہ کوئی اللہ کا نیک بندہ مجھے عمرہ و حج کروا دے اور ایک اپنا گھر لے دے۔
کیونکہ مجھے کرائے کی فکر نہ ہو اور جو پیسے میرے پاس ہوں ان سے میں میڈیکل اسٹور والوں سے ہی دوائی تو لے سکوں یہی نہیں اس باہمت خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ مایوس نہیں ہوں لیکن میں بھی دنیا دیکھنا چاہتی ہوں۔
پر کیا کر سکتی ہوں ھناے میں آدھی روٹی کھاتی ہوں کہ کہیں وزن نہ بڑھ جائے پر پھر بھی کوئی فرق نہیں۔اب تو کافی عرصے سے معدے کا مرض بھی لاحق ہے۔