میں اس دنیا سے جاؤں تو لوگ کہیں کہ بابا قران پاک والا۔ یہ الفاظ ہیں اس مجبور باپ کے جس نے اپنے بچوں کو ایک اچھی زندگی دی پر آج سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہے۔ جی ہاں آج ہم بات کر رہے ہیں غازی آباد کے عظیم بزرگ کے بارے میں جو قرآن پاک کے مقدس اوراق جمع کرتے اور قبرستان میں رکھتے ہیں۔
پنجاب کے علاقے غازی آباد کی گلیوں میں جہاں کہیں بھی قرآن کے اوراق پڑے ہوتے ہیں، یہ انہیں اٹھانے پہنچ جاتے ہیں۔ یہی نہیں اس بابا جی کا کہنا ہے کہ ایک تو میں پورے علاقے میں گھومتا ہوں۔
جس کی وجہ سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہاں اوراق موجود ہیں جنہیں میں نے اٹھانا ہے تو دوسری طرف خواب میں مجھے اللہ پاک کی طرف سے معلوم بھی ہو جاتا ہے اس علاقے کی طرف مجھے جانا چاہیے۔
مزید یہ کہ ان کا کہنا ہے کہ میں محکمہ واپڈا کا ملازم تھا، اب پینشن پر ہوں تو وہ بھی بہو بیٹا چھین لیتے ہیں، مجھے گھر کے صحن میں سلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں تینوں وقت کی روٹی باہر سے کھاتا ہوں جس کے پیسے بھی مجھے کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ دے جاتا ہے۔ یہی نہیں اس نیک کام کی برکت ہے کہ میری اس لوہے کی ٹرالی میں جتنا بھی وزن ہو مجھے محسوس نہیں ہوتا۔
اور اس ٹرالی میں 1 یا 2 من اوراق ہوتے ہیں جسے میں قبرستان میں بنے اس کمرے میں رکھ جاتا ہوں اور تو اور اب آپ سمجھ رہے ہوں گے میں بوڑھا کیسے اتنا وزن اٹھا سکتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کام میں بھی میری مدد اللہ پاک کرتا ہے۔ کیونکہ مجھے ہمیشہ کمر میں درد رہتا ہے، ہاتھوں میں بھی کپکپاہٹ رہتی ہے۔