ہمارے معاشرے میں ساس اور بہو کے درمیان رسہ کشی کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے اور اس جھگڑے میں بیشتر واقعات میں سب سے زیادہ مشکل بیٹے یا شوہر کیلئے پیدا ہوتی ہے جو ماں اور بیوی کے درمیان کھنچاؤ کے دوران چکی کے دو پاٹوں میں پس کررہ جاتا ہے۔
ایک طرف ماں اور دوسری طرف بیوی دونوں کی نظر میں مرد ہی قصور وار کہلاتا ہے، کچھ خواتین اپنی بہو سے شفقت اور محبت سے پیش آتی ہیں لیکن کچھ ایسی بھی ساسیں ہوتی ہیں جو اپنی بہو کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر تسکین محسوس کرتی ہیں۔
اکثر گھرانوں میں ساس اپنی بہو سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ ان سے بھی اسی شدت سے محبت کرے جس طرح وہ اپنے والدین سے کرتی ہیں اور ہر بات پر اپنی بہو کا مقابلہ اپنی بیٹی سے کرتی ہیں، اسی طرح بہویں بھی اپنی ساس سے یہ توقع کرتی ہیں کہ وہ اسی مامتا بھری محبت کا اظہار ان سے کریں جیسا وہ اپنی بیٹی سے کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں معاشرے میں جہاں دوسری بہت سے سماجی برائیاں ہیں، وہیں جہیز کا رواج بھی عام ہے۔
سامان کم یا نہ ملنے کی صورت میں اکثر ساس اپنی بہو کو طعنے دیتی رہتی ہیں۔ شادی کے بعد لڑکے والوں کی طرف سے اکثر مطالبات کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جن کے پورا نہ ہونے کی صورت میں ساس بہو کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔
ایک اور بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں داماد کو بہت زیادہ عزت دی جاتی ہے لیکن بہو کو عزت دینے میں شش و پنج سے کام لیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ اپنی بیٹیوں کا گھر بسانے کیلئے کئی عیب ہونے کے باوجود داماد کو سر پر بٹھا لیتے ہیں اور اگر داماد بیٹی کو عزت دے تو اس کی تعریف کی جاتی لیکن اگر اپنا بیٹا بہو کو تھوڑی سی اہمیت دیدے تو اس پر طعنے کسے جاتے ہیں، اپنا گھر چھوڑ کر آنے والی بہو کو ایک نوکر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بہوؤں کوبھی عزت دی جائے تو ساس بہو کے رشتے میں تناؤ کم ہوسکتا ہے اور جب گھر کا ماحول خوشگوار ہوگا تو میاں بیوی کے تعلقات بھی اچھے ہونگے جس سے جھگڑوں اور طلاق جیسے مسائل میں بھی کافی کمی آسکتی ہے۔