یہ رنگ برنگی دنیا کس انسان کا چھوڑ کر جانے کو دل کرتا ہے پر ہر مسلمان یہ بات تو جانتا ہے کہ ایک نہ ایک دن تو اللہ پاک کے واپس جانا ہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم پاکستان کی مشہور شخصیات ضیاء الحق کے بارے میں بات کریں گے کہ ان کی زندگی کے آخری 3 دن کیسے گزرے تھے اور ان کی طبعیت کیسی تھی؟
ہوا کچھ یوں کہ جنرل ضیاء صاحب کی اہلیہ بیگم شفیق ضیاء کہتی ہیں کہ جب ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو اس دن میں بیٹی زین کے علاج کیلئے لندن کے ایک کلینک میں موجود تھی اور آپریشن تھیٹر میں جان سے پیاری بیٹی زین موجود تھی جس کا شام میں آپریشن ہونا تھا۔ ایسے میں میرے پاس وہاں کچھ حکومت لوگ آئے جنہوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان حکومت کا نظام فوج نے سنبھال لیا ہے۔
پر میں نے ان کی بات پر ٹھیک سے توجہ نہیں دی کیونکہ مجھے بیٹی کی پریشانی لاحق تھی ، پھر جب دوسرے دن زین کے ابو کا فون آیا تو معلوم ہوا کہ بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔
حکومت جیسی بڑی زمہ داری ملنے کے بعد بھی ان کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا بس فرق آیا تو یہ آیا کہ پہلے وہ بچوں کو شام میں یا اس ےس پہلے وقت دیا کرتے تھے لیکن اب رات میں بچوں کے ساتھ وقت گزارا کرتے تھے۔
مزید یہ کہ 14 اگست 1988 کی صبح وہ نماز کے وقت اٹھے، نماز پڑھی، پھر قران پاک کی تلاوت کی ، نہانے کے بعد ناشتہ کر کے ایوان صدر چلے گئے۔
وہاں پرچم کشائی کی تقریب میں شامل ہوئے، اس کے بعد اسکاؤٹس کی تقریب میں چلے گئے یہی نہیں جب واپس آئےچ تو بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ سارا دن لوگ ملنے کیلئے آتے رہے۔
رات کو اہلخانہ کیساتھ مل کر کھانا کھانے سے پہلے ٹی وی کی خبریں دیکھیں۔ یوں ہی 15 اگست کا دن بھی انہوں نے معمول کے مطابق گزارا اور شام کا گالف کھیلی۔ اس کے علاوہ 16 اگست کا زیادہ تر دن بھی اہلخانہ کے ساتھ گزارا، شام کے کھانے کے بعد وہ بچوں کے کمرے میں چلے آئے ، 3 بچے تک باتیں کرتے رہے اور کہا کہ صبح مجھے بہاولپور جانا ہے تو ہم نے کہ کہ آپ جلد سو جائیں۔
اس دن انہوں نے آدھی رات تھوڑا لیٹ عشاء کی نماز پڑھی اور صوفی صاحب سے کہا کہ مجھے صبح فجر کی نماز میں اٹھا دینا ۔ یوں 17 اگست کی صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد قران پاک کی تلاوت کی۔
مجھے ( اہلیہ) نیند سے اٹھانا مناسب نہ سمجھا اور پونے 8 بجے وہ گھر سے رخصت ہو گئے۔ پھر شام میں میں نے 5 بجے آپریٹر کو فون کیا کیا صدر صاحب کی کوئی اطلاؑ ہے کے کتنے بجے وہ وہاں سے چلنے والے ہیں تو انہوں نے کہہ ڈالا کہ ابھی کوئی اطلاع نہیں۔
اس کے بعد بیٹے کو دیکھا کہ وہ مختلف فونوں پر بات کر رہا ہے تو میں نے کہا انوار مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے، تو اس نے کہا کچھ نہیں امی، ابا جان کا جہاز کہیں خراب ہو گیا تو انہوں نے کہیں لینڈ کر لیا ہے۔
اب انہیں دیکھنے کیلئے جہاز گئے ہیں بس اتنے میں لندن سے بھی فون آگیا تو وہ پریشان ہو گیا۔ جس کے بعد میں نے آفس فون کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا ابھی ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔
جس کے بعد 7:30 بجے ہمیں معلوم ہوا کہ صدر صاحب کا جہاز کریش ہو گیا ہے ۔یاد رہے کہ جنرل ضیاع الحق محرم کے مہینے میں پیدا ہوئے اور محرم کے ماہ میں انتقال کر گئے۔