پاکستان میں حکمرانوں کی تنخواہ اور مراعات ہمیشہ سے ایک معمہ بنی رہی ہے کیونکہ عوام کی خدمت کے نام پر اقتدار سنبھالنے والے عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا دل کھول کر ضیاع کرتے ہیں اور اپنی عیاشی کیلئے ٹیکس کے پیسے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے تو ان کی بھی تنخواہ مقرر کی گئی، بعض لوگ کہتے ہیں کہ قائد اعظم ایک روپیہ تنخواہ لیتے تھے لیکن سرکاری دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ قائداعظم کی بطور گورنر جنرل اپریل 1948 کی تنخواہ 10416 روپے 10 آنے تھی چونکہ یہ بہت بڑی رقم تھی، اس لیے بھاری شرح سے انکم ٹیکس کے علاوہ سپر ٹیکس بھی لگا اور 6 ہزار روپے سے زیادہ ٹیکس کی کٹوتی کے بعد انہیں 4304 روپے 10 آنے ملے۔
آج پاکستان میں ارکان اسمبلی، وزراء اور صدر وزیراعظم کی تنخواہ لاکھوں میں ہے اور انہیں اسمبلیوں میں سبسڈی پر اشیاء فراہم کی جاتی ہیں، سیکڑوں لیٹر پیٹرول مفت ملتا ہے، ہوائی سفر کیلئے ٹکٹ بھی مفت اور قیام و طعام کیلئے بھی حکومت ادائیگی کرتی ہے۔
عوام کی خدمت کیلئے ایوانوں میں آنے والے حکمران عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ناصرف خود بلکہ انکے خاندان بھی خوب انصاف کرتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام کو بھلے اسپتال پہنچانے کیلئے مفت ایمبولینس میسر نہ ہو لیکن افسران کے کپڑوں اور سبزی کیلئے بھی سرکاری گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
جہاں تک ٹیکس کی بات ہے تو قائد اعظم محمد علی جناح اپنی تنخواہ میں سے آدھے سے زیادہ حصہ ٹیکسز میں ادا کرتے تھے لیکن موجودہ دور کے حکمران ٹیکس دینا تو دور کی بات ہے لاکھوں روپے تنخواہ کے باوجود ہر چیز پر سبسڈی لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔