نشہ شراب کا ہو،چرس یا آئس کاہر صورت میں انسان کو نقصان پہنچاتا ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد روز بڑھتی جارہی ہے اور صرف گلیوں محلوں میں آوارہ گھومنے والے نشے کے عادی افراد ہی نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں اچھے گھرانوں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی تیزی سے نشے کی لت کا شکار ہورہے ہیں۔
پاکستان میں شراب اور چرس کا استعمال تو بہت زیادہ عام رہا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے آئس یا کرسٹل میتھ کانشہ امیر طلبا اور نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔
شراب اور چرس کا نشہ سستا ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ عام ہے لیکن آئس کا نشہ مہنگا ہونے کی وجہ سے ایک مخصوص طبقے کے لوگوں میں زیادہ مقبول ہے۔امیر گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں اس نشے کو پہلے بطور فیشن اپناتے ہیں اور بعد میں عادی ہوکر دنیا سے بے گانے ہوجاتے ہیں۔
آئس کا نشہ ادویات میں استعمال ہونے والے ایک مخصوص کیمیکل کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے اورادویات میں استعمال ہونے والے کیمیکل تک باآسانی رسائی کی وجہ سے مافیا جگہ جگہ آئس کی تیاری میں مصروف ہے۔
لوگوں کو نشے کا عادی بنانے کیلئے مافیا اپنے کارندوں کو اسٹوڈنٹس کے روپ میں تعلیمی اداروں میں بھجواکر طلبہ کو نشے کی لت لگاتاہے، کچھ طلبہ تعلیمی دباؤ ، کچھ گھریلو پریشانیوں اور کچھ دیگر مسائل سے چھٹکارے کیلئے نشے میں پناہ ڈھونڈھتے ہیں۔
آئس میں استعمال ہونے والا کیمیکل اعصابی نظام سینٹرل نروس سسٹم کو کچھ وقت کیلئے حد سے زیادہ ایکٹو کر دیتا ہے جس کی بدولت ایک نشہ کرنے والا 24 سے 48 گھنٹے تک باآسانی جاگ سکتا ہے نشے کی حالت میں نیند بالکل نہیں آتی اور کچھ گھنٹوں کیلئے دماغ بہت زیادہ تیزی سے کام کرنا شروع کردیتا ہے جس سے نشہ کرنے والا خود کو عام انسان سے بہت خاص اور طاقتور انسان سمجھنے لگ جاتا ہے۔
آئس کا مسلسل استعمال کرنے والے انسان میں قدرتی نیند کا ختم ہو جانا، وہم کی بیماری، ایک بات کو بار بار دہرانا، کسی کام یا بات پر توجہ نہ دے پانا، حافظہ تباہ ہونا، فیصلہ کرنے کی اہلیت کھو دینا اور وزن میں بہت زیادہ کمی کے علاوہ دوسروں اور کبھی خود پر تشدد بھی عام ہے۔
آئس کے نشے کا احساس 12 گھنٹے تک رہ سکتا ہے لیکن اس کے استعمال سے فوراً پیدا ہونے والا ’شدید نشہ‘ جلد ہی اترنا شروع ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ نشہ کرنے والے لوگ بار بار نشے کا ڈوز لیتے ہیں۔
مافیا تعلیمی اداروں میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے ایسے لڑکے لڑکیوں کو بھی خاص طور پر ٹارگٹ کرتے ہیں جو پیسے سے نشہ نہیں خرید سکتے۔ ایسے نوجوانوں کو پہلے مفت نشے کی لت لگائی جاتی ہے اور بعد میں انہیں مقروض ٹھہرا کر ان سے مختلف جرائم کروائے جاتے ہیں۔
لڑکیوں کو بغیر پیسوں کے نشے کا عادی بناکر جنسی زیادتی کرنے کے علاوہ ان کی نازیبا ویڈیوز بناکر انٹرنیٹ پر فروخت کی جاتی ہیں اور دیگر کئی جرائم کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔عیاش اور بری صحبت کا شکار نوجوان جنسی صلاحیت بڑھانے کیلئے بھی آئس کا استعمال کرتے ہیں اور نشے کے استعمال سے غیر انسانی حرکات کا ارتکاب کرتے ہیں۔
پاکستان میں آئس کا نشہ کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے اور نشہ بیچنے اور استعمال کرنے والوں کو سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے کرسٹل میتھ کا کاروبار تیزی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان کو نوجوان نسل کو اس زہر سے بچانے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کے معماروں کو نشے کی اس اندھیری دنیا سے نکالا جاسکے۔