25 دسمبر 2012 کو کراچی میں شاہ زیب نامی نوجوان کے قتل میں ملوث ملزم شاہ رخ جتوئی کو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے بری کردیا ہے۔ 10 سال بعد ہونے والے اس انصاف نے لوگوں کے ذہنوں میں ایک بار پھر عدالتی نظام کے حوالے شکوک و شہبات کو جنم دیا ہے۔
عوام ایک بار پھر امیر اور غریب کیلئے انصاف کے الگ پیمانوں پر سوال اٹھارہے ہیں تاہم یہاں بہت سے لوگ ایسے بھی ہی جو حقائق سے یکسر ناواقف ہیں۔تو آیئے اس واقعہ اور اب تک کے حالات کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
25 دسمبر 2012 کی اس سرد شام کو ایک خبر نے پاکستان کے میڈیا میں خوب تہلکہ مچایا جس میں ایک حاضر سروس پولیس افسر کے بیٹے کو ایک وڈیرے کے بیٹے نے بہن کو چھیڑنے سے منع کرنے پر قتل کردیا گیا تھا۔
یوں تو پاکستان میں روز درجنوں لوگ قتل ہوتے ہیں اور 2012 میں تو ویسے بھی بدامنی کا زمانہ تھا جب کراچی میں درجن بھر لاشیں گرنا تو ایک معمول کی بات سمجھی جاتی تھی لیکن اس کیس میں وڈیرے کے بیٹے کی موجودگی نے معاملے کو زیادہ ہائی لائٹ کردیا۔
2012 میں یہ واقعہ ہوا اور اگلے سال یعنی 2013 میں قاتل اور مقتول کے خاندان میں صلح کی خبریں بھی سامنے آئیں اور مقتول کے خاندان نے عدالت میں بیان جمع کروایا کہ انھوں نے ملزمان کو قصاص فی سبیل اللہ معاف کر دیا ہے جس کے بعد عدالت نے چاروں مجرموں کو رہا کر دیا۔
مقتول کے خاندان کی طرف سے معافی کے بعد شاہ رخ جتوئی اور ساتھیوں کی رہائی کے بعد کیس میں ایک نیا موڑ آیا جب اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری نے معاملے کا نوٹس لیا اور ملزمان کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دیا۔
اب یہاں ایک نیا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ شاہ رخ جتوئی دبئی جاچکا تھا لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ پولیس نے ملزم شاہ رخ جتوئی کو دبئی سے گرفتار کرکے پاکستان کی عدالت میں لاکر پیش کیا۔
شاہ رخ جتوئی کو دبئی سے لانے کیلئے جانے والے اس وقت کے سندھ پولیس کے ایس ایس پی نیاز احمد کھوسہ بتاتے ہیں کہ شاہ رخ جتوئی نے انہیں اپنے بیان میں بتایا کہ اصل واقعہ کچھ یوں تھا کہ شاہ زیب کی بہن کی شادی تھی اور مقتول اپنی بہن کو بیوٹی پارلر سے لے کر آیا اور پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی۔
پارکنگ میں موجود ڈرائیور لاشاری دلہن کو ٹکٹکی باندھے گھور رہا تھا جس پر شاہ زیب نے شالاری پر تھپڑوں کی بارش کردی۔ اب برابر میں شادی کی تقریب تھی، شور سن کر شاہ زیب کے دوست اور رشتے دار بھی جمع ہوگئے اور لاشاری کو مارنا شروع کردیا۔
نیاز احمد کھوسہ کے مطابق شاہ زیب کی بہن کی شادی میں آئے مہمان کا ڈرائیور لاشاری مار کھاتے کھاتے قریب سے گزرتی گاڑی کے بونٹ پر جاگرا اور گاڑی میں موجود شاہ رخ جتوئی غصے میں باہر نکلا اور شاہ زیب کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔
اب یہاں سے کہانی میں نیا موڑ آیا جب شاہ زیب اور اس کے دوستوں نے ملکر لاشاری کو چھوڑ کر شاہ رخ کو مارنا شروع کردیا۔ یہاں شاہ زیب کے والد نے بیچ بچاؤ کروایا اور شاہ رخ کو وہاں سے روانہ کردیا۔
مار کھا کر گھر پہنچنے پر شاہ رخ کے کزن سنی جتوئی اور رشتے دار بھی غصہ میں آگئے اور شاہ رخ کے ساتھ اسلحہ لے کر شادی کے مقام پر پہنچ گئے، اب جب شاہ زیب نے دیکھا کہ لڑکے اس سے لڑنے آئے ہیں تو اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن گاڑی الٹ گئی اور اسی اثنا میں شاہ رخ کے کزن سنی جتوئی نے شاہ زیب پر گولیاں برسادیں۔
مقتول کے خاندان نے ملزم کو 2013میں معاف کردیا تھا اور یہ بھی سننے میں آتا رہا کہ شاہ زیب کے خاندان کو بھاری رقم اور بیرون ملک زمین بھی دی گئی تاہم شاہ زیب کے والدین اور خود شاہ رخ کے بھائی بھی اس کی تردید کرتے رہے۔
کیس کا نتیجہ کچھ بھی ہو ،غصے اور طاقت کے غلط استعمال نے ایک ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا، شاہ زیب خان دنیا سے جاچکا ہے، اس کے والد بھی اس دنیا سے رحلت کرچکے ہیں، آج سپریم کورٹ نے بھی شاہ رخ جتوئی کو بری کردیا ہے۔ امید ہے کہ اس کیس میں شرعی اور قانونی اصولوں کو ضرور مد نظر رکھا گیا ہوگا اور ہمیں امید ہے کہ اس ویڈیو کے ذریعے کیس سے متعلق آپ کی معلومات میں ضرور اضافہ ہوا ہوگا۔