ملک کا بچہ بچہ آج بھی ان کی بہادری کی تعریفیں کرتا نہیں تھکتا۔ جی ہاں ہم یہاں بات کر رہے ہیں پائلٹ آفیسر راشد منہاس کی۔ جنہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے آج 50 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے مگر اب ان کا 10 اگست 1967 کی ڈائری کا ایک صفحہ وائرل ہو رہا ہے جسے کچھ لوگ خط بھی سمجھے رہے ہیں لیکن ایسا نہیں۔
راشد منہاس کراچی کے انگریزی اسکول سینٹ پیٹرک میں پڑھا کرتے تھے اسے لیے اردو میں تھوڑے کمزور تھے" لہذٰا 10 اگست کو جب وہ اپنی میز پر آ کر بیٹھے تو سوچکا کہ کچھ پڑھ لیا جائے۔ راشد نے لکھا کہ میرا یہ ڈائری لکھنا بھی پڑھنے کا ہی حصہ ہے کیونکہ میں اپنی اردو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
ساتھ ہی ساتھے یہ بھی لکھا کہ آج ہم ماموں سرور کے گھر گئے اور کچھ ایک ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ہے ہمیں وہاں سے آئے ہوئے ۔آج ان کے گھر مجھے کافی عجیب بات محسوس ہوئی اور مجھ کو خیال آیا کہ میں ایک بڑی غلطی کر بیٹھا ہوں اور اب میں اس لیے پشتا رہا ہوں۔
اور آج میں نے دل میں پکا وعدہ کر لیا ہے کہ میں آرمی کے تمام یونٹس میں سے کسی ایک میں ضرور جاؤں گا ۔اب کچھ بھی ہو جائے آرمی میں ہی جا کر رہوں گا۔ یہی نہہں میں نے وہاں کچھ ایسی چیزیں بھی لکھی ہوئی دیکھیں کہ میں نے دل میں سوچ لیا کہ میں فوج میں جاؤں گا "۔
یہاں آخر میں آپکو یہ بھی بتاتے چلیں کہ راشد منہاس پاک فوج میں سب سے کم عمر جوان ہیں جنہیں نشان حیدر جیسا بڑا اعزاز دیا گیا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ 20 اگست 1971 کو یہ اپنی تربیتی پرواز پر تھے اور ان کے ساتھ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان بھی تھے۔ لیکن مطیع الرحمان نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے نوجوان پائلٹ پر ضرب لگائی اور طیارے کا رخ بھارت کی جانب موڑ دیا۔
مگر ملک کے اس عظیم ہیرو نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور طیارے کا رض زمین کی جانب کر دیا اور جام شہادت حاصل کیا مگر دشمن کو اپنی چال میں کامیاب نہ ہونے دیا ۔