اسلام آباد: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ملک میں نئے عام انتخابات کے حوالے سے حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں تاخیر سے پاکستان کو نقصان ہوگا۔ شہباز شریف کے پاس سوائے پیسے مانگنے کے کوئی پلان نہیں ہے۔ ہمیں دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، اگر یہ اسی طرح چلتے رہے تو پھرہم زیادہ دیر صبر نہیں کرسکتے اور عوام کو احتجاج کی کال دینگے۔
عوام سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہماری معیشت تیزی سے نیچے جارہی ہے، جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا تب تک معیشت میں استحکام نہیں آسکتا۔
انہوں نے کہا کہ میں دعویٰ کرتا ہوں پاکستان کی تاریخ میں تحریک انصاف جیسی کوئی مقبول جماعت نہیں، پورے پاکستان کو اگر کوئی جماعت اکٹھا رکھ سکتی ہے تو تحریک انصاف ہے، شہباز شریف کو ایف آئی اے کیس میں سزا ہونے والی تھی، اس کی 60 فیصد کابینہ ضمانت پرہے، یہ صرف اپنے کیسز معاف کرارہے ہیں، ان کو پاکستان کی کوئی فکر نہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ عمران خان فتنہ، انتشار، فارن فنڈڈ اور پاکستان کی تباہی ہے، عمران خان کو پیسے دے کر ملک کو تباہ کرنے کیلئے لانچ کیا گیا، کوئی بھی پاکستانی نیازی کے شر سے محفوظ نہیں، کسی کی عزت اچھال کر بعد میں معافی مانگنا ان کا شیوہ ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ سیاست میں مذہب کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، عمران خان جاتے جاتے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے گئے، یہ سب کچھ وفاقی حکومت پر ڈال کر پتلی گلی سے فرار نہیں ہو سکتے، شہبازشریف نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا، تنخواہ سے زیادہ لوگوں کے بلز آ رہے ہیں، حکومت سے درخواست ہے عوام کا خیال کریں۔
نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا ہے کہ جس شخص نے آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازع بنایا اس شخص کا نام ہی فتنہ خان ہے، عمران خان نے اقتدار میں فوج کی تعریفیں کی جب اقتدار سے اتر گئے تو ایک ادارے کو کبھی نیوٹرل کہا، پھر کہا جو نیوٹرل ہے وہ جانور ہے، پھر اسے متنازع بنایا، اب اگر وہ کسی ایک بات پر قائم رہیں تو ان سے بات کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب نئے انتخابات کے بعد اگلے پانچ برس کے لیے حکومت آجائے گی تو نئی پالیسیاں وضع کی جائیں گی، عمران خان ملک میں فوری انتخابات چاہتے ہیں تو پہلے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی تحلیل کریں پھر بات کرینگے۔