میانی صاحب قبرستان لاہور کا سب سے بڑا قبرستان ہے، اس کی ابتدا مغل عہد سے ہوئی جو اسے خطے کا قدیم ترین قبرستان بناتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس قبرستان میں تقریباً چار لاکھ قبریں موجود ہیں۔ قبرستان کے بیچ میں سے گزرنے والی چھوٹی بڑی سڑکیں اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ اس زمین میں بڑے بڑے صوفیاء، شاعر، افسانہ نگار، قومی ہیرو، صحافی، فوجی اور آرٹسٹ مدفون ہیں۔
اپنی تاریخی حیثیت کے علاوہ میانی صاحب قبرستان کو مختلف قصے کہانیوں کی وجہ سے بھی شہرت حاصل کی۔ گزشتہ کئی برسوں سے میانی صاحب قبرستان میں رات کو قبروں سے آوازیں آنے اور جنات کی شادیوں کے حوالے سے قصے مشہور تھے۔
سوشل میڈیا سے وابستہ کئی یوٹیوبرز نے گورکنوں سے منسوب کہانیاں یوٹیوب و دیگر سائٹس پر ڈال کر لوگوں کو وسوسوں میں مبتلا کردیا تھا تاہم اب ایک سروے کے دوران میانی صاحب قبرستان میں تقریباً 50 سال سے خدمت کرنے والے گورکنوں کا دعویٰ ہے کہ اس قبرستان سے متعلق قصے من گھڑت اور جھوٹے ہیں۔
گورکن کا کہنا ہے کہ لوگ محض سستی شہرت کیلئے فرضی کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو سناتے ہیں لیکن ہم نے آج تک اس قبرستان میں کوئی غیر معمولی حرکت نہیں دیکھی۔
قبرستان میں برسوں سے پھول فروخت کرنے والے دکاندار کا کہنا ہے کہ جہاں درود پاک پڑھا جاتا ہے وہاں شیطانی قوتیں کبھی نہیں پھٹکتیں، اس قبرستان میں ہر وقت لوگ اپنے پیاروں کیلئے دعا و درود پڑھتے ہیں اس لئے یہاں کوئی جنات یا آسیب نہیں ہے۔