ڈاکٹر اسرار یہ وہ نام ہے جس سے ہر پاکستانی واقف ہے لیکن ہر کوئی بس یہی جانتا ہے کہ یہ ایک مشہور مذہبی اسکالر اور عالم دین تھے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم آپکو ان کی زندگی سے جڑے کچھ ایسے واقعات سنانے جا رہے ہیں جو شاید ہی اس سے پہلے آپ نے کبھی سنے ہوں، آئیے جانتے ہیں۔
ڈاکٹر اسرار ایک نہایت ہی سادہ انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کے 25 سال ایک مسجد کے ساتھ بنے ہوئے گھر میں گزار دیے اور تو اور یہ گھر بھی ان کا اپنا نہیں بلکہ قران اکیڈمی کے نام سے قائم ادارے کی ملکیت ہے۔ جب ان سے سوال ہوا کہ اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود بھی آپ زندگی کی کسی آسائش کے بغیر یہاں کیسے رہ لیتے ہیں۔
تو انہوں نےکیا خوب جواب دیا کہ میرے پاس زندگی تمام آسائشیں ہیں آپ خود دیکھ لیں سونے کیلئے ایک بس یہ بیڈ ہے، کمرے کے ایک کونے میں لکھنے کیلئے میز اور کرسی ہے۔
مزید یہ کہ یہ جو صوفہ ہے یہ صوفہ نہیں بلکہ صوفہ کم بیڈ ہے جو بیڈ بھی بن جاتا ہے اور اسی پر میری اہلیہ آرام فرماتیں۔ اگر جب گرمی کا احساس ہو تو یہ چھوٹی سی فریج ہے اس سے ٹھنڈ ا پانی لے کر پی لیتا ہوں۔
یہی تمام آسائشیں جن پر میں بہت خوش ہوں اور اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں۔ ان کے نفیس و سادہ انسان ہونے کی سب سے بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ وہ صبح نہایت ہی سادہ اور تھوڑا سا ناشتہ کرتے تھے۔
جس کے بعد گھر کے ساتھ ہی بنے ادارے میں اپنی خدمات فراہم کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسرار ڈاکٹر کی فیلڈ چھور کر ہمیشہ کیلئے مذہب کی طرف کیوں آ گئے۔
تو اس کا جواب کچھ یوں تھا کہ میں نے پڑھا اور اپنے شوق کی وجہ سے ڈاکٹر بنا بھی لیکن پھر سوچا کہ دین کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے اور ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو دین کا زیادہ سے زیادہ علم دینا بھی ضروری ہے تو بس اسی وجہ سے اس طرف آ گیا۔
اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ انتقال سے کچھ دن پہلے بھی یہ لوگوں کو تبلیغ ہی کر رہے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آخری دعا انٹرنیٹ پر خوب مقبول ہوئی۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر اسرار انڈیا کی ریاست ہریانہ کے علاقے حصر میں 26 اپریل 1932 کو پیدا ہوئے۔ پھر 1954 میں کنگ ایڈرورڈ میڈیکل کالج سے گریجویشن کی اور 1965 میں جامعہ کراچی سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔
جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم سے سفر شروع کرنے والے اسرار صاحب 14 اپریل 2010 کو انتقال کر گئے۔ یہی نہیں انہوں نے 1978 میں پاکستان ٹیلی ویثرن پر مذہبی پروگرام شروع کیا اور بعد میں نجی ٹی وی پر قران ٹی وی کے ساتھ منسلک رہے اور 1981 میں انہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔