اکثر سننے میں آتا ہے کہ انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں سرکاری ذمہ داری نہ دی جاتی دلیل یہ تھی کہ تم ایک غلام قوم پر حکومت کر کے آئے ہو جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گئی ہے، یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے گی تو تم آزاد قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے۔
پاکستان اس سال اپنی آزادی کی 75 ویں سالگرہ منارہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام آج بھی کسی نہ کسی طرح غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا سرکاری ملازم عوام کو اپنی رعایا سمجھ کر حکم چلانا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا پسند کرتا ہے۔ یوں تو سرکاری ملازم کو پبلک سرونٹ یعنی عوام کا خادم کہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔
یہاں سرکاری ملازم خود کو کسی اور سیارے سے آئی مخلوق سمجھتے ہیں، عوام کے ٹیکس کے پیسے سے پلنے والے افسران عوام سے بات کرنا اپنی شان کیخلاف سمجھتے ہیں اور اکثر و بیشتر اداروں میں عوام کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں صرف افسران ہی نہیں بلکہ افسران و ملازمین کے اہل خانہ اور عزیز رشتے دار بھی اپنی گاڑیوں حتیٰ کہ موٹر سائیکل پر بھی گورنمنٹ آف پاکستان لکھوا کر دوسروں پر رعب جماتے نظر آتے ہیں۔
ایک مقروض اور معاشی طور پر بد حال ملک کے سرکاری افسران کے پاس کروڑوں روپے کی گاڑیاں اور ملازمین کی قطاریں ہیں جس کو دیکھ کر انگریز خود بھی حیران ہوتے ہونگے کہ اگر اس قوم نے غلام ہی رہنا تھا تو ہمیں نکالنے کی کیا ضرورت تھی۔
یہاں ملازم تو ملازم ان کے رشتے دار بھی عام شہریوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر کہیں کوئی شہری ملازمین یا ان کے اہل خانہ کی گاڑی کو اوور ٹیک کرنے کی جسارت بھی کرلیں تو ان کو ایک جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔
معروف صحافی اور میزبان آفتاب اقبال سے منسوب ایک بیان کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری ملازمین کی گاڑی پر گورنمنٹ آف پاکستان کے بجائے سرونٹ آف پبلک لکھ دیا جائے تو شائد سرکاری ملازمت کی دھونس جمانے والے افسران و ملازمین کی اکڑ کم ہوجائے۔