مجھے اپنی سب قیمتی چیزیں دے دو ورنہ میں تم پر الزام لگا دوں گی کہ تم نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے۔
یہ الفاظ تھے ایک لڑکی کے جس نے قائد اعظم سے ٹرین میں بدتمیزی کی مگر قائد اعظم نے اپنی حاضر دماغی سے اس کی ہی چال الٹی کردی۔ ہم سب زیادہ تر یہی جانتے ہیں کہ قائداعظم نے ملک بنایا ہے مگر آج آپکو ان کی ذہانت، قابلیت اور حاضر دماغی وہ واقعات بتانے جا رہے ہیں جسے سننے کے بعد آپکو ان پر اور بھی زیادہ فخر ہوگا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قائد لندن کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور وہاں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جہاں ان کی نشست ان کے استاد کے برابر میں تھی، انکا استاد تھا تو مسلمان مگر ان سے بہت نفرت کرتا تھا جب استاد نے انہیں اپنے ساتھ بیٹھے دیکھا تو کہنے لگا کہ کیا آپ جانتے ہو کہ سور اور پرندہ کبھی بھی ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے۔
تو قائداعظم نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ آپ پریشان نہ ہوں میں یہاں سے اڑ جاتا ہوں ۔اس کے علاوہ قائداعظم سے اکثر سوال ہوتا کہ آپ اپنا الگ 2 سیٹوں والا کمپارٹمنٹ لے کر سفر کرتے ہیں جبکہ گاندھی تو عام لوگوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں تو جناح کہتے ہیں کہ میں اپنی جیب سے اپنا خرچ اٹھاتا ہوں جبکہ گاندھی کے سفر کے پیسے بھی کانگریس ادا کرتی ہے۔
اور تو اور انہوں نے یہ بھی ایک جگہ فرمایا کہ میں لکھنؤ سے بمبئی کی جانب سفر کر رہا تاں میرے کمپارٹمنٹ میں لڑکی آ کر بیٹھ گئی جو کچھ ہی دیر میں مجھے کہتی ہے کہ اپنا جو کچھ قیمتی سامان ہے مجھے دے دو تو میں نے اسے ایسا محسوس کروایا کہ جیسے میں نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
اس کے دوبار کہنے پر اور جب اس نے میری توجہ حاصل کرنے کیلئے آگے ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ اگر مجھے اپنا قیمتی سامانا نہ دیا تو میں تم پر میرے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام لگا کر لوگوں کو یہاں اکٹھا کر لوں گی۔
اس بات کے بعد میں نے اسے اشارے سے سمجھایا کہ بہرہ ہوں کچھ سنائی نہیں دے رہا ہے مجھے کاغذ پر لکھ دو ، بس پھر کیا تھا اس نے جیسے ہی کاغذ پر لکھ کر دیا تو قائداعظم نے ٹرین کی چین کھینچ دی اور اسے ٹرین انتظامی کے حوالے کر دیا۔
یہی وہ تما وجوہات تھیں جس کی وجہ سے قائد 2 سیٹوں والے کمپارٹمنٹ میں سفر کرتے تھے۔
آخر میں آپکو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایک مرتبہ آپ کالج میں خطاب کر رہے تھے تو ہندو طالب علم نے کہا کہ آپ کیوں مسلمانوں اور ہندؤں کو الگ کروانا چاہتے ہیں تو قائداعظم اس سوال پر کچھ دیر کیلئے چپ ہوئے تو ہندو طالب علموں نے شور مچا دیا کہ مسلمانوں کے لیڈر کے پاس جواب نہیں شور بڑھتا دیکھ کر انہیں خواد قائد نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے چپ کروایا۔
اور پانی کا گلاس منگویا اور تھوڑا سا پی کر اسی ہندو طالب علم کو کہا کہ اب آپ پیو جس پر وہ حیران ہوا اور پانی پینے سے انکار کر دیا، پھر یہی گلاس قائد نے مسلمان بچے کی طرف بڑھایا جو اسے پی گیا جس کے بعد قائد نے فرمایا یہی فرق ہے آپ میں اور ہم میں ۔