واقعہ کربلا ایک عظیم قربانی کا معاملہ ہے جو اپنے دین کی سربلندی کے لیے رسولِ خُدا ﷺ کے نواسوں اور اہلِ خانہ نے کرکے دکھایا جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی وہ واقعہ اپنی نسبت کا پہلا اور آخری واقعہ ہے جہاں شہادت کا جنون بھی تھا، نانا کا دین بھی بچانا تھا، حق اور باطل کی جنگ بھی تھی اور سچائی کے راستے پر چل کر خود کو خُدا کے قریب بھی لانا تھا۔ اس واقعے سے ہمیں صبر و قناعت کا سبق بھی ملتا ہے اور ماؤں کی قربانیوں کا بھی، جن کا کوئی ثانی نہیں۔
ایک ماں، ایک بہن، ایک بیٹی جب جب رسولِ خُدا کے نواسوں ﷺ کی شہادت کا واقعہ سنتی ہیں ان کی آنکھوں میں زارو قطار آنسو بہتے ہیں، جتنا بھی ضبط کرنا چاہیں تکلیف کی شدت محسوس کیے بغیر بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ چند ماہ کے شہزادے علی اصغر ہوں یا 16 سالہ جوان حضرت قاسم، حضرتِ عباس کا تذکرہ ہو یا پھر حسین ابنِ علی اور حسن رضہ اللہ ۔۔ ہر شہادت اپنے ساتھ ایک سچا فرزندانِ رسول ﷺ رکھتی ہے۔
7 محرم الحرام کے دن حضرت قاسم کی مہندی تھی، لیکن انہیں اس رات شہید کر دیا گیا تھا۔ اتنا جوان بیٹا ماں سے جُدا ہوگیا، کیا عالم ہوگا خیمے میں موجود اس ماں کا جو بیٹے کے ہاتھ پیلے کرنے کے خواب سجائے بیٹھی تھی۔ ایک ماں پر کیا گزرتی ہے جب اتنے جوان بیٹے انہیں دنیا میں تنہا چھوڑ جائیں۔
واقعہ کربلا کے ہر موڑ پر صبر کا درس ہے، اگر صرف جوان بیٹے کی موت پر ماں کا صبر دیکھا جائے تو وہ دنیا میں شاید سب سے زیادہ عظیم سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی ماں کے لیے آسان نہیں ہے بیٹے کی جدائی، لیکن بعض اوقات یہ غم کے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔
معاشرے میں کچھ ایسے بے حس لوگ بھی موجود ہیں جو کسی کے غم کو سمجھنے سے زیادہ اس پر تنقید کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک ماں کے 3 بیٹے اس کے سامنے دنیا سے چلے گئے تو لوگوں نے اس پر تنقید کرنی شروع کردی کہ یہ تو بیٹوں کو کھا گئی، خود اب تک زندہ ہے بچے دنیا سے چلے گئے، کیا زندگی و موت کا اختیار انسان کے ہاتھ میں ہے؟ ؟ ؟
ہمارا مذہب جہاں ہمیں زندگی جینے کے سلیقے سکھاتا ہے وہیں صبر و قناعت کا سبق بھی دیتا ہے۔ انسان ایک دوسرے سے تو شکایت کرسکتا ہے لیکن خُدا کے معاملوں میں کسی کو عمل دخل حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ ایک مرتبہ یہ سوچیں کیا عظیم مائیں ہیں وہ جنہوں نے اپنے سامنے اپنے بچوں کو یوں خُدا کے حضور شہادت پاتے دیکھا لیکن اُف تک نہ کی اور خُدا کی مرضی کو قبول کیا۔ آج کے دور میں بھی اگر مائیں اپنے بچوں کو تربیت میں دینداری سکھائیں تو یقیناً وقتِ آخر خود ماؤں کے لیے بچے قابلِ رشک بنیں۔